کنور ناراین اپنے عھد کے خلفشار اور تضادات کو دیکھ رہا تھا . اور اس لئے وہ ماضی میں واپسی کا خواہشمند تھا . جب مغلیہ سلطنت زوال پزیر تھی اور ایک کے بعد ایک ، گیارہ بادشاہ تخت سے اتار دیے گئے موسیقی ،فنون لطیفہ کے درمیان عظیم انسانی خدشات بھی ہوتے ہیں ، جہاں محل کی دیواریں کمزور ہو جاتی ہیں .اور امیر خسرو جیسا قلندر وقت کے دریا کو پار کرتا ہے ، تو اس کی فکر کیا ہوتی ہے . کنور ناراین کی نظم امیر خسرو دیکھئے .یہ ایک طویل نظم ہے .
ہاں غیاث دہلی کے اس ڈگمگاتے تخت پر
ایک نہیں گیارہ بادشاہوں کو
بنتے اور اجڑتے دیکھا ہے
پریشان ہو گیا ہوں اس شاہی کھیل تماشے سے
یہ تغلق نامہ بس اور نہیں۔
باقی زندگی مجھے زندہ رہنے دو
سلطانوں کی طرح نہیں
بطور شاعر آزاد فکر کے ساتھ
پدمنی کی خوبصورتی کی طرح
دیوالارانی کی محبت کی طرح معصوم
گوپالانائک کی موسیقی کی طرح
اور پاک جیسے نظام الدین اولیا۔
غیاث ایک خواب دیکھتا ہے ، "ابا جان
کیا آپ نے موسیقی میں کامیابی حاصل کی تھی ؟ ''
"نہیں بیٹا ، ہم دونوں ہار گئے۔"
دربار جیتا تھا
میں نے جو قانون بنایا تھا
اس میں صرف میری فتح کے ہی امکانات موجود تھے۔
میں جیتا
یہ میری نہیں ،عالم پناہ کی خواہش تھی۔
یہ ایک طویل نظم ہے .یہ نظم خسرو سے بات کرتی ہے .خسرو کی موسیقی کو آواز دیتی ہے .جنگ کا نغمہ سناتی ہے .مگر اس نظم میں آج کی وحشت اور دہشت کو محسوس کیا جا سکتا ہے .یہ چلتے ہوئے ہم کہاں آ گئے ؟ کس موڑ پر آ گئے .
کنور ناراین — انہوں نے ابن بطوطہ پر بھی نظمیں لکھیں .امیر خسرو پر بھی .غالب ، کفکا اور شیکسپئر سے بھی انھیں والہانہ عقیدت تھی . کفکا کے شہر میں گئے تو کفکا کی عدم موجودگی میں موجودگی کا راز کھلا . کنور ناراین نے لکھا —
موجودگی سے زیادہ موجودگی
شاید کبھی کبھی اس کی عدم موجودگی ہوتی ہے
انکا قلم محض ورودھ ( مخالفت ) کا قلم نہیں تھا . وہ احتجاج اور انقلاب سے کہیں آگے دیکھتے تھے . جب بابری مسجد شہید ہوئی انہوں نے رامچندر جی کو آواز دی .ایودھیا ١٩٩٢ انکی مشہور نظم ہے —
ہے رام
زندگی ایک سخت حقیقت ہے
اور آپ کے پاس ایک مہاکاویہ ہے…
اس وقت ایودھیا آپ کی ایودھیا نہیں ہے
یہ جنگجوؤں کی لنکا ہے
چاروں طرف انتخاب کا ڈنکا ہے
عاجزی کے التجا ہے کہ پربھو لوٹ آؤ
کسی پران کسی صحیفہ میں
محفوظ ، اپنی اہلیہ کے ساتھ
یہ جنگل ،وہ جنگل نہیں ہے
جہاں بالمیکی گھومتے تھے
کنور ناراین ١٩٢٧ کو پیدا ہوئے .٢٠١٧ میں انتقال کر گئے .کنور نارائن کو اپنی تخلیقی کائنات میں تاریخ اور اساطیر کے ذریعے موجودہ حالات کو دیکھنے اور سمجھنے کے لئے جانا جاتا ہے۔ ان کی تخلیقی کائنات اتنی وسیع اور پیچیدہ ہے کہ انکی مکمل شاعری کو کوئی ایک نام نہیں دیا جا سکتا .۔ اگرچہ کنور نارائن کی اصل صنف شاعری رہی ہے ، لیکن اس کے علاوہ انہوں نے کہانیوں ، مضامین اور جائزوں کے ساتھ ساتھ سنیما ، تھیٹر اور دیگر فنون لطیفہ پر بھی کام کیا ہے .۔ وہ مختلف اصناف میں نیے نیے تجربے بھی کرتے رہے ان کی نظموں اور کہانیوں کا ہندوستانی اور غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ انہوں نےبورخیس کی نظموں کا ترجمہ بھی کیا ہے
کنور ناراین چلے گئے .ہندی کا ایک قد آور شاعر پنچ تتو میں ولین ہو گیا …لیکن وہ اپنے پیچھے ادب کا ایسا انمول خزانہ چھوڑ گیا ہے ،جو ہماری ادبی وراثت کا حصّہ ہے .صدمہ اس بات کا ہے کہ ابھی ، اس پر آشوب ماحول میں کنور ناراین کی موجودگی ہمارے لئے طاقت ثابت ہوتی ..لیکن یہ بھی ہے کہ کنور اس سیاسی خوفناک فضا میں جیتے تو بھلا کیسے جیتے ..؟ انکا ایک انٹرویو یاد آ رہا ہے ….انٹرویو کے دوران وہ کہیں کھو گئے تھے ..پھر آھستہ سے بولے ..کھیلونگا آگ سے ..ایک بار پھر تاریخ نے ہمیں قید کر لیا ہے ..میری بھر پور نفرت کرنے کی طاقت ان دنوں کمزور پڑنے لگی ہے ..
