::: " کلدیپ نیئر: ایک با ضمیر سچا صحافی، ادیب سفارت کار، سیکولرقلمی مزاحمت کار اور اردو کے عاشق" :::
* { کچھ یادین ۔ کچھ باتیں}*
:::: کلدیپ نیئر کا انتقال 95 برس کی عمر میں ہوگیا۔ وہ کافی عرصہ علیل رہے۔ ان کا انتقال 23 اگست 2018ء جمعرات کی صبح نئی دہلی کے ایک اسپتال میں ہوا۔ انہوں نے سوگواران میں ایک بیوہ اور 2 بیٹوں کو چھوڑا ہے دوپہر ایک بجے لودھی گارڈن واقع شمشان گھاٹ میں ان کی آخری رسومات ادا کی گی۔۔ انھوں نے 1971 میں سقوط ڈھاکہ پر بڑے پر مغز مٍضامین اور کالمز لکھے ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔
کلدیپ نیئر 14 اگست 1923 کو سیالکوٹ، پنجاب، برطانوی بھارت میں پیدا ہوئے. انہوں نے بی اے (آنرز.) کرسچین کالج فار مین لاہورسے اور ایل ایل بی لاء کالج لاہور سے اسناد لیں. پھر 1952 میں، انہوں نے نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے میڈل/ Medill اسکول سے ایک اسکالر شپ پر صحافت کی تعلیم حاصل کی: انھوں نے 80 اخبارات میں لکھا۔ ان کے مٍضامین اور حاشیے 14 اخبارات میں ترجمہ ھوکر بھی چھپتے رھے۔ وہ انا ہزارے کی اصلاحی تحریک سے بھی منسلک رہے ۔ وہ برطانیہ میں ہندوستان کے ہائی کمشنر رہے ہیں۔ وہ سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے پریس مشیر بھی رہے۔ 1997 میں وہ بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے رکن بھی رھے۔ انھوں نے قبل تقسیم ہند سیالکوٹ میں اردو اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ بہت اچھی اردو بولتے اور لکھتے ہیں۔ انھون نے اپنی صحافت کا آغاز ایک اردو اخبار سے شروع کیا تھا۔ مگر بعد میں انھوں نے اردو میں لکھنا ختم کردیا تھا ۔ اب صرف انگریزی میں لکھتے ہیں۔ کلدیب نہیر نے ایک سمینار میں کہا تھا " اردو صحافت کو پہلا اپنا پیار قرار دیتے ہوئے مشہور صحافی اور سابق سفارت کار کلدیپ نیر نے کہا کہ کوئی بھی زبان اور اس کی صحافت اس وقت پھل پھول نہیں سکتی جب تک کہ اس کا رشتہ روزی روٹی سے نہ جوڑا جائے۔ انھیں نے " بھارت شکن سازشی نظرئیے" کو پروان چڑھانے کا مجرم بھی قرار دیا گیا۔ کلدیپ نیئر نے ہمیشہ حق کی آواز بلند کی اور حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی۔کلدیپ نیئر نے اپنی کریئر کی شروعات بطور اردو پریس رپورٹر کے طور پر کی تھی۔ 90 کی دہائی میں وہ راجیہ سبھا کے رکن رہے۔ انھوں نے ریاست کی ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف تاریخی عرضیاں ڈالیں جن میں ایمرجنسی سے لے کر بابری مسجد کا انہدام بھی شامل ہے۔ روایتی طور پر دیکھا جائے تو انھوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ لیکن انھوں نے اپنی زندگی میں کافی خطرے بھی اٹھائے۔ جب بھی میڈیا کی آزادی خطرے میں ہوگی، زرائع ابلاغ میں کام کرنے والے لوگ ان جیسے غیر معمولی شخص کو ہمیشہ یاد کریں گے۔ ان کی ہمت، دائرہ اور دل کافی بڑا تھا۔ انھوں نے بار بار اپنی پوری طاقت کے ساتھ ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی اور اسے چیلنج دیا اور اپنے پیشے کے لوگوں کو فخر کا احساس کرایا۔کلدیپ نیر نے اپنےایک کالم میں ایمرجنسی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’اندرا گاندھی نے جمہوریت کی روشنی بجھا کر ہمیں پولیس راج کے اندھیرے میں دھکیل دیا تھا۔۔۔` لیکن ساتھ ہی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ’سافٹ ہندوتوا‘ کے اثر کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا تھا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ اب پریس کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو کوئی غیر آئینی اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی۔۔۔میڈیا خود اتنا حکومت نواز ہوگیا ہے کہ اسے کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
کلدیپ نیر نے بنگلہ دیش کے روزنامے Daily Star میں ایک حاشیہ تحریر کیا تھا یہ تحریر روزنامہ ڈان کراچی کی 7 فروری 2018ء کی اشاعت میں چھپا۔۔ کلدیپ نیر کی اہمیت یہ ہے کہ ان کے بارے میں ان کی خود نوشت کے دیباچہ نگار نے دعویٰ کیا ہے کہ کلدیپ نیر کے نام کا ترجمہ ’’سیکولر ازم‘‘ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ زیر بحث موضوع کے اعتبار سے کلدیپ نیر کی اہمیت کیا ہے؟۔
