** تحریر : کرٹ وونیگٹ (امریکہ) **
**اردو قالب : قیصر نذیر خاورؔ (لاہور) **
یہ سن 2081 ء تھا اور ہر بندہ بالآخر دوسرے کے برابر ہو گیاتھا۔ وہ خدا کے سامنے برابر تھے ، قانون کے سامنے بھی بلکہ ایسا بھی کہ ہر زاویے سے ان میں مساوات نظر آنے لگی تھی۔ کوئی دوسرے سے زیادہ چالاک نہ رہا تھا۔ کوئی دوسرے سے زیادہ حسین نہیں رہا تھا۔ کوئی دوسرے سے زیادہ طاقتور یا چست نہ رہا تھا۔یہ ساری مساوات آئین کی شق نمبر 211، 212 اور 213 ویں ترمیموں اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ’ہینڈیکیپر‘ حاکم کے ایجنٹوں کی کڑی نگرانی کے باعث ممکن ہوئی تھی۔
البتہ زندگی کے بارے میں کچھ چیزیں ابھی بھی درست نہیں تھیں۔جیسے اپریل کا مہینہ لوگوں کو ابھی بھی اس بات پر پاگل کر دیتا تھا کہ وہ بہار لانے والا مہینہ نہیں رہا تھا۔ اسی سرد اور چپچپے مہینے میں ’ ایچ ۔ جی‘ (H . G) کے آدمیوں نے جارج اور ہیزلبرگیرون کے چودہ سالہ بیٹے کو اٹھا لیا تھا۔
یہ المیہ تھا، ٹھیک، لیکن جارج اور ہیزل نے اس بات کو خود پر طاری نہیں کیا۔ ہیزل مکمل طور پر ایک درمیانی ذہانت رکھنے والی خاتون تھی جس کا دماغ چھوٹی چھوٹی باتوں سے آگے سوچ ہی نہیں پاتا تھاجبکہ جارج جو ذہانت میں ’نارمل‘ سے کہیں اوپر تھا ،لیکن اس کے کان میں وہ ننھا سا ، دماغ کو مفلوج کرنے والاریڈیو لگا تھاجو قانوناً اسے ہر وقت لگا ئے رکھناپڑتا تھا۔ یہ سرکار کے ٹرانسمیٹر سے منسلک تھا جو ہر بیس سیکنڈ کے لگ بھگ جارج جیسے لوگوں کو اپنے دماغوں کا ناجائز استعمال کرنے سے روکنے کے لئے ایک تیز شور والی آواز بھیجتا تھا۔
ہیزل اور جارج ٹیلیویژن دیکھ رہے تھے۔ ہیزل کی گالوں پر آنسوئوں کے قطرے تھے لیکن وہ بھول چکی تھی کہ وہ روئی کیوں تھی۔
ٹیلیویژن کی سکرین پر رقاصائیں ناچ رہی تھیں ۔
جارج کے سر میں آواز بھنبھنائی اور اس کے خیالات اس طرح منتشر ہو گئے جس طرح چور ، ’سنیدمار گھنٹے‘ (Burglar Alarm) کی آواز سے تتر بتر ہو جاتے ہیں۔
’’ یہ سچ میں ایک اچھا رقص تھا، وہ جو انہوں نے ابھی کیا۔‘‘،ہیزل بولی۔
’’ ہُو ‘‘ ، جارج کے منہ سے یہی نکل سکا۔
’’وہ رقص ۔ بہت اچھا تھا۔‘‘ ،ہیزل نے پھر کہا۔
’’ ہاں‘‘ ، جارج بولا، اس نے رقاصائوں کے بارے میں ذرا غور کرنا چاہا۔ حقیقت میں وہ کچھ زیادہ اچھی بھی نہیں تھیں ، اس طرح کا رقص تو کوئی بھی کر سکتی تھیں ، خیر دفع کرو۔وہ لباس کو سنبھالے رکھنے والے اوزان اور پرندوں کو مارنے والے کارتوسوں کے تھیلوںسے لدی ہوئی تھیں، ان کے چہرے مکھوٹوں میں اس لئے چھپائے ہوئے تھے کہ کہیں لوگ ان کے حسین چہروں کے آزادانہ اور پیارے تاثرات دیکھ نہ پائیں اور وہ ایسی بلیاں ہی نظر آئیں جنہیں اسی طرح ناچنے کے لئے سدھایا گیا ہو۔ جارج کے دماغ میں ابھی اس خیال نے سر اٹھایا ہی تھا کہ رقاصائوں کو ذہنی طور پر مفلوج نہیں کرنا چاہیے کہ اس کے کان میں لگے ریڈیو کے شور نے اس کی سوچوں کو بکھیر کر رکھ دیا۔جارج کے چہرے پر کرب ابھرا۔ ایسا ہی کچھ ان آٹھ رقاصائوں میں سے دو کے ساتھ ہوا تھا۔
ہیزل نے جارج کے چہرے پر کرب کو دیکھا۔ اسے چونکہ دماغی طور پر مفلوج نہیں کیا گیا تھا اس لئے اس نے پوچھا کہ یہ کیسی آواز تھی جس نے یہ کرب پیدا کیا تھا ۔
’’کچھ ایسی ،جیسے کوئی گول پیندے والے ہتھوڑے سے دودھ کی بوتل کو ایک گہری ضرب لگا رہا ہو۔‘‘ ،جارج نے جواب دیا۔
’’میں سوچتی ہوں کہ ان سب مختلف آوازوں کو سننا کتنا دلچسپ ہو گا۔‘‘ ،ہیزل نے قدرے رشک کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔’’ وہ تمام چیزیں جنہیں وہ استعمال کرتے ہیں۔‘‘
’’ اُم‘‘، جارج کے منہ سے نکلا۔
’’اگر میں ’ہینڈیکیپر‘ حاکم ہوتی،تو تمہیں پتہ ہے کہ میں کیا کرتی؟‘‘،ہیزل نے کہا۔ہیزل اصل میں ’ہینڈیکیپر‘ حاکم سے کافی مشابہت رکھتی تھی، جو ڈیانا مون گلیمر نامی ایک عوت تھی۔’’ اگر میں ڈیانا مون گلیمر ہوتی‘‘ ،ہیزل نے مزید کہا، ’’ میں صرف گھنٹیوں کی وہ جھنکار سناتی جو اتواروں کو ہی سنائی دیتی ہے۔ مذہب کے تقدس کو خراج پیش کرنے کے لئے ۔‘‘
’’ اگر یہ صرف گھنٹیوں کی جھنکار ہو، تو میں ’ سوچ ‘ سکتا ہوں‘‘ ،جارج بولا۔
اچھا! تو میں شاید اس چھنکار کو بہت ہی اونچا کر دیتی ‘‘، ہیزل بولی، ’’ میرا خیال ہے کہ میں ایک اچھی’ ہینڈیکیپر‘ حاکم بن سکتی ہوں ۔‘‘
’’ اچھی، جیسا کہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
’’ مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ ’ نارمل‘ کیا ہوتا ہے؟‘‘ ،ہیزل نے جواب دیا۔
’’ٹھیک‘‘، جارج نے کہااور اس نے بے خیالی میں مبہم انداز میں ہی، اپنے غیر معمولی بیٹے ہیریسن ، جو کہ اب جیل میں تھا، سوچنا شروع کیا تھا کہ اس کے دماغ میں ’ اکیس توپوں کی سلامی‘ کی آواز نے اس کی اس سوچ کو روک دیا۔
’’او بوائے!‘‘ ،لگتا ہے کہ اس بار آواز غیر معمولی تھی، کیا ایسا نہیں ہے؟ ‘‘،ہیزل نے پوچھا۔
آواز اتنی غیر معمولی تھی کہ جارج کا رنگ سفید پڑ گیا تھا اور وہ کانپ رہا تھا۔اس کی لال آنکھوں کے حلقوں پر آنسو تیر آئے تھے۔ادھر ٹیلیویژن کی سکرین پر آٹھ رقاصائوں میںسے دو بھی سٹوڈیو کے فرش پر گر چکی تھیں اور انہوں نے بھی اپنی کنپٹیوں کو تھام رکھا تھا۔