لیکن وہ کس سے نفرت کرنا چاہتے تھے ؟
بعد میں اسی خیال کو انہوں نے اپنی ایک نظم میں پیش کیا —
میں عیسایوں سے نفرت کرنے چلا تو سامنے شیکسپئرآ گئے /
مسلمانوں سے نفرت کرنے چلا
تو غالب سامنے آ گئے
میری بھر پور نفرت کرنے کی طاقت ان دنوں کمزور پڑنے لگی ہے
گیان پیٹھ انعام یافتہ کنور ناراین کی مشکل یہ تھی کہ بازار کا خوف اجگر کی طرح انھیں نگل رہا تھا .وہ ایک خاموش تماشایی بن گئے تھے ..وہ الفاظ سے جو کام لینا چاہتے تھے ،موجودہ سیاست میں ممکن نہیں تھا ..اس لئے انہوں نے اپنی ایک نظم میں خاموشی سے اعلان کیا ..
— بہت کچھ دے سکتی ہے کویتا
کیونکہ بہت کچھ ہو سکتی ہے کویتا
زندگی میں /
اگر ہم اسے جگہ دیں
جیسے پھلوں کو جگہ دیتے ہیں پیڑ
جیسے تاروں کو جگہ دیتی ہے رات
ہم محفوظ رکھ سکتے ہیں اس کے لئے
اپنے اندر ایک گوشہ
جہاں زمین اور آسمان
جہاں انسان اور خدا کے درمیان
فاصلہ کم سے کم ہو ..
کنور تو انسان اور خدا کے درمیان کے فاصلے کو ختم کرنا چاہتے تھے ..لیکن موجودہ سیاست نے انسان اور انسان کے درمیاں مذھب کا جو زہر گھول دیا ،اسے برداشت کرنا کنور ناراین جیسوں کے بس کی بات نہیں تھی
.
اب تو حال یہ ہے کہ سیاست گاہے اور موب لنچنگ تک آ گیی ہے ..جانوروں کی مذہبی تقسیم ہو چکی ہے .مسلمانوں کی ہلاکت اب عام ہے ،جس پر مرکزی حکومت کچھ بولنا بھی پسند نہیں کرتی .بابری مسجد کا فیصلہ لیا جا چکا ہے .ڈیجیٹل انڈیا کے خواب کو پورا کرنے کا حق سادھو سنیاسی ،یوگی بھوگی اور تانترکوں کو دیا جا چکا ہے .ہمارا ملک ١٥ وین صدی کے
آشرم میں نیے ہندوستان کا بھوگ لگا رہا ہے ..ساری دنیا ہم پر ہنس رہی ہے .اور شعبدہ باز مسلم ہلاکت کے مہرے چل رہے ہیں .فسطائیت آندھ بھکتوں کے ہاتھ کا کھلونا بن چکی ہے .
گاؤں شہر کے نکڑ ،چوراہے ،ہائی وے ،گاؤں کی منڈیروں پر جس طرح دہشت گردوں کے مسلح دستے مسلمانوں پر حملے کر رہے ہیں ،اس سے صاف ظاہر ہونے لگا ہے کہ آپ ملک کے کروڑوں مسلمانوں کو بے روزگار بنانا چاہتے ہیں .
ہزاروں مناظر ہیں ،جنکی چیخ پورا ہندوستان سن رہا ہے .
مودی سن رہے ہیں .انکی کابینہ سن رہی ہے ..سارا عالم سن رہا ہے …
کنور ناراین بھی سن رہے تھے …لیکن انکی مجبوری تھی …کہ ..مسلمانوں سے نفرت کرنے چلا ..تو تو غالب سامنے آ گئے ….
وہ اس ماحول میں کیا کرتے .نوے سال کے ہو چکے تھے …چپکے سے شیکسپیر اور غالب کے دیس چلے گئے —
انکی ایک نظم کا اقتباس دیکھئے ..
کیا وہ ہاتھ
جو لکھ رہا /
اتنا ہی ہے ؟
جتنا دکھ رہا ہے
یا اس کے پیچھے بھی ایک ہاتھ ہے ..؟
کنور کو پتہ تھا کہ نہیں دکھنے والے ہاتھ نے گجرات کے رول ماڈل سے نکل کر ہندوستان کو اپنی لیبارٹری بنا لیا ہے …کہتے ہیں ،ان دنوں وہ اداس رہنے لگے تھے .وہ جانتے تھے ،بہت کچھ دے سکتی ہے کویتا ..لیکن یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ سچ بولنے والے کویوں کو وقت کی ایک خوگناک لیبارٹری میں یا تو قتل کیا جا رہا تھا یا خوف کے انجکشن لگاہے جا رہے تھے .
کنور کو دونوں صورتیں منظور نہیں تھیں ..وہ اٹھے اور غالب سے ملنے چلے گئے ..نفرتوں کا حساب لینے —