کلدیپ نیر کی اہمیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مذکورہ بالا کالم میں برصغیر کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ کلدیپ نیر کے بقول وہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملے تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے کہا کہ تقسیم کے ذمے دار جناح ہیں۔ ماؤنٹ بیٹن نے کلدیپ نیر کو بتایا کہ اس وقت کے برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ رچرڈ ایٹلی بھارت اور پاکستان میں کسی نہ کسی قسم کا ’’اتحاد‘‘ دیکھنا چاہتے تھے۔ ماؤنٹ بیٹن کے بقول انہوں نے گاندھی کو ملاقات کے لیے بلایا تو گاندھی ’’تقسیم‘‘ یا Partition کا لفظ سنتے ہی ماؤنٹ بیٹن کے کمرے سے ’’واک آؤٹ‘‘ کرگئے۔ اس کے برعکس قائد اعظم نے تقسیم کا خیر مقدم کیا۔ کلدیپ نیرکے بیان کے مطابق جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جناح سے پوچھا کہ کیا آپ بھارت کے ساتھ کوئی تعلق رکھنا چاہیں گے تو قائد اعظم نے واضح الفاظ میں انکار کردیا اور کہا کہ ’’مجھے ان پر یعنی ہندو قیادت پر اعتبار نہیں‘‘۔ قائد اعظم کے اس جواب نے ایٹلی کے خواب کو چکنار چور کردیا۔ کلدیپ نیر کے اس بیان سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ، برصغیر کی ملت اسلامیہ، اقبال اور قائد اعظم کا ’’Project‘‘ تھا، انگریزوں کا پروجیکٹ نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ کلدیپ نیر نے تقسیم کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے خود سن کر کہا ہے۔
پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش ور اور صحافی تاریخی حقائق کو مسخ کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ پاکستان ابتدا ہی سے ایک ’’سیکولر پروجیکٹ‘‘ تھا یہ تو مذہبی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے سازش کے تحت پاکستان کو ’’اسلامی ریاست‘‘ بنا ڈالا ہے۔
اتفاق سے اس سلسلے میں بھی کلدیپ نیر کو ’’تاریخی اہمیت‘‘ حاصل ہے۔ کلدیپ نیر نے اپنی خود نوشت Beyond the Lines میں جس کا ترجمہ ’’ایک زندگی کافی نہیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے میں اہم شہادت مہیا کی ہیں۔ کلدیپ نیر اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں۔
’’میں لاہور میں اس جگہ پر موجود تھا جہاں 23 مارچ 1940ء کو ایک قرار داد منظور کی گئی جس میں اس مطالبے کی حمایت کی گئی تھی کہ مسلمانوں کے لیے مذہب کے نام پر ایک الگ ملک کی تشکیل کی جائے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ پنڈال جہاں کل ہند مسلم لیگ کا اجلاس ہورہا تھا استعارۃ اس انقلابی تصور سے جل رہا تھا کہ ایک نیا آزاد اسلامی ملک بنایا جائے‘‘ (ایک زندگی کافی نہیں۔ از کلدیپ نیر۔ صفحہ 38)۔
کلدیپ نیر کا یہ بیان صاف بتا رہا ہے کہ بھارت کے ’’سیکولر سپوت‘‘ کے نزدیک بھی پاکستان کی تخلیق اسلام کا حاصل تھی۔ اس سلسلے میں سیکولر ازم کا ہزاروں میل تک نام و نشان موجود نہ تھا۔ اس لیے کہ سیکولر ازم اگر برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے لیے 2018ء میں ’’اجنبی‘‘ ہے تو 1940ء میں آج سے کئی لاکھ گنا اجنبی ہوگا۔ لیکن کلدیپ نیر اس سلسلے میں اپنی خود نوشت کے اندر صرف ایک شہادت فراہم کرکے نہیں رہ گئے۔اُنہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحالی کے سلسلے میں ٹریک ٹو ڈپلوپیسی کے حوالے سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اُنہوں نے پاکستان اور بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر واہگہ/اٹاری سرحد پر امن کی موم بتیاں روشن کرنے پر بھی خاصی شہرت پائی۔ کلدیپ نیر نے ہندوستان چھوڑو تحریک کے موقع منعقدہ سوشلسٹ پارٹی آف انڈیا کی ’بھارت چھوڑو تحریک‘ کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر’آئین مخالف اقتدار چھوڑو‘ ریلی کو ہر جھنڈی دکھاکر روانہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ سوشلسٹ پارٹی نے اگست کرانتی کے مشعل کو لوگوں کے درمیان لے جانے کا کام کیا ہے اس کی میں تعریف کرتا ہوں اور عوام کو اس کی اہمیت بتانے اور عوام میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔"
