کچھ شاہجہان سالف کی گمشدگی کے بارے میں
انتیس سالہ شاہ جہاں سالف ایک شاعر ہے۔ سماجی کارکن ہے اور پاکستانی سماج میں لگے بندھے ضابطوں سے منحرف دانشور کے طور پہ جانا جاتا ہے۔ وہ پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع اٹک کی تحصیل حسن ابدال کا رہنے والا ہے۔ 5 اپریل2017ء سے وہ غائب ہے، اس سے پہلے دسمبر 2016ء میں وہ اسی وقت ایک فیڈرل انٹیلی جنس ایجنسی کے زریعے سے غائب ہوا تھا جب سنٹرل پنجاب سے 5 اور بلاگرز غائب کردئے گئے تھے جن میں سے چار واپس آگئے تھے۔ شاہ جہان سالف بھی واپس آگیا تھا۔ اس کے قریبی دوست بتاتے ہیں کہ دسمبر کی جبری گمشدگی میں اس کے اغواء کاروں نے اس پہ جسمانی و ذہنی تشدد کیا۔ اسے کہا گیا کہ وہ سلمان حیدر کو سوشل میڈیا پہ فالو کرنا چھوڑ دے۔ اس پہ الزام عائد کیا گیا کہ اس کے بلوچستان میں پاکستان سے آزادی مانگنے والے بلوچ لوگوں سے تعلق ہے۔ مگر یہ الزام ثابت نہ ہوسکا۔ اس کے دوست کے بقول اس کے اغواء کار اسے شیعہ مسلمان خیال کررہے تھے اور بعد میں اس نے بتایا کہ اس کا خاندانی پس منظر ایک سنّی مسلمان کا ہے۔
سالف کی شادی ایک رومانیہ کی خاتون استاد فیلیا کورڈ سے گزشتہ سال جون 2017ء میں ہوئی تھی، اس کی بیوی کا کہنا ہے کہ بدھ کی رات پاکستانی وقت کے مطابق دس بجکر دس منٹ پہ اس کی سکائپ پہ سالف سے بات ہورہی تھی اور اچانک کی درمیان میں اس نے انتظار کرنے کو کہا اور اس کے بعد سے رابطہ ختم ہوگیا، اس کا موبائل بھی آف جارہا ہے۔ اس کی بیوی کا کہنا ہے کہ اس کے شوہر نے بتایا تھا کہ اس کے بارے میں پھر سے پوچھ گچھ ہورہی ہے۔ اسے تنگ کیا جارہا ہے۔ اور ایک وفاقی انٹیلی جنس ایجنسی کے لوگ اس کے بارے میں انوسٹی گیشن کررہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ریاستی ادارے نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کا پاسپورٹ جعلی ہے، جس پر انہوں نے بیرون ملک سفر کیا تھا۔ یہ موقف سراسر جھوٹ پر مبنی ہے اور محض حراست میں لینے کے لیے بہانے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے
کیا جعلی پاسپورٹ پر کوئی یورپ کا سفر کرسکتا ہے؟ شاہجہان سالف کو تارکین وطن کے حوالے سے بھی تنگ کیا جا رہا تھا جب کہ یہ بالکل جھوٹ اور بے بنیاد بات ہے ان کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ موجود تھا اور وہ بارہ سال سے سرکاری ملازم تھا ان کا شناختی کارڈ سوشل میڈیا پر شئیر بھی کیا جا چکا ہے۔ اور ان کا خاندان تقسیم کے وقت سے ہی پاکستان میں رہائش پذیر ہے۔ شاہجہان سالف پاکستان آرڈیننس فیکٹری واہ میں کام کر رہے تھے۔ لیکن 2016 دسمبر میں انھیں حراست میں لیے جانے کے بعد ریاستی اداروں نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اس ادارے سے استعفی دیں اور استعفی دینے کے بعد بھی انھیں مسلسل ہراساں کیا جاتا رہا جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان اور دلبرداشتہ تھے۔ سوشل میڈیا پر کچھ لوگ اس معاملے کو بلاگرز کے اٹھائے جانے کے ساتھ منسوب کر رہے ہیں، جو بالکل درست نہیں ہے. ان کا سوشل میڈیا پر لبرلز کی کیمپین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہے۔ نہ ہی وہ ان سوشل میڈیا گروپس کا حصہ تھے اور نہ ہی ایسے بلاگرز کے ساتھ رابطے میں تھے۔
ایک شاعر ہونے کیوجہ سے سالف کا حلقہ احباب کافی وسیع ہے۔ اور ادبی حلقوں میں ایک پہچان رکھتے ہیں۔ چونکہ سالف اپنے سوشلسٹ نظریات کے باعث محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد کر رہے تھے اور اس حوالے حکومت اور اداروں کی پالیسیوں پر بھی برملا تنقید کرتے تھے۔ جس سے عام آدمی کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک موقف رکھتے تھے۔ اور انسان دوستی، اظہار رائے کی آزادی اور مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے تھے۔
سالف کے ایک ساتھی شاعر کا کہنا ہے کہ سالف انتہائی شریف انسان اور عدم تشدد کی سیاست پہ عمل پیرا تھا اور وہ انسانیت کے درد سے سرشار ہی نظر ایا۔
پاکستان میں جبری گمشدگی اور لوگوں کے غائب ہونے کے رجحان میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور لاقانونیت کا یہ مظاہرہ ریاستی اداروں میں بیٹھے اہلکاروں کی جانب سے کیا جارہا ہے۔
ہم سالف کی بازیابی چاہتے ہیں۔ اگر اس نے کوئی غیر قانونی کام کیا ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے اور الزام ثابت ہونے پر بے شک اسے سخت سے سخت سزا سنائی جائے لیکن یہ ماورائے عدالت اور ماورائے قانون اقدامات ہمیں منظور نہیں اور ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
#FreeShahJehanSaalif
#StopEnforcedMissing
#NoToStateRepression
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