کچھ ذہنی امراض کا ذکر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مالیخولیا، مراق، وألحنین، شیزوفرینیا، اِنسومنیا۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ، یہ وہ نفسیاتی بیماریاں ہیں جو کسی بھی قسم کی جسمانی بیماری سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ امام ابن ِ خلدون کا پورا خاندان سمندر میں ڈوب کر وفات پاگیا تھا۔ اس حادثہ کے بعد آپ تمام عمر وألحنین کا شکار رہے جو حزن اور خوف پر مشتمل ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ نیٹشے اپنی عمر کے آخری سالوں میں آئیسومنیا کا شکار ہوا اور پھر دھیرے دھیرے مذکورہ بالا تمام بیماریوں میں مبتلا ہوکر آخر کار نابینا ہوگیا اور اسی حالت میں وفات پائی۔ مولانا عبیداللہ سندھی اپنی زندگی کے آخری بیس سال ان بیماریوں میں مبتلا رہے یہاں تک کہ مولانا حسین احمد مدنی نے اپنے مریدوں سے کہہ دیا کہ سندھی صاحب کی کسی بات کا اعتبار نہ کیا جائے کیونکہ ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں۔ امام بوعلی سیناؒ تقریباً تمام عمر ان امراض کا شکار رہے۔ یہ بات کئی لوگوں نے لکھی ہے کہ بوعلی سیناؒ کا اس قدر عظیم طبیب بن جانا دراصل اپنی ہی نہ سمجھ میں آنے والی بیماریوں کا علاج ڈھونڈتے ڈھونڈتے ممکن ہوا۔ علامہ اقبال آخری عمر کے تین سال شدید قسم کے مالیخولیا کا شکار رہے جس کی بابت اندازہ سید نذیر نیازی کو لکھے گئے مکتوبات سے بآسانی لگایا جاسکتاہے۔ جبکہ مرزا غالب وأ الحنینن کا شکار تھے۔
یہ بیماریاں عموماً ذہین لوگوں کو اپنی گرفت میں لیتی ہیں۔ دیگر لوگوں میں یہ بیماریاں کثرتِ شراب نوشی، چرس نوشی، میڈیسن کے زیادہ استعمال حتیٰ کہ سگریٹ وغیرہ سے بھی لگ جاتی ہیں۔ مالیخولیا اور مراق وغیرہ کے بارے میں جو سب سے زیادہ خطرناک بات سامنے آئی ہے وہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کا متعدی ہونا۔ یہ بیماریاں کسی وبا کی طرح ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہوسکتی ہیں۔ یعنی آپ کسی شیزوفرینیا کے مریض کے پاس بیٹھتے ہیں تو بہت زیادہ چانسز ہیں کہ آپ بھی شیزوفرینیا کا شکار ہوجائیں۔ جس طرح جمائی لینے سے پاس بیٹھے افراد کو جمائی کے اثرات منتقل ہوجاتے ہیں اور وہ بھی جمائیاں لینے لگتے ہیں بالکل ویسے ہی یہ امراض ِ ذہنی دوسرے لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں۔
ان بیماریوں کی علامات میں دل کی دھڑکن، خفقان، بلڈ پریشر،قبض کی شکایت یا پیشاب میں دقت،اچانک گھبرا جانا، ہاتھ پاؤں کا پھول جانا، ہاتھ پاؤں کا یکلخت ٹھنڈا ہوجانا، بدن کا گِھر جانا، بلاوجہ کی نقاہت، اعصابی کمزوری کا وہم، بے خوابی یا خوابوں سے بھری ہوئی نیند،بہت زیادہ بولنا، یا بہت زیادہ خاموش رہنا،بہت زیادہ خوش ہوجانا، بہت زیادہ غمگین ہوجانا، غیر مسقتل مزاجی یعنی مُوڈ سوئنگز،شک کرنے کی عادت، بدگمانی،خود پسندی، بلاوجہ کی فکرمندی، ٹینشن، اینگزائیٹی، غصہ، چڑچڑا پن، بلاوجہ جھگڑنا، خود کو اہم سمجھا، جنّات، جادو، سایہ پر یقین رکھنا، خود کو صوفی سمجھنا اور ہروقت متصوفانہ گفتگو کرنا،طرح طرح کے پچھتاوے، غیر معمولی رحمدلی، غیر معمولی دلیری، رقاقتِ قلبی، عشق کے لاحق ہوجانے کا وہم اور موت کا شدید خوف شامل ہیں۔ اگر آپ کو لگتاہے کہ کوئی آپ کا پیچھا کررہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔یا لوگ آپ کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں یا آپ کو انجانے خطرات و خدشات لاحق ہیں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ آپ شیزوفرینیا کا شکار ہیں۔ اگر آپ کو نت نئی جسمانی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں جو جلد ٹھیک بھی ہوجاتی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ مالیخولیا کے مریض بن چکے ہیں یعنی آپ کو فی الحقیقت کوئی جسمانی بیماری لاحق نہیں بلکہ آپ صرف ذہنی مرض میں مبتلا ہیں۔ اگر سینے میں درد سے ہارٹ اٹیک ، عام سا پھوڑا نکلنے سے کینسر، ہاتھ پیر سوجانے سے فالج، معدے میں درد سے السر یا سرطان، سردرد سے برین ہمبرج، کھانسی سے ٹی بی یا پھیپھڑوں کے کینسر کا خیال فوری طور پر آپ کے ذہن میں آتاہے تو یہ علامت ہے کہ آپ مذکورہ بالا بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
شیزوفرینیا کی شدت میں آپ کے ساتھ یہاں تک واقعہ پیش آسکتاہے کہ آپ کو باقاعدہ یعنی فی الواقعہ ایک جسمانی بیماری لاحق ہوجائے اور آپ پوری توجہ سے اس کا علاج بھی شروع کردیں لیکن وہ فی الحقیقت کوئی بیماری نہ ہوگی۔ محض آپ کے دماغ نے کاشن پاس کردیے ہیں جو آپ کے جسم پر ظاہر ہوئے۔ ہمارے ایک بزرگ دوست ملک مظہر کو ایک بار ہم ملنے گئے تو ان کے پورے بدن پر آتشک کے پھوڑے نکلے ہوئے تھے اور وہ بے حد پریشانی کے ساتھ آتشک کے علاج میں مگن تھے۔۔۔۔۔لیکن دو تین دن بعد جب ہم گئے تو ان کے جسم پر ایک بھی پھوڑا نہیں تھا۔ حتیٰ کہ کسی پھوڑے کا نشان تک بھی نہیں تھا۔ ملک صاحب نے بتایا کہ دراصل انہیں یاد آگیا تھا کہ انہیں آتشک نہیں ہے بلکہ ایک گولی کا ری ایکشن ہے اور اس وجہ سے جونہی انہیں یاد آیا کہ یہ تو گولی کا ری ایکشن ہے اُن کی بیماری خود بخود ختم ہوگئی۔
بوعلی سیناؒ نے جسمانی بیماریوں سے کہیں بڑھ کر نفسیاتی بیماریوں پر ریسرچ کی ہے اور نہایت تفصیل کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا ہے۔ حتیٰ کہ بوعلی سیناؒ نے عشق کو بھی ایک نفسیاتی بیماری قرار دیا ہے اور اس کا باقاعدہ علاج تجویز کیا ہے۔ غالب نے بھی تو کہا تھا کہ،
ؔ کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
فی زمانہ یہ نفسیاتی امراض بکثرت پائی جاتی ہیں۔ ان کے بڑھ جانے کی ایک بڑی وجہ انفارمیشن کا وہ سیلاب ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی ہر انسان تک پہنچ رہا ہے۔ انسانی ذہن اس قدر معلومات کو جمع رکھنے اور ان کے ساتھ ڈیل کرنے کا اہل نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔جو بیسویں اور خصوصاً اکیسوی صدی میں انسان تک پہنچنا شروع ہوگئیں۔ موبائل کا استعمال شیزوفرینیا اور مالیخولیا کے مریضوں کے لیے زہر ِ قاتل ہے۔ کان کے ساتھ فون لگا کر لمبی کالز سننا یا مسلسل میسجنگ کرتے رہنا تو گویا مالیخولیا کو مہمیز لگادینے جیساہے۔ ایسے مریضوں کے لیے فیس بک کا بکثرت استعمال بھی شدید خطرناک ثابت ہوسکتاہے۔
ان امراض کا علاج آسانی کے ساتھ ممکن نہیں۔ اگر آپ خود یا آپ کے احباب میں سے کوئی ان امراض کا شکار ہے تو اس کے لیے مناسب ترین مشورہ یہی ہے کہ وہ اپنی زندگی سے ایکسائٹمنٹ پیدا کردینے والے واقعات کو نکال باہر کرے۔ عام لوگوں سے میل ملاپ رکھے۔ زیادہ سے زیادہ پیدل چلے۔ صاف پانی زیادہ پیے، کسی پارک میں جاکر کچھ وقت گزارے اور لمبی لمبی سانسیں لیا کرے۔ جدید ٹیکنالوجیز کا استعمال کم کردے۔ کھانے اور سونے کے اوقات کو درست کرے اور نئے ٹائم ٹیبل پر سختی سے عمل کرے۔ لیکن عموماً دیکھا گیا ہے کہ شیزوفرینیا یا مالیخولیا کے مریض از خود ان باتوں پر عمل کرنے کے اہل نہیں ہوتے چنانچہ ان کے لواحقین کو چاہیے کہ وہ ان کا خیال رکھیں اور انہیں کسی جسمانی مریض کی طرح ایک بیمار انسان سمجھتے ہوئے ان کے نظام الاقات کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“