آج سے ٹھیک پچاس سال قبل پہلی بار انسان نے چاند پر قدم رکھا تھا۔ پہلا قدم رکھنے والے خلاباز نیل آرمسٹرانگ تھے۔ مندرجہ ذیل اقتباس ان کی بائیوگرافی سے لئے گئے ہیں۔ ان کی زندگی کی کہانی کی ایک جھلک، خود انہی کی زبانی۔
“جب ہم خلائی جہاز پر سوار ہونے کے لئے نکلے تھے تو میں نے سب کو دیکھ کر اعتماد سے انگوٹھا دکھایا۔ ہم خود اتنے پراعتماد نہیں تھے۔ تھوڑا نروس اور تھوڑا جوش، یہ ملی جلی سی کیفیت تھی۔ راکٹ میں بلند ہوتے وقت بہت شور ہوتا ہے، بہت زیادہ۔ اور اس قدر جھٹکے جیسے کسی ٹرین میں بیٹھے ہوں جو خراب ٹریک پر چل رہی ہے۔ اس مشن کے ساتھ بہت امیدیں وابستہ تھیں اور بہت سے لوگوں کی بڑی محنت لگی تھی۔ آپ کو یہ سب چھوڑ کر صرف ایک چیز پر فوکس کرنا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ کاک پٹ میں آپ خود کوئی غلطی نہ کریں۔ آپ کے ہاتھ میں بس یہی کچھ ہے۔
میری اپنی زندگی نے اور شوق نے مجھے اس مشن کے لئے تیار کیا تھا۔ بچپن سے ہی اڑنے کا اور جہازوں کا شوق رہا تھا۔ مجھے پائلٹ کا لائسنس سولہ سال کی عمر میں مل گیا تھا۔ اس وقت مجھے گاڑی ڈرائیو کرنا نہیں آتی تھی۔ اکیس سال کی عمر میں میں کوریا کی جنگ میں لڑاکا طیارے اڑا کر مشن پر جایا کرتا تھا۔ جنگ کے بعد ٹیسٹ پائلٹ بن گیا جس کو نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ تجربے کرنے کے لئے دئے جاتے تھے۔ ایکس 15 جہاز کو چار ہزار میل فی گھٹنہ کی رفتار سے انتہائی بلندی پر چلانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب 1962 میں مجھے اپنی تین سالہ بیٹی کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ اس کی موت دماغ کے کینسر سے ہوئی تھی۔ آپ بچے کی موت کو نہیں بھلا سکتے۔ اس کا نشان آپ پر زندگی بھر کے لئے رہ جاتا ہے لیکن اس کا مقابلہ کرنے کا طریقہ زندگی کو مصروف طریقے سے گزارنا ہے۔ یہی وہ سال تھا جب مجھے خلابازی کے لئے چُن لیا گیا۔
خلابازی کی تربیت کے دوران ایک حادثہ 1966 میں ہوا جب ہمارا کیپسول کچھ دیر کے لئے بے قابو ہو کر گھومنا شروع ہو گیا۔ پھر 1968 میں لینڈنگ کی ڈیوائس کے تجربے میں یہ ایک خرابی سے کریش ہو گئی۔ اس سے جب میں نے ایجیکٹ کیا تو یہ زمین سے صرف سو فٹ دور تھی۔ میں بمشکل اس کی آگ کی لیپٹ میں آنے سے بچا۔ باہر نکل کر میں آفس میں جا کر کام کرنے لگا۔ جب کسی نے کہا کہ “تم مرتے مرتے بچے ہو اور واپس کام کرنا شروع ہو گئے ہو؟” تو میرا جواب تھا کہ “مرا تو نہیں، زندگی چلتی رہتی ہے۔ بہت کام کرنے کو پڑا ہے”۔
پہلے مشن کے کمانڈر کے طور پر میرا انتخاب ہو گیا۔ چار روز تک سفر کر کے ہم چاند تک جا پہنچے۔ مائیکل کولنز کمانڈ ماڈیول میں رہے۔ بز آلڈرن اور میں لونر ماڈیول میں سوار ہو گئے۔ لینڈنگ کے دوران کچھ غیرمتوقع ہو گیا تھا۔ گائیڈنگ سسٹم ہمیں ایک گڑھے کی طرف لے کر جا رہا تھا جہاں بڑے پتھر تھے۔ میرے خیال میں یہ اترنے کی مناسب جگہ نہیں تھی۔ میں نے خود کنٹرول سنبھال لیا کہ بہتر جگہ پر اتر سکیں۔ اس سے اضافی ایندھن استعمال ہونے لگا۔ ایک ارب لوگ یہ سب دیکھ رہے تھے۔ زمینی عملے کو لینڈنگ کے فلائٹ پلان کا علم تھا اور یہ لینڈر اس کو فالو نہیں کر رہا تھا۔ اس کو دیکھ کر لوگ کچھ لوگ اب سانس روک کر دیکھ رہے تھے کہ کیا ہو رہا ہے۔ پھر ہم نے اس کو چاند پر اتار لیا اور یہ الفاظ “عقاب اتر چکا ہے” سن کر بہت سے لوگ، جن کے پسینے چھوٹ رہے تھے، ان کی جان میں جان آئی۔ پھر میں نے سیڑھی سے اترنا شروع کیا۔ یہ قدم رکھتے ہوئے میرے ذہن میں وہ چار لاکھ افراد تھے جنہوں نے اس مشن کے لئے کام کیا تھا اور بہت سے دوسرے بھی، جن کا حصہ بالواسطہ تھا۔ میرے الفاظ “یہ انسانیت کے لئے بڑا قدم ہے”، ان سب کے لئے تھے کیونکہ یہ قدم مجھ اکیلے کا نہیں تھا۔
چاند ایک بڑا دلچسپ احساس ہے۔ افق بہت پاس لگتا ہے۔ دھوپ اور مٹی مختلف ہیں۔ ہمیں کرنے کے لئے کئی تجربات دئے گئے تھے۔ ہم نے وہ سب کئے۔ بہت زیادہ وقت نہیں گزارا۔ پھر واپسی ہوئی۔ واپس زمین پر انٹری اس سفر کا سب سے مشکل حصہ تھا۔
جب زمین پر پہنچے تو ہم سپرسٹار بن چکے تھے۔ نیویارک میں چالیس لاکھ لوگوں نے ہمارا استقبال کیا۔ پھر ہم دنیا کے ٹور پر نکلے۔طچاند پر پہنچ جانے کی کامیابی ہم خلابازوں کی نہیں، انسانوں کی کامیابی تھی۔ ہم اس میں دنیا بھر کے انسانوں کے نمائندہ تھے۔ کانگو میں لوگوں کے ہجوم سے لے برطانیہ کی ملکہ تک سب ہم کو دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ میں اس سب کے لئے تیار نہیں تھا۔ یہ اچھا تو لگتا تھا لیکن میرے لئے ایک بوجھ تھا۔ مجھے یہ سب پسند نہیں تھا۔
میں اپنی شہرت صرف کسی ایک واقعے کی وجہ سے نہیں چاہتا تھا بلکہ اپنے روز کے کام کی وجہ سے۔ اور اس شہرت کا میں مستحق نہیں تھا۔ اگر میں پہلا شخص تھا جس نے چاند پر قدم رکھا تو اس میں میرا کمال نہیں تھا، حالات کا تھا۔ یہ میرا اکیلے کا کارنامہ تو کبھی نہیں رہا تھا۔ بس، شہرت مجھے مل گئی۔
اس کے بعد میں نے اپنا خلابازی کا کیرئیر ختم کر دیا اور سنسناٹی میں یونیورسٹی میں انجینرنگ میں پڑھانا شروع کر دیا۔ مجھے ایک چیز کا افسوس رہا تھا۔ اپنے کیرئیر کی وجہ سے اپنی فیملی کو وقت نہیں دے سکا تھا۔ اپنے بڑھتے بیٹوں کے ساتھ کم وقت گزار سکا۔
مجھے علم تھا کہ اپالو پروگرام کی اپنی زندگی زیادہ لمبی نہیں اور اس کو چند سال کے بعد چھوڑ دینے کا ہی پلان تھا، لیکن خلائی پروگرام سے میری توقعات زیادہ تھیں۔ میرا خیال تھا کہ ہم اس سے کہیں زیادہ کر پائیں گے جتنا ہم نے کیا۔ میری رائے یہ ہے کہ جب آپ کا مقابلہ ختم ہو جائے تو پھر آپ زیادہ نہیں کر پاتے۔ وہ جذبہ اور حوصلہ ماند پڑ جاتا ہے۔
میں نے جہاز اڑانا نہیں چھوڑا۔ ایک وقت میں راکٹ کا پائلٹ تھا لیکن اب 75 سال کی عمر میں میں چھوٹا گلائیڈر اڑاتا ہوں۔ پرندے کی طرح زمین کو بلندی سے دیکھنا وہ تجربہ اور شوق ہے جس کو میں ترک نہیں کر سکا”۔
نیل آرمسٹرانگ کا انتقال 25 اگست 2012 کو سنسناٹی میں ہوا۔ اس وقت ان کی عمر 82 برس تھی۔
ان کی آپ بیتی پڑھنے کے لئے جو 2005 میں شائع ہوئی
First Man: The Life of Neil A. Armstrong by James R. Hansen