کندن شاہ کی زندگی پر ایک نظر
جانے بھی دو یاروں جیسی کلاسک فلم کا خالق کندن شاہ دل کے دورے کے باعث دنیا کو الوداع کہہ کر چلے گئے۔ کندن شاہ کا جنم 19 اکتوبر 1947 میں ایک گجراتی خاندان میں ہوا تھا ابتدائی تعلیم انہوں نے گجراتی زبان میں جبکہ بعد میں انہوں نے کامرس تک انگریزی میں تعلیم حاصل کی۔ کندن شاہ کو بچپن سے کتابوں سے عشق تھا لیکن غرنت کیوجہ سے وہ پڑھنے کیلئے زیادہ کتابیں خرید نہیں پاتے تھے۔ کتابوں سے عشق کیوجہ سے انہوں نے بیس سال کی عمر میں ایک پبلیشنگ ھاوس میں نوکری شروع کردی۔ پبلیشنگ ھاوس کا مالک رامداس بٹکل کندن شاہ پر بڑے مہربان تھے انہوں نے کندن شاہ کو کلرک کی نوکری دیتے ہوئے کہا تھا کندن یہاں اپکا مستقبل نہیں ہے کیونکہ کتابیں پڑھنا آسان کام ہے لیکن کتابیں بھیجنا بہت مشکل کام ہے۔ لیکن کندن شاہ نے انہیں کہا کوئی بات نہیں میں اس بہانے سے کتابوں کے قریب تو رہ سکونگا۔
پانچ سال رمداس بٹکل کے پبلیشنگ ھاوس میں کام کرنے کے بعد ایک دن صبح انہوں نے اخبار میں پونا فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹیٹیوٹ میں داخلے کا اشتہار دیکھا۔ چونکہ کتاب کے بعد فلم کندن شاہ کی دوسری محبت تھی انہوں نے فارم بھر کر اپلائی کرلی اور خوش قسمتی سے انکی سلیکشن بھی ہوگئی لیکن ساتھ ہی وہ اس پریشانی میں مبتلا ہوگئے کہ میں کتابی کیڑا فلمی دنیا میں چلا جاؤں یا نہیں؟ تین سال پونا فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹیٹیوٹ میں گزارنے کے بعد مجھے کام ملیگا بھی یا نہیں؟ کافی دیر سوچنے کے بعد انہوں نے مستقبل کے لئے فلمی دنیا میں جانے کے لئے من لیا، وہ دہلی سے پونا روانہ ہوگئے۔ اور وہاں تین سال فلم ڈائریکشن کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ کندن شاہ وہاں دنیا بھر کی فلمیں باریک بینی سے دیکھتے تھے اور سوچتے کہ یہ جو اب تک فلمیں بنی ہیں کیا اگے چل کر مجھے بھی ایسی فلمیں بنانی ہونگی یا ان فلموں سے ہٹ کر مجھے مختلف فلمیں بنانی پڑینگی؟ انہوں نے فیصلہ کرنے کے لئے جب خود کو اندر سے ٹٹولا تو ان کے اندر سے سنجیدگی اور مزاح دونوں برامد ہوئی۔ سماج اور سسٹم پر انہوں نے اپنا غصہ سنجیدہ، مزاحیہ انداز میں نکالنے کا فیصلہ کیا۔
پونا فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹیٹیوٹ سے ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کافی عرصہ بے کاری پریشانی میں گزارا کیونکہ اسوقت پونا فلم انسٹیٹیوٹ سے جو کوئی ڈپلومہ حاصل کرلیتا تھا تو وہ تجربہ حاصل کرنے کیلئے اسوقت کے بڑے فلم ڈائریکٹرز کے ساتھ بغیر معاوضے کے کام کرنا شروع کردیتے تھے اور اسوقت بڑے فلم ڈائریکٹرز کے پاس بیس تیس اسسٹنٹ بیک وقت موجود ہوتے تھے جن میں ایک ادھے کو تنخواہ ملا کرتی تھی اور باقی سارے تجربہ حاصل کرنے کے لئے مفت میں انکے ساتھ کام کیا کرتے تھے۔ جبکہ کندن شاہ نے اپنا الگ راستہ بنانے کا سوچ لیا تھا اس دوران کندن شاہ کے وہ دوست جو انکے ساتھ پونا فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹیٹیوٹ میں پڑھتے تھے وہ مایوس ہوکر فوٹو گرافر بن چکے تھے کیونکہ انکے پاس اتنا سرمایہ نہیں تھا کہ وہ فلمیں بنانا شروع کردیتے، لیکن سرمایہ نہ ہونے کے باوجود کندن شاہ نے ہمت نہیں ہاری وہ کہتے تھے کہ تب مجھ میں اتنا جنون تھا کہ میں سوچا کرتا تھا اگر خدا بھی مقابلے میں آیا تو میں اس سے اچھی فلم بناؤنگا۔ کندن شاہ نے بہت کم بجٹ میں بالی ووڈ فلم انڈسٹری کی تاریخ میں ایک نیا موڑ لانے کا ارادہ کیا۔ اور یہ نیا موڑ سیریس کامیڈی کے حوالے سے تھا کیونکہ پونا میں دوران تعلیم انہوں نے جو فلمیں دیکھی تھیں وہ ان ساری فلموں میں ایک کمی محسوس کررہے تھے اور اس کمی کو وہ سنجیدہ کامیڈی کے زریعے دور کرنا چاھتے تھے۔ 1982 میں انہوں نے ایک فلم کی کہانی لکھی جو سیاسی طنز و مزاح پر مشتمل تھی۔ اور اس کہانی پر انہوں نے "جانے بھی دو یاروں" کے نام سے فلم بنانے کا آغاز کردیا۔ سیاست اور سرکاری حلقوں میں بدعنوانی کے موضوع پر بنی اس طنزیہ فلم میں نصیرالدین شاہ، روی باسوانی، بھکتی بروے، پنکج کپور ستیش شاہ اور اوم پوری نے اہم کردار ادا کیے اور اس کے ہدایت کار خود کندن شاہ تھے۔ اس فلم کو ہندوستانی سنیما کی کلاسک فلموں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے کیونکہ یہ بالی وڈ کی پہلی بلیک کلٹ کامیڈی فلم تھی اور یہ فلم اب تک کی بہترین کامیڈی فلم مانی جاتی ہے۔ اسی لئے ٹائم مووی رینک میں اس فلم کو ٹاپ 25 موویز میں رکھا گیا۔
کندن شاہ نے سات لاکھ بجٹ میں اس فلم کی شوٹنگ کی تھی اسوقت کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہ اس قدر سپر ہٹ ہوجائیگی۔ کندن شاہ کو فلم کی شوٹنگ کے دوران اتنی تنگی رہتی تھی کہ کئی بار شوٹنگ میں ساٹھ ستر لوگ ہو جاتے تھے لیکن کھانا پینتیس لوگوں کے لیے ہی آتا تھا۔ تب دال میں پانی ملا کر سالن بڑھا دیتے تھے۔ روٹیاں ختم ہو جاتی تھیں، تو پاؤ منگوا لیئے جاتے تھے۔
اور کھانا انکے گھر سے بن کر آیا کرتا تھا جس کے لئے انہوں نے ایک باورچی رکھ لیا تھا۔ اس فلم میں نصیرالدین شاہ نے فوٹو گرافر کا کردار ادا کیا تھا اور فلم جو کیمرہ انہوں نے فوٹوگرافی کیلئے استعمال کیا وہ بھی خود ان کا اپنا کیمرہ تھا۔ اس فلم کے لیے سب سے زیادہ معاوضہ نصیر الدین شاہ کو 15 ہزار روپے ملے تھے کیونکہ وہ اس وقت ایک بڑے اداکار بن چکے تھے لیکن کندن شاہ کی کم بجٹ کو دیکھتے ہوئے انہوں نے کم پیسوں کی پرواہ نہیں کی انہوں نے اس تجرباتی فلم کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ جبکہ نصیر الدین شاہ کے برابر کا رول ادا کرنے والے انجہانی روی واسوانی کو چھ ہزار روپے معاوضہ ملا تھا۔
یہ فلم کسی بھی طرح سے کمرشل فلم نہیں تھی۔ یہ اس دور کی فلم تھی جب بعض ہدایت کار ایک مخصوص سوچ کے ساتھ سماجی مسائل پر فلمیں بنا رہے تھے اور اس سنیما کو ’انڈین نیو ویو‘ کا نام دیا گیا تھا۔ جانے بھی دو یاروں دو بھلے سیدھے سادے فوٹوگرافروں ونود اور سدھیر (نصیر الدین شاہ، روی واسوانی) کی کہانی ہے جنہیں اخبار خبردار کی ایڈیٹر شوبھا (بھکتی بروے) خاص کام سونپتی ہے۔ انہیں بلڈر ترنیجا (پنکج کپور) اور بدعنوان میونسپل کمشنر ڈمیلو (ستیش شاہ) کی ملی بھگت کا پردہ فاش کرنا ہوتا ہے۔ ایک دن اچانک ونود اور سدھیر ایسا تصویر کھینچ لاتے ہیں جس میں ترنیجا ایک آدمی کا خون کرتے ہوئے نظر آ رہا ہے۔ کندن شاہ نے اس فلم کی کہانی میں دو لیڈینگ کردار نصیر الدین شاہ اور روی واسوانی کو اپنے پونا فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹیٹیوٹ کے دو دوستوں رجیندر شوری اور روی اوجا سے متاثر ہوکر رکھے تھے جنہیں فلموں میں کام نہیں مل سکا تھا اور مجبوراً وہ فوٹوگرافر بن گئے تھے۔