’’ تم ایک دم بہت تھکے ہوئے دکھائی دے رہے ہو‘‘، ہیزل نے کہا۔ ’’ پیارے !تم کچھ دیر کے لئے صوفے پر لیٹ کیوں نہیں جاتے تاکہ تمہارا مفلوج کیا ہوا سر، جیسے کینوس کے ایک تھیلے میں سینتیس پائونڈ مرے ہوئے پرندں کا وزن گلے کا طوق بنا ہو، تکیے پر ٹک سکے۔۔۔۔اس کا اشارہ اس کے سر کی طرف تھا، جائو اور خود کو آرام دو۔۔۔۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گااگر کچھ دیر کے لئے تم میرے پاس نہیں ہو گے۔‘‘
جارج نے اپنے سر کو تھاما، ’’ مجھے اس سے کوئی خاص تکلیف نہیں ہے ، میں اب اس پر توجہ ہی نہیں کرتا اور اب تو یہ میرے وجود کا حصہ ہے۔‘‘
’’تم تھکاوٹ سے بالکل نچڑے ہوئے لگ رہے ہو‘‘ ،ہیزل نے کہا۔ ’’ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم اس تھیلے میں ایک سوراخ کرسکیں اور اس میں سے سیسے کی کچھ گولیاں باہر نکال پھینکیں، چند ہی سہی۔‘‘
دو سال کی قیداور باہر نکالنے پرہرگولی کے لئے دو ہزار ڈالر جرمانہ‘‘، جارج نے جواب دیا۔ ’’ اور اس پر میں تو بھائو تائو بھی نہیں کر سکتا۔ ‘‘
’’ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ جب تم کام سے گھر واپس آئو تو کچھ نکال دیا کرو ‘‘، ہیزل نے کہا۔ ’’ میرا مطلب ہے کہ یہاں تو تم نے کسی سے مقابلہ تو نہیں کرنا ہوتا، یہاں تو تم صرف بیٹھے رہتے ہو۔‘‘
’’اگر میں نے ایسا کیا تو میری دیکھا دیکھی دوسرے بھی جلد ایسا ہی کرنا شروع کر دیں گے اور ہم ایک بار پھر ’ اندھیرے دور‘ کی طرف لوٹ جائیں گے جہاں ہر بندہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے دوڑ میں لگا رہتا تھا۔تم بھی ایسا نہیں چاہو گی ، یا کہ چاہو گی؟ ‘‘
’’ مجھے تو اس بات سے نفرت ہو گی۔‘‘، ہیزل نے کہا۔
’’ دیکھا، میں نہ کہتا تھا‘‘ ،جارج بولا۔ جس لمحے بھی لوگوں نے قانون شکنی شروع کی تمہیں اندازہ ہے کہ معاشرے پر اس کے کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘
اگر ہیزل نے اس سوال کا جواب نہ دیا ہوتا تو جارج کو اس سے پوچھنا بھی نہ پڑتا ۔ اس کے دماغ میں تو ایک سائرن بج رہا تھا۔
’’یہ تو ماننا پڑے گا کہ معاشرہ ڈھ جائے گا۔‘‘،ہیزل نے جواب دیا۔
’’کیا ڈھ جائے گا؟‘‘،جارج نے خالی پن سے کہا۔
’’ معاشرہ‘‘،ہیزل نے بے یقینی سے کہا،’’ تم نے ہی تو ابھی ایسا کچھ کہا تھا۔‘‘
’’ کون جانے؟‘‘،جارج بولا۔
ٹیلیویژن پروگرام میں اچانک خبرنامے نے خلل ڈال دیا۔ شروع میں تو یہ بات سمجھ ہی نہ آئی کہ یہ کس بارے میں ہے کیونکہ انائونسر ، باقی سب انائونسروں کی طرح، اپنی آواز میں ڈالی گئی رکاوٹ پر قابو نہ پا سکا اور آدھے منٹ تک اپنے جوش پر قابو پا کرصرف اتنا ہی کہہ پایا؛ ’’ خواتین و حضرات ۔‘‘
