اس عید پر مُجھے عید مبارک کے بارہ میسجز ملے۔ سب سے پہلے چار میسجز میری بیٹیوں اور داماد حضرات کے تھے۔ باقی پیغامات بھیجنے والے چند رشتے دار اور پانچ چھ میرے بہت پیارے دوست تھے۔
عید کے تین دن عید مبارک کے لئیے آنے والی فون کالز کی ٹوٹل تعداد سترہ تھی ۔ یہ کالز کرنے والے بھی بیٹیاں، داماد ، کچھ عزیز رشتے دار اور وہی چند جگری یار تھے۔
آج ایک مووی چاہئیے تھی تو سوٹ کیس کھولا اور پرانے میموری کارڈ نکالے۔ مووی تلاش کرتے کرتے چند سال پرانے میسجز بھی سامنے آ گئے۔
سن چودہ کی عید الفطر اُنتیس جولائی کو تھی۔ میرے میموری کارڈ نے بتایا کہ اٹھائیس جولائی دو ہزار چودہ کی شام سے اکتیس جولائی چودہ کی شام تک مُجھے عید مبارک کے دو سو ستر میسجز ملے۔ اُن میں سے بھی سب سے پہلے میسجز میری بیٹیوں اور داماد حضرات کے تھے۔
اگر فون کالز یاد کروں تو عید کے چار دنوں کیلئے عید مبارک کے فون کالز کی اوسط کچھ کم یا زیادہ، ایک سو کالز روزانہ کی ہوا کرتی تھی۔ تین چار دن صُبح سے رات گئے تک بس صرف ایک ہی کام ہوتا تھا کے فون پر عید کی مبارک باد وصول کرتا رہوں۔ اُن شہروں سے بھی فون اور میسجز آتے جنہیں چھوڑے مُجھے دس پندرہ سال ہو چُکے تھے۔
شروع دن سے لوگوں کا میرے بارے خیال ہے کہ یہ بندہ انتہا کا خوش اخلاق اور ڈاؤن ٹو ارتھ ، ایک مِٹا ہوا بندہ ہے۔ مُجھے جاننے والوں کی اِتنی مُثبت رائے کے باوجود نوکری پر ہوتے ہوئے دو سو ستر میسجز اور نوکری کے بعد مبارک باد کے صرف بارہ میسجز، یہ بہت بڑا فرق ہے۔
سَن سولہ تک میں ایک سینئر سرکاری افسر تھا۔ ہر عید کی عید دو تا تین سو میسجز آتے رہے۔ نوکری چھوڑنے کے بعد سَن سترہ میں یہ میسجز کم ہو کر قریباً سو رہ گئے پھر سَن اٹھارہ ، اُنیس، بیس اور اب اکیس میں سُکڑ کر صرف بارہ ہو گئے۔
جو بات مُجھے سمجھ آئی کہ میری نوکری کے دوران مُجھے ملنے والے اُن دو تین سو میسجز میں سے صرف بارہ جبکہ روزانہ ملنے والی اُن سو کالز میں سے صرف سترہ میرے لیئے ہوتی تھیں جبکہ باقی کے تمام میسج اور کالز اُس کرسی کے لئے تھیں جس پر میں بیٹھا کرتا تھا۔
تب جس کُرسی کو میسجز اور فون کالز کی جاتی تھیں ، اُسے ملتی رہیں ۔ میرے بعد آج جو لوگ اُس کُرسی پر ہیں ، اب اُن کو مل رہی ہوں گی۔ جب آج والے لوگ وہ کُرسی چھوڑ دیں گے تو پھر اُنہیں بھی یہ عید مبارک نہیں ملا کرے گی۔ اُن لوگوں کو ملا کرے گی جو اُس کرسی پر نئے آئیں گے۔
یہ ہی زمانے کا چلن اور سکہ رائج الوقت ہے ۔