اس فلم پر کندن شاہ کو نیشنل ایوارڈ دیا گیا اور اتفاق سے انہیں آخری نیشنل ایوارڈ بھی اسی فلم پر دیا گیا۔ ’جانے بھی دو یاروں‘ پر انہیں بہترین ڈائریکٹر کا ’اندرا گاندھی ایوارڈ‘ سے بھی نوازا گیا۔ کندن شاہ اس فلم کا سیکوئیل بنانا چاھتے تھے لیکن ان کے پاس بجٹ صرف پانچ کروڑ روپے کا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ان کی فلم میں عامر خان کام کریں۔ لیکن یہ ممکن نہیں تھا کیونکہ عامر خان کی فیس ہی فلم کے بجٹ سے کہیں زیادہ تھی۔ مجبوراً 2012 میں 1983 میں ریلیز ہوئی یہی فلم دوبارہ ریلیز کروائی گئی جسے نئی نسل نے بہت پزیرائی بخشی۔
جانے بھی دو یاروں کے بعد کندن شاہ نے ٹیلی وژن
کا رخ کیا انکی پہلی سیریل میں پولیس کو کرپٹ دکھایا گیا تھا جسکی وجہ سے یہ سیریل پولیس کے کہنے پر یہ کہہ کر بین کردی گئی کہ پولیس کرپشن میں پہلے نمبر پر نہیں بلکہ سولہویں نمبر پر ہے۔ اس سیریل کو بین کرنے کیوجہ سے کندن شاہ کو شدید صدمہ پہنچا اور اس صدمے سے انہیں باہر نکالنے کیلئے انہیں ان کے فلم ڈائریکٹر دوست سعید مرزا اور انکے بھائی عزیز مرزا نے نکالا۔ سعید احمد مرزا بھی پونا فلم انسٹیٹیوٹ سے تعلیم حاصل کرچکے تھے۔ کندن شاہ نے ان دو بھائیون کے ساتھ ملکر یادگار زمانہ ڈرامہ سیریل نکڑ بنائی۔ یہاں بھی فلم کیطرح طنز و مزاح اور رومانس کندن شاہ کا خاصہ رہا۔ 1985 سے 1988 تک انہوں نے مختلف کامیڈی سیریلز ڈائریکٹ کیے جس میں نکڑ، منورنجن، ویگلی کی دنیا کے نام شامل ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے کچھ سال کے لئے وقفہ لیا اور پھر 1994 میں اپنی دوسری اہم کامیڈی فلم "کبھی ہاں کبھی ناں " کے ساتھ بھارتی سینما میں انہوں نے واپسی کا قدم رکھا۔ شاہ رخ خان کے کیرئیر کی یہ شروعات کی فلموں میں سے ایک اہم فلم تھی کیونکہ تب وہ بڑے سٹار نہیں بنے تھے اس فلم میں شاہ رخ نے ایک سست، بھولے بھالے ہارے ہوئے ڈھیلے ڈھالے انسان کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ فلم کم بجٹ میں بن تو گئی لیکن اسے خریدنے والا کوئی نہیں تھا ایسے میں اپنے محسن کندن شاہ سے یہ فلم خود شاہ رخ خان نے خریدی اور خود ہی ریلیز کروائی فلم ریلیز کے بعد ہٹ ہوئی اور لوگوں نے اس فلم کو بہت پسند کیا۔
1994 میں اس فلم پر کندن شاہ کو فلم فئیر کریٹیکس ایوارڈ فار بیسٹ مووی دیا گیا۔ کندن شاہ وہ پہلے ڈائریکٹر تھے جنہیں یہ ایوارڈ دیا گیا۔
اسکے بعد کندن شاہ نے، دل ہے تمہارا، ایک سے بڑھ کر ایک، کیا کہنا، ہم تو محبت کرے گا اور ممبئی کٹنگ جیسی کامیڈی فلمیں بنائی کندن شاہ نے پانچ فلموں کی کہانیاں لکھی ساتھ ساتھ وہ ڈائریکشن بھی خود کیا کرتے تھے۔
کندن شاہ زندگی کے قریب رہنے والے انسان تھے اس لئے انہوں نے زیادہ تر کریکٹر فلمیں بنائیں۔
کندن شاہ کی آخری فلم پراسٹیٹیوٹ سے پی ایم تھی جو 2014 میں ریلیز ہوئی اس فلم کی کہانی ایک فاحشہ کی زندگی کے گرد گھومتی ہے جو فاحشہ سے ایک ملک کی وزیر اعظم بن جاتی ہیں، یہ کندن شاہ کی ایکسٹرا بے کار کامیڈی فلم تھی۔
کندن شاہ نڈر انسان تھے، مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت میں نسلی فسادات، مسلمانوں پر ہونے والے مظالم ازادی اظہار رائے پر پاپندی اور عدم رواداری کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف جب 24 مشہور و معروف مصنف و ادیب اور فلمساز اپنے اعزاز واپس کر رہے تھے تو اس میں کندن شاہ نے بھی اپنے فلمساز دوست سعید اختر مرزا کے ہمراہ اپنا قومی اعزاز سرکار کو واپس کر دیا تھا۔
کندن شاہ جیسے عظیم فلمساز دنیا میں بہت کم اتے ہیں جانے دو یاروں کے خالق کو انکے چاھنے والے انہیں اپنے دل سے کبھی جانے نہیں دینگے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