پھر اس نے ہمت ہار دی اور لکھی خبر کا پرچہ ایک رقاصہ کو پڑھنے کے لئے دے دیا۔
’’ اس نے ٹھیک کیا ہے ‘‘، ہیزل انائونسر کے بارے میںبولی، ’’ اس نے کوشش تو کی، یہ بڑی بات ہے، اس نے اپنی خدا داد صلاحیت کا بہترین استعمال کرتے ہوئے کوشش تو کی اور اس مشقت پر، اسے ، اس کی تنخواہ میں ایک مناسب اضافہ ملنا چائیے ۔‘‘
’’خواتین و حضرات ‘‘، رقاصہ نے خبر پڑھتے ہوئے کہا، وہ غیر معمولی طور پر حسین ہو گی کیونکہ اسے بہت ہی ہیبت ناک مکھوٹاپہنایا گیا تھا۔یہ بھی آسانی سے دیکھا جا سکتا تھا کہ وہ ان تمام رقاصائوں میں سب سے زیادہ توانا اور باوقار تھی کیونکہ اسے ایسے’ ہینڈیکیپ تھیلے‘ پہنائے گئے تھے جو دو سو پائونڈ وزن رکھنے والے مردوں کو پہنائے جاتے ہیں۔
اسے بھی اپنی آواز کے لئے معذرت کرنا پڑی کیونکہ وہ جو آواز استعمال کر رہی تھی وہ کسی بھی عورت کے لئے استعمال کرنا موزوں نہ تھا۔’’ معذرت خواہ ہوں‘‘، اس کی آواز میں گرمائش ، روشنائی اور لازوال موسیقیت تھی، اس نے کہا ، اور پھر اس نے اپنی آواز کو بالکل ہی معمولی بناتے ہوئے کہنا شروع کیا؛
’’ ہیریسن برگیرون، عمر چودہ سال ‘‘، اس نے برفانی کوئوں جیسی ناگوار چنگھاڑ تی آواز میں کہا، ’’ جیل سے فرار ہو گیا ہے، جہاں اسے اس شک میں گرفتار کرکے رکھا گیا تھا کہ وہ حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔وہ ایک ذہین نوجوان ہے اور ایک اچھا کھلاڑی بھی، اور چونکہ اسے اس حساب سے مفلوج نہیں کیا گیا تھا لہذٰا اسے انتہائی خطرناک گردانا جاناچائیے۔‘‘
پھر ہیریسن برگیرون کی، پویس کی اتاری ہوئی، ایک تصویر ، سامنے سے، پھر بائیں طرف سے اور پھر دائیں طرف سے، ہر بار اوپر سے نیچے تک دکھائی گئی ۔ ساتھ میں فٹوں اور انچوں والا پیمانہ بھی تھا۔ وہ پورے سات فٹ کا تھا۔
ہیریسن کی باقی شخصیت ’بھوتیلی ‘ (Halloween) اور مضبوط تھی۔اس طرح کا توانا ہینڈیکیپ کوئی بھی پیدا نہیںہوا تھا، وہ ان تمام رکاوٹوں کو تیزی کے ساتھ پھلانگتا چلا گیاجو ’ ایچ ۔ جی‘ کے آدمیوں نے اس کے لئے موزوںجان کر کھڑی کی تھیں ۔ دماغی طور پر مفلوج رکھنے کے لئے کان والے چھوٹے ریڈیو کی بجائے ایک بھاری بھرکم ’ ایرفونز‘ کا جوڑا اس کے کانوں میں ٹھونسا گیا تھا اور ساتھ میں موٹے لہر دار عدسوں والی عینک بھی لگائی گئی تھی۔ اس عینک کے دو مقاصد تھے ، ایک تو اسے آدھا اندھا کرنا تھا اور دوسرے اسے ہر وقت ایسے درد ِسر میں مبتلا رکھنا تھا جس کی ٹیسیں اسے ہر وقت ضربیں لگاتی رہیں۔
