دوستو یہ کوفہ کا ایک بازار ہے اور محلہ بنی ہمدان ہے ۔ بنی ہمدان کے بارے میں مولا علی علیہ السلام کا فرمان ہے ،اگر پوری کائنات میں ہمارا چاہنے والا نہ رہے تو بنی ہمدان سے جا کر ڈھونڈ لینا ۔ بنی ہمدان اور ہم اہلِ بیت قیامت میں ایک جگہ ہوں گے ۔ یہ قبیلہ کوفہ میں آباد تھا ، یمن سے ہجرت کر کے آیا تھا ۔ جنگ، جمل ، صفین اور نہروان میں اِسی قبیلے کی تلواروں نے وفا کا حق ادا کیا تھا ۔ اِسی قبیلے کے بیشتر افراد کربلا میں مولا حسینؑ کی معیت میں تھے اور اِس قبیلے کے کم و بیش چھ ہزار افراد کو ابنِ زیاد نے قید و بند کی صعوبتوں میں شہید کر دیا تھا ۔ اِس قبیلے کی آبادی کوفہ کے جنوبی حصے کے ایک محلے میں تھی ۔ اِن کی پشت پر دریائے فرات بہتا تھا ۔ اُسی فرات سے نالے اور نہریں کھود کر اِنھوں نے اپنے محلے میں جاری کی تھیں ۔ مَیں ایک بار جب اِس محلے میں پھررہا تھا تو ایک شخص سے پوچھا، کیا ابھی بھی قبیلہ بنو ہمدان کے لوگوں میں سے کوئی فرد یہاں آباد ہے ۔ اُس نے جواب دیا ، جب اُمتِ محمدؑ کے ایک فرعون معاویہ کی حکومت آئی تو اُس نے قبیلہ بنو ہمدان کے گھر کھود دیے تھے اور اُنھیں مجبور کیا تھا کہ وہ کوفہ سے نکل جائیں ورنہ سب قتل کر دیے جائیں گے چنانچہ ایک بار تمام قبیلہ یہاں سے ہجرت کر گیا مگر اُنھوں نے اپنے گھر کسی کو بیچے نہیں تھے ۔ جس وقت بنو عباس اور بنو امیہ کی جنگ چلی تو اُس قبیلے کے کئی لوگ یہاں دوبارہ آباد ہو گئے لیکن جلد ہی بنو عباس کی سختیاں اُن پر ہونے لگیں ۔ ایک وقت آیا کہ اِس محلے کے تمام مکانات منصور دوانقی نے منہدم کروا دیے ۔ چنانچہ یہ محلہ بہت دفعہ بسا اور بہت دفعہ اُجڑا ۔ اب کہا نہیں جا سکتا اِس محلے میں کوئی فرد بنی ہمدان کا رہتا ہے یا نہیں ۔ مَیں نے پوچھا آپ کس قبیلے کے ہیں ؟ اُس نے جواب دیا میرا خاندان بصرہ سے یہاں آ کر آباد ہوا ہے ۔ میرا ایک کجھوروں کا چھوٹا سا باغ ہے اور قبیلہ بنی ازد ہے ۔ کبھی ہم بھی اِسی کوفہ کے ایک محلے میں بستے تھے یعنی تیرہ سو سال پہلے ۔
مَیں اِس محلے میں کافی دیر گھومتا رہا ۔ مجھے لگا مَیں بھی قبیلہ بنو ہمدان کا ایک فرد ہوں اور اپنے اجڑے ہوئے گھروں کو دیکھنے آیا ہوں یہاں تک کہ اِس کی ایک ایک گلی میں گیا ۔ اِس نالے سےپانی پیا جو دریائے فرات سے نکل کر یہاں بہہ رہا ہے ۔ یہ نالہ اب بھی لوگوں کے گھروں میں چھوٹے چھوٹے باغچوں کو سیراب کرتا ہے ۔ مَیں تو کوئی تصویر وہاں کی نہ بنا سکا مگر جب میرے والد صاحب جب ۱۹۸۰ سے ۱۹۸۴ تک وہاں تھے تو وہ بہت سی تصویریں لائے تھے ۔ آپ بھی دیکھ لو
دوستو یہ کرونا سے فرصت ملے اور کوئی صاحبِ ثروت میرا خرچہ اُٹھائے تو مَیں اُسے ساتھ لے جا کر یہ سیر کروا سکتا ہوں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...