اُس دن سنگاپور سے روانگی تھی۔ بیگم کا اصرار تھا کہ راستے کے لیے پیراسٹامول خریدنا لازم ہے جو وہ سفر میں پابندی سے ساتھ رکھتی ہیں۔ ہم دوائوں کی ایک دکان میں گئے۔ ان ملکوں میں جنہیں ہم ترقی یافتہ ممالک کہتے ہیں اور کبھی مغربی (اگرچہ جغرافیائی اعتبار سے سنگاپور مشرق میں واقع ہے)، ادویات کی دکانوں اور سپرسٹوروں پر گھومنے والے رَیک ضرور پڑے ہوتے ہیں جن پرکتابیں رکھی ہوتی ہیں۔ اس دکان پر بھی ایک طرف کتابوں کا ایسا ہی رَیک دھرا تھا۔ ایک کتاب پڑی تھی ’’سنز آف ییلو ایمپرر‘‘ یعنی زرد شہنشاہ کے بیٹے۔ یہ اہلِ چین کی داستانِ ہجرت تھی!
انتقالِ آبادی میں دلچسپی اُس وقت شروع ہوئی جب ڈھاکہ یونیورسٹی میں اقتصادیات کا طالب علم تھا۔ آبادی کا مضمون (ڈیمو گرافی) وہاں اقتصادیات کے سلیبس کا حصہ تھا۔ غالباً اُس وقت یہ مضمون پاکستان میں اور کہیں بھی نہیں پڑھایا جا رہا تھا۔ انتقالِ آبادی پر اقوامِ متحدہ کی ضخیم رپورٹیں پڑھنا پڑتی تھیں۔ مشرقی پاکستان کے نامور ماہرِ معاشیات ڈاکٹر کے ٹی حسین صدرِ شعبہ تھے اور ڈیموگرافی کے استاد بھی۔ مجسم شفقت اور نرم گفتار۔ مدتوں بعد اسلام آباد آئے تو غریب خانے کو شرف بخشا۔ پڑھانے کا ایسا انداز کہ طلبہ کی اکثریت اسی مضمون کی گرویدہ ہوگئی۔ اہلِ چین کی ہجرت، دنیا کی بڑی ہجرتوں میں سے ہے۔ امریکہ چینیوں سے بھرا ہے۔ آسٹریلیا اورکینیڈا کے شہر ان سے چھلک رہے ہیں۔ لیکن ان کی سب سے بڑی ہجرت وہ تھی جب وہ چین سے نکلے اور جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں ملائیشیا، انڈونیشیا، سنگاپور، کمبوڈیا وغیرہ میں پھیل گئے۔دوائوں کے اُس سٹور میں اس کتاب نے مجھے جیسے اُس رَیک کے ساتھ باندھ دیا۔ قیمت پوچھی تو بہت زیادہ لگی۔ اُوپر سے پرواز کا وقت، کچھ بد حواسی تھی اور کچھ غربت، کتاب واپس رکھ دی!
پاکستان واپس پہنچے تو پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے۔ کتاب رہ رہ کر یاد آتی تھی! کراچی تک پتا کر ڈالا، کہاں ملتی! اکثر بیگم سے اظہارِ حسرت کرتا۔ تنگ آ کر وہ کہتی کہ اتنی ہی ضروری تھی تو لے لیتے! اس پر وہ دلچسپ واقعہ یاد آ جاتا جو اٹک میں پیش آیا اور جو ہم نے بزرگوں سے سنا۔ گورنمنٹ کالج اٹک میں ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور پروفیسر اشفاق علی خان جیسے نابغے پڑھاتے تھے۔ ان میں سے ایک اکثر کہتا کہ یار! ایک نیا صوفہ خریدنا ہے۔ رفقائے کار کہتے کہ خرید لو، اس پر وہ بتاتا کہ کیسے خریدیں، قالین بھی تو خریدنا ہے! یہ مکالمہ کئی بار دہرایا گیا۔ آخر تنگ آ کر سننے والوں نے مشورہ یہ دیا کہ فی الحال صوفہ خرید لو۔ پھر اُسے بیچ کر قالین لے لینا!