دھات کے بیکار ٹکڑے اس کا لباس تھے۔ عام طور پر جب ایسا دھاتی لباس کسی کو پہنایا جاتا تھا تو اس میں بھی ایک توازن ہوتا تھا ، ایک’ فوجی ستھرائی ‘ نظر آتی تھی ،ان ہینڈیکیپچس میں جو طاقتور لوگوں کو پہنائے جاتے تھے لیکن ہیریسن کو تو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ چلتا پھرتا کباڑ ہے۔ زندگی کی دوڑ میں ہیریسن کو تو تین سو پائونڈ کا وزن برداشت کرنا پڑتا تھا۔
اور اس کی خوش شکلی کوختم کرنے کے لئے ’ ایچ۔ جی‘ کے آدمیوں نے تو اسے ہر وقت لال رنگ کی ایک گیند ناک پر پہننے کو دے رکھی تھی، اس کی بھنویں منڈوا دی گئی تھیںاور اس کی موتیوں جیسے سفید دانتوں کو نہ صرف کالا کیابلکہ کچھ پر ٹیڑھے میڑھے خول چڑھا دئیے گئے تھے۔
’’ اگر آپ میں سے کسی کا بھی اس سے ٹاکرا ہو جائے ، ‘‘ رقاصہ نے کہا، ’’ تو اس سے بحث میں مت الجھیے گا ، میں پھر دوہراتی ہوں ، اس سے بحث میں نہ الجھیے گا۔ ‘‘
پھر ویسا شور اٹھا جیسا دروازہ اکھاڑ پھینکنے سے اس کے قبضوں سے اٹھتا ہے۔
ٹیلیویژن کی سکرین سے محبوس لوگوں کے چیخنے اور چلانے کی آوازیں آنے لگیں اور اس پر ہیریسن برگیرون کی تصویریں اس تیزی سے بار بار دکھائی جانے لگیں جیسے زلزلے کے جھٹکوں سے چیزیں ناچنے لگتی ہیں۔
جارج برگیرون نے درست طور پر زلزلے والی کیفیت کا اندازہ لگایا تھا کیونکہ وہ اپنے گھر میں بھی پہلے کئی بار اس طرح ہوتے دیکھ چکا تھا۔ ’’ اف میرے خدایا۔ ‘‘ ،جارج بولا، ’’ یہ یقینا ًہیریسن ہی ہو گا۔‘‘
اس کی اس سوچ کو دماغ میں ہونے والے ایک دھماکے نے تتر بتر کر دیا جو اس سے ملتا جلتا تھا جب دوگاڑیاں آپس میں ٹکراتی ہیں ۔
جب جارج نے اپنی آنکھیں دوبارہ کھولیں تو ہیریسن کی تصویر ہٹ چکی تھی اور اس کی جگہ زندہ، جیتا جاگتا ہیریسن سکرین پر چھایا ہوا تھا۔شور مچاتا، مسخری کرتا ،بڑے جثے والا ہیریسن سٹوڈیو کے بالکل درمیان میں کھڑا تھا۔سٹوڈیو کے دروازے کا ٹوٹا ہوا ہینڈل ابھی بھی اس کے ہاتھ میں تھا۔ رقاصائیں ، تکینک کار، سازندے اور انائونسر اس کے سامنے گھٹنوں کے بل گرے ہوئے تھے جیسے اپنی موت کے منتظر ہوں ۔
’’ میں بادشاہ ہوں !‘‘، ہیریسن چلایا۔’’ کیا تم سن رہے ہو؟ میں بادشاہ ہوں ! ہر ایک کو فوری طوروہی کرنا ہو گا جیسا میں کہوں گا!‘‘ ،اس نے زمین پر اپنا پائوں مارااور سٹوڈیو ہل کر رہ گیا۔
’’ اب جب کہ میں یہاںمعذور کیا گیا، زنجیروں میں جکڑا اور لاچار کھڑا ہوں ۔۔۔ پھر بھی میں سب سے بڑا حاکم ہوں ، ایسا جیسا کہ کبھی پیدا ہی نہیں ہوا !اب میری طرف دیکھو کہ میں کیا کچھ بن سکتا ہوں !‘‘
ہیریسن نے ان پٹوں کو گیلے ٹشو پیپر کی طرح مسل کر اتار پھینکا جن سے اس کو ہینڈیکیپ رکھنے کے لئے اوزان باندھے گئے تھے، جن کی مضبوطی کے بارے گارنٹی تھی کہ وہ پانچ ہزار پائونڈ وزن کو بھی سنبھال سکتے ہیں۔