**کلدیپ نیر کی پوتی کنیہ نیر کی اپنے دادا کے حوالے سے کچھ یادیں:**
===========================================
’میرے داد نے کئی بار مجھے تقسیم کے قصہ سنائے ہیں۔ وہ اس طرف رہتے تھے، جب انہیں اس طرف آنا تھا تو انہیں کس حد تک پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے نہیں لگتا ہے کہ تقسیم سے کوئی فائدہ ہوا ہے۔ آج بھی دونوں ملک آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور ہندو مسلمان بھی لڑتے رہتے ہیں۔ ہم کچھ کر نہیں کر سکتے لیکن یہ سب مجھے بالکل نہیں اچھا لگتا۔ میرے دادا ہر برس چودہ اگست کو بارڈر پر ایک فنکشن کرتے ہیں۔ گزشتہ برس میرا وہاں جانے کا ارادہ تھا لیکن میں وہاں نہیں جا سکی۔ لیکن اس بار میں بھی جا رہی ہوں۔ میرے دادا ہندو اور مسلمانوں کو ایک کرنے کی مہم میں شامل ہیں اور میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ ان دونوں ميں تفریق نہ رہے۔‘
کلدیپ نیر کی تحریروں پرشدید تنقید اوراعتراضات بھی ہوتے رہے۔ ڈاکٹر منیش کمار اپنے ایک مضمون "یہ کلدیپ نیر صاحب کو کیا ہو گیا؟ "میں لکھتے ہیں۔" صحافی کے قلم میں طاقت ہوتی ہے اور اگر وہ صحافی کلدیپ صاحب جیسے قدآور ہوں تو طاقت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس طاقت کا استعمال عوام کی طرفداری کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ سرکار کی۔ صحافی کا کام سرکار کے کام کاج کی غلطیوں کو اجاگر کرنا ہوتا ہے، یہ بات کلدیپ صاحب سے بہتر ہندوستان میں کون جان سکتا ہے۔ وہ جانتے ہیں اور یہ ہم لوگوں نے ان سے ہی سیکھا ہے کہ ایک صحافی کو سرکار کے لیے میڈیا منیجر کی طرح کام نہیں کرنا چاہیے۔ جس کام کے لیے ملک میں کئی صحافی کافی ہیں اور کئی تو ایسے بھی ہیں، جنہوں نے یہ کام خود ہی اپنے سر پر لے لیا۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے کلدیپ صاحب ان میں نہیں ہیں، کیوں کہ زمانہ اتنا بدل گیا ہے کہ لوگ فوراً یہ الزام لگانے لگیں گے کہ کلدیپ صاحب کانگریس کی پونچھ پکڑ کر پھر سے راجیہ سبھا جانا چاہتے ہیں۔"
برسوں تک مرکزی حکومت میں پریس انفارمیشن افسر بھی رہے۔ وہ خبر رساں ایجنسی یونائٹیڈ نیوزآف انڈیا، مدیر اعلی اور جزل منیجر،انگریز ی اخبار ڈان، ایکسپریس اور اسٹیٹس میں سے بھی منسلک رہے۔ انہوں نے لندن ٹائمز میں بھی بطور صحافی خدمات انجام دیں۔صحافت کے شعبہ میں قابل قدر خدمات انجام دینے والوں کو نیر کے نام سے ’کلدیپ نیر صحافت کا ایوارڈ‘ بھی دیا جاتا ہے۔ صحافتی دنیا میں ان کی بہترین خدمات کے لئے 2015 میں انہیں رام ناتھ گوئنکا سمرتی ایوارڈسے بھی سرفراز کیا گیا۔ ان کا کالم “Between the Lines” (بین السطور ) بہت مقبول ہوا۔ ان کا کالم 80 سے زائد اخبارات میں شائع ہوا کرتا تھا۔ان کی کتابوں کی فہرست یہ ھے:
Nayar, Kuldip (1969). Beyond the lines. Allied Publishers. .
Nayar, Kuldip (1971). India – The Critical years. Vikas Publications.
Nayar, Kuldip (1972). Distant Neighbours – A tale of the subcontinent. Vikas Publishing House Pvt Ltd. .
Nayar, Kuldip (1974). Suppression of judges. Indian Book Co.
Nayar, Kuldip (1975). India After Nehru. Vikas Publications. .
Nayar, Kuldip (1977). The Judgment:Inside story of the emergency in India. Vikas Publishing House..
Nayar, Kuldip (1978). In Jail. Vikas Publishing House Pvt Ltd. .
Nayar, Kuldip (1980). Report on Afghanistan. Allied Publishers Ltd. .
Nayar, Kuldip; Singh, Khushwant (1985). Tragedy of Punjab: Operation Bluestar & After. South Asia Books. .
Nayar, Kuldip (1992). India House. Viking. .
Nayar, Kuldip (2000). The Martyr : Bhagat Singh Experiments in Revolution. Har Anand Publications. .
Nayar, Kuldip (2003). Wall at Wagah – India Pakistan Relations. Gyan Publishing House. .
Nayar, Kuldip (2006). Scoop! : Inside Stories from Partition to the Present. HarperCollins. .
Nayar, Kuldip (2007). Without Fear: The Life and Trial of Bhagat Singh. HarperCollins India..
Nayar, Kuldip; Noorani, Asif; Page, David (2008). Tales of two cities. Lotus Roli
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