زمانے کے پھیر نے ایک دو سال بعد پھر سنگاپور کے ساحل پر لا کھڑا کیا! دوائوں کے اسی سٹور پر پہنچا۔ ظاہر ہے کتاب وہاں نہیں تھی! قیام، سفیرِ پاکستان توحید احمد کی اقامت گاہ پر تھا (توحید صاحب نے ترجمہ کے فن پر بہت کام کیا ہے اور اب گجرات یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔) اُن کے کشادہ اپارٹمنٹ کے بالکل سامنے، شاہراہ کے اُس پار ’’بارڈرز‘‘ کا عظیم الشان کتاب گھر تھا۔ وہاں کتاب کا پتا کیا۔ کائونٹر پر بیٹھی ہوئی نوجوان لڑکی نے کمپیوٹر پر ٹھک ٹھک کی اور بتایا کہ موجود نہیں ہے مگر منگوا دیں گے۔ دو دن بعد کتاب مل گئی۔ بہت افاقہ ہوا۔ مشہور و معروف مصنفہ لین پین نے عجیب دلکش پیرائے میں لکھی ہے اور بتایا ہے کہ چینی کس طرح پوری دنیا میں پھیلے ہیں۔ لین پین پیدا تو شنگھائی میں ہوئی مگر تعلیم لندن اور کیمبرج میں پائی۔ ملائیشیا، سوئٹزر لینڈ، فن لینڈ، ہانگ کانگ اور سنگا پور بھی رہی!
توحید صاحب کے گھر جتنے دن قیام رہا، زیادہ وقت ’’بارڈرز‘‘ پر گزرا۔ بارڈرز کا دعویٰ تھا کہ کتابوں کی یہ دکان ایشیا کی سب سے بڑی دکان ہے۔ وہاں بیٹھ کر پڑھنے کی عام اجازت تھی؛ چنانچہ یہ بیک وقت دکان تھی اور لائبریری بھی! ہر وقت اس کا وسیع و عریض ہال خریدنے اور پڑھنے والوں سے بھرا رہتا۔ کتابوں کی الماریوں کے درمیان جگہ جگہ صوفے اور کرسیاں دھری تھیں۔ کتاب خریدنے کے بعد پندرہ دن کے اندر واپس کی جا سکتی تھی بشرطیکہ اس کا حلیہ نہ بگڑا ہو!
دنیا کے بہت سے ملکوں پر چھا جانے والا ’’بارڈرز‘‘ اب ایک قصۂ پارینہ ہے۔ اس کا آغاز1971ء میں ہوا جب یونیورسٹی آف مشی گن کے دو طالب علم بھائیوں ٹام بارڈرز اور لوئی بارڈرز نے دو کمروں پر مشتمل سیکنڈ ہینڈ کتابوں کی دکان کھولی۔ چار سال بعد انہوں نے ایک بڑا بک سٹور خرید لیا جو اپنا کاروبار بند کر رہا تھا۔ پھر بارڈرز کا بزنس پھیلتا گیا۔ 1992ء میں اسے ’کے مارٹ‘ نے خرید لیا۔ 2003ء میں اس کی برانچوں کی تعداد 1249 ہو گئی۔ 2005ء میں کوالالمپور میں برانچ کھلی۔ اسے سب سے بڑی برانچ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کا کورڈ ایریا ساٹھ ہزار مربع فٹ پر مشتمل تھا! 2006ء میں سنگا پور کی برانچ سب سے زیادہ منافع کما رہی تھی۔لیکن ہر کمال کو زوال ہے۔ ’’بارڈرز‘‘ کا چاند بھی گہنا گیا۔ حالات مخالف ہوگئے۔ برانچیں بند ہونے لگیں۔ میلبورن کی برانچ نے جو ایک عظیم الشان کتاب گھر تھی، میرے سامنے آخری ہچکیاں لیں۔ اس کی خوبصورت دیدہ زیب مضبوط الماریاں نیلام ہو گئیں۔ کچھ میرے بیٹے نے بھی خریدیں اور ان سے اپنی لائبریری کو مزین کیا۔ امریکہ میں بارڈرز کے حریف ’’بارینس اینڈ نوبل‘‘ نے اس کے اکثر حصص خرید لیے۔ رہے نام اللہ کا!