ہیریسن پر لدا آہنی کباڑ فرش پر آ گرا۔
پھر اس نے اس ’پیڈ لاک ‘ کی سلاخ پر انگوٹھوں کا دبائو ڈالا جس نے اس کے سر کو ہینڈیکیپ رکھنے والے آلات کو مقفل کیا ہوا تھا۔سلاخ بوٹی کے بُور کی طرح جھڑ گئی۔ہیریسن نے اپنی عینک اور ہیڈ فون دیوار پر دے مارا۔
اس نے اپنی ناک پر لگے ربڑ کے گیند کو بھی اتار پھینکا اورجو آدمی سامنے آیا وہ ایک بارعب جنگی دیوتا تھا، رعد کا خدا۔
’’اب میں اپنی ملکہ کا انتخاب کروں گا۔‘‘ ،اس نے سر جھکائے گھٹنوں کے بل بیٹھے لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ جو پہلی عورت اٹھنے کی جرات کرے گی وہ میر ی ملکہ ہونے اور تخت کی دعویدار ہو سکتی ہے!‘‘
کچھ سمے بعد ایک رقاصہ بید مجنوں کے درخت کی طرح لہرا کر اٹھی۔
ہیریسن نے اس کے کان سے دماغ کو مفلوج رکھنے والا آلہ نوچ ڈالا،نفاست اور احتیاط سے اس کے جسم پر لدے اوزان اتارے اور آخر میں ان کا مکھوٹا بھی اتار پھینکا۔
اس کا حسن آنکھیں خیرہ کر دینے والا تھا۔
’’ اب!‘‘، ہیریسن نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا،اب ہم لوگوں کو بتائیں گے کہ لفظ ’ رقص‘ کا مطلب کیا ہوتا ہے؟موسیقی!‘‘‘‘ ، اس نے حکم دیا۔سازندے اپنی اپنی نشستوں پر جا بیٹھے، ہیریسن نے ان کے بھی ’ہینڈیکیپ‘اتار ڈالے اور انہیں کہا؛ ’’ اپنی بہترین دھن چھیڑو، بدلے میں ،میں تمہیں ’ بیرن‘ ، ’ڈیوک‘ اور ’ ارل‘ بنا دوں گا۔
موسیقی بجنا شروع ہوئی۔ یہ معمولی ، گھٹیا ، بے ہودہ اور تصنع سے بھری تھی۔اس پر ہیریسن نے دو سازندوں کو کرسیوں سے کھینچا، انہیں لاٹھیوں کی طرح جھٹکے دیتے ہوئے وہ دھن گنگنائی جو وہ بجوانا چاہتا تھا۔پھر اس نے ان سازندوں کو کرسیوں پر واپس دھکیل دیا۔
موسیقی دوبارہ بجنا شروع ہوئی اور اس بار یہ پہلے سے بہت بہتر تھی۔
ہیریسن اور اس کی ملکہ نے کچھ دیر دھن کو تحمل سے سنا، جیسے وہ اسے اپنے دل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ کر رہے ہوں ۔
انہوں نے اپنے جسموں کا سارا وزن اپنے پیروں کے پنجوںپر منتقل کیا ۔
ہیریسن نے اپنے بڑے ہاتھ لڑکی کی نازک کمر کے گرد اس طرح جمائے کہ اسے اپنے بے وزن ہونے کا احساس ہو سکے۔
اور پھر جیسے مسرت اور تمکنت کا دھماکہ ہو گیا ہو اور وہ ہوا میں رقصاں ہو گئے۔
وہ نہ صرف ملک کے قانون سے آزاد ہوگئے تھے بلکہ حرکت کے قوانین اور کشش ثقل سے بھی مبرا ہو کر رقص میں مگن تھے۔
وہ بے فکری سے گولائیوں میں گھوم رہے تھے، بہک چال کے ساتھ مدہوشی کے سے عالم میں بیلے رقص کی ہر پھرتیلی حرکتوں کو عمدگی سے پیش کر رہے تھے۔جب ان کے قدم فرش کو چھوڑتے تھے تو ایسے لگتا تھا جیسے ہرن اچک کر چاند کو چھونا چاہتے ہوں ۔سٹوڈیو کی چھت تیس فٹ اونچی تھی اور ان کی ہر چھلانگ پہلے کے مقابلے میں بلند ہوتی اور چھت کے نزدیک ہوتی جاتی۔ان کی خواہش تھی کہ وہ اسے چھو سکیں اور پھر انہوں نے ایسا کر ہی لیااور وہیں محبت اور اپنی پاک خواہش سے ثقلی کشش کو متوازن کرتے ہوئے ہوا میں معلق انہوں نے ایک دوسرے کا ایک طویل بوسہ لیا۔
اسی سمے ڈیانا مون گلیمر ، ہینڈیکیپ حاکم ، دس بور کی ڈبل بیرل شاٹ گن لئے سٹوڈیو میں آئی۔ اس نے دو دفعہ گولیاں داغیں، شہنشاہ اور اس کی ملکہ فرش پر گرنے سے پہلے ہی مر چکے تھے۔
پھر ڈیانا مون گلیمر نے بندوق میں دوبارہ گولیاں بھریں اور اسے سازندوں پر تان کر بولی کہ وہ دس
سیکنڈ کے اندر اندر اپنے’ ہینڈیکیپ‘ دوبارہ پہن لیں ۔
ساتھ ہی برگیرون خاندان کے ٹیلیویژن کی پکچر ٹیوب جل گئی۔
ہیزل یہ بتانے کے لئے جارج کی طرف مڑی تو وہ وہاں نہیں تھا ، وہ باورچی خانے میں بیئر کا ’کین ‘ لینے گیا ہوا تھا۔
جارج بیئر لے کر واپس آیا ، ایک ’ہینڈیکیپ ‘ سگنل نے اسے جھنجھوڑ ڈالا، وہ رکااور پھر بیٹھ گیا۔’’تم رو رہی تھیں۔‘‘، اس نے ہیزل سے کہا۔
’’ ہاں،‘‘ وہ بولی۔
’’لیکن کیوں ؟ ‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ میںبھول گئی،‘‘ وہ بولی، ’’ٹیلیویژن پر کچھ بہت ہی افسردہ پیش ہو رہا تھا۔‘‘
’’ کیا تھا وہ؟ ‘‘، اس نے پوچھا۔
’’ اب تو میرے دماغ میں سب کچھ گڈ مڈ ہو گیا ہے‘‘ ،ہیزل نے جواب دیا۔
’’ اداس چیزوں کو بھلانا ہی بہتر ہوتا ہے‘‘،جارج نے کہا۔
’’ میں تو ہمیشہ ایسے ہی کرتی ہوں ‘‘،ہیزل بولی۔
’’ میری جان ، یہ ہوئی نہ بات‘‘ ،جارج بولا، ساتھ ہی اس کے چہرے پر کرب ابھرا۔اس کے دماغ میں بندوق داغنے کی آواز چپک کر رہ گئی تھی۔
’’جارج !میں بتا سکتی ہوں کہ تمہیں ایک’ جھٹکا‘ اور ملا ہے‘‘ ،ہیزل بولی۔
’’ تم اسے دوبارہ بھی کہہ سکتی ہو‘‘ ،جارج نے کہا۔
’’جارج !‘‘، ہیزل بولی،’’میں بتا سکتی ہوں کہ تمہیں ایک’ جھٹکا‘ اور ملا ہے۔‘‘
Original Title : ** Harrison Bergeron ( 1961) **
Written by: Kurt Vonnegut Jr. (November 11, 1922 – April 11, 2007) was an American writer known for his satirical and darkly humorous novels. In a career spanning over 50 years, he published fourteen novels, three short-story collections, five plays, and five nonfiction works; further collections have been published after his death.
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...