سو سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ کیا آتے زمانوں میں کاغذ پر چھپی ہوئی کتابیں ہوں گی؟ جب لکڑی اور پارچہ جات پر لکھی ہوئی کتابیں نوادرات میں شامل ہو گئیں تو کاغذ کا زمانہ زوال سے کیسے بچ سکتا ہے۔ دو سال پہلے ولیم ڈال رمپل کی معرکہ آرا کتاب
Return of A King
خریدی۔ اسرار نے پوچھا، ابّو کتنے میں خریدی ہے، جواب دیا اٹھارہ سو روپے میں۔ مسکرایا اور کہنے لگا: ’’مفت مل رہی ہے۔ میں نے آپ کے آئی پیڈ پر ڈال دی ہے!‘‘ کاغذ پر چھپی ہوئی کتاب تبرک کے طور پر رکھ لی۔ آئی پیڈ پر پڑھنے میں زیادہ سہولت محسوس ہوتی ہے۔ اِس وقت میرے آئی پیڈ پر شفیق الرحمن کی اور پی جی وُڈ ہائوس کی تمام کتابیں موجود ہیں۔ دیوانِ شمس تبریز، کلیاتِ جامی، رباعیاتِ ابو سعید ابوالخیر، دیوان حافظ، کلیاتِ سعدی، سیف الملوک اور انتخابِ میر بھی اس کالی سلیٹ میں موجود ہے۔ بورس پاسترناک کا ڈاکٹر ژواگو بھی ہے، عبدالکلام کی وِنگز آف فائر بھی! ڈیوڈ بلو کی لکھی ہوئی شاہ عباس کی مشہور سوانح حیات بھی! برائون کی لٹریری ہسٹری آف پرشیا کے چاروں حصے بھی! کینیڈا کے مزاح نگار سٹیفن لی کاک کی نایاب کتاب
Further Foolishness
بھی (شفیق الرحمن نے اپنی کتابوں کے نام حماقتیں اور مزید حماقتیں سٹیفن لی کاک ہی سے لیے ہیں۔) جبرائیل گارشیا مارکوئز اور فریڈرک فور سائیتھ کی ساری تصانیف بھی جادو کی اس تختی میں سما گئی ہیں۔ مارک ٹوین کی ایڈونچرز آف ٹام سائر سے لے کر سید سلیمان ندوی کی خطباتِ مدراس تک! یعنی میرے پہلو میں حرم بھی ہیں صنم خانے بھی، مقاماتِ حریری کا اصل مع انگریزی ترجمہ بھی اورکئی دوسری کتابیں بھی جن کے الگ الگ ذکر کا کالم کی مختصر زمین متحمل نہیں ہو سکتی!
باقی دنیا میں کتاب گھر یعنی بک شاپس اس لیے بند ہو رہی ہیں کہ اب لوگوں نے کمپیوٹر پر، آئی پیڈ پر اور ٹیبلٹ
(Tablet)
یعنی ای ریڈر پر کتابیں پڑھنا شروع کر دی ہیں۔ ہمارے ہاں کتاب گھر اس لیے دن بدن کم ہو رہے ہیں کہ کتاب خوانی ہماری ترجیحات سے نکل رہی ہے! اگر پڑھے لکھے بغیر اسمبلی میں بھی پہنچا جا سکتا ہے اور حکومت اور وزارت بھی مل سکتی ہے تو کتابوں کے جھنجھٹ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے! ہم ساری دنیا سے وکھرے ہیں۔ طاہرہ سید نے کیا خوب گایا ہے۔۔۔۔ ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