جب میں ابوبکر جیسے نوجوانوں کے " انصافی" ہونے کا تحریری ثبوت دیکھتا ہوں تو سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ کہیں کہانی ویسی ہی تو نہیں جیسی تب تھی جب ہم اٹھارہ انیس بیس برس کے تھے اور ذولفقار علی بھٹو کے شیدائی۔ ارے نہیں "روٹی، کپڑا اور مکان " کے نعرے سے لوگوں کی عسرت تمام ہونے کی آس لگائے ہوئے نظام کی تبدیلی کے خواہاں لوگ اور ہمارے برعکس ہمارے بڑوں کی اکثریت پیپلز پارٹی کی عام طور پر اور زیڈ اے بھٹو کی خاص طور پر مخالف تھی۔
انتخابات ہوئے تھے تو گھرانے آپس میں بنٹ گئے تھے۔ باپ اور بڑے بھائی جمیعت علمائے اسلام کو ووٹ دے رہے ہیں تو گھر کے نوجوان لڑکے لڑکیاں پیپلز پارٹی کو۔ بوڑھے لوگ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ اس حکومت کے بعد آنکھ کا پانی مر جائے گا، یہ مردو زن کو ایک لاٹھی سے ہانکیں گے۔ لوگوں کے گھروں میں کھانا نہیں پکا کرے گا، عورتوں کو بھی کام پر لگا دیں گے، کھانا ایک ہی جگہ پر، ایک جیسا دیا جایا کرے گا۔ نوجوان سمجھتے تھے کہ بس جاگیرداری کا بولو رام ہونے والا ہے۔ سرمایہ داری کا گلا گھونٹ کر مار دیا جائے گا اور سوشلزم ملک کی معیشت ہوگی۔ سب کو سب کچھ کرنے کی آزادی ہوگی۔ سب مل کر ناچیں گے، گیت گائیں گے، موج مستی کیا کریں گے۔
مگر نہ پروپیگنڈہ سچ ثابت ہوا اور نہ ہی نوجوانوں کے خواب پورے ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے پہلے ہی سال میں اپنے حقوق کی آواز اٹھانے کے سلسلے میں مزدوروں کے جلوس نکلنے لگے اور انہیں اسی شدت سے دبایا جانے لگا جتنی شدت سے ایوب خان کی حکومت پیپلز پارٹی والوں کے جلوس میں شامل لوگوں کی درگت بنایا کرتی تھی۔ ملتان کھاد فیکٹری کے مزدوروں کے جلوس میں شرکت کی پاداش میں مجھ طالبعلم کو جان سے مار دینے کی حد تک پیٹا گیا۔ تھانے میں دھکیلتے ہوئے " کوہو اوئے اینہوں" کرکے جان نکالی گئی۔ قید تنہائی میں رکھا گیا۔ جب کسی کی سفارش پر جیل کے ہسپتال منتقل کر دیا گیا تو جیل کے چکر میں پیپل کے درخت پر چپکی " فہرست خطرناک قیدیان" میں مجھ اٹھارہ برس کے دھان پان طالب علم کا نام پہلے نمبر پر تھا۔ ناصر زیدی بھی ایک سے جرم میں قید ہوا تھا، جس کی سفارش نہ آئی اس لیے وہیں "چکی بند " رہا تھا۔ اسے تو ضیاء حکومت نے کوڑے تک مارے تھے۔ وہ بھی ایران کے گلوکار داریوش کی طرح کا ہے جو شاہ کے عہد میں بھی زیر عتاب رہا اور خمینی کے دور میں بھی۔
اگر ہمارے جیسے کچھ بعد میں پیپلز پارٹی کی حکومت سے مایوس ہوئے تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد " جیالے " کہلائی جس طرح آج " انصافی " ہیں جنہیں ان کے مخالف یوتھیے کہتے ہیں۔ جیالوں کو حامی و مخالف دونوں جیالا ہی کہتے تھے اور وہ خود کو خود جیالا بتانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ جیالے بے نظیر کے دور میں بھی رہے پھر زرداری کے عہد میں بھی اور اب بلاول کے ساتھ بھی اگرچہ ان کی تعداد میں وقت کے ساتھ کمی آتی گئی مگر جذبہ تقریبا" اتنا ہی رہا۔
ضیاء حکومت کے بعد بے نظیر نے تبدیلی کی بات نہیں کی تھی جبکہ شریف برادران میں تو خیر تبدیلی کا "مادہ" ہی نہیں ہے۔ ترقی بھی ان کے لیے انہی منصوبوں پر عمل درآمد کرنا رہا جن سے یا تو ان کی کانسٹی ٹیواینسی مضبوط ہو یا جن منصوبوں سے متعلق ہئیت مقتدرہ رضا مند ہو۔ تبدیلی کی بات کی تو عمران خان نے کی بلکہ شدومد کے ساتھ کی۔ یہ اور بات ہے کہ نعرہ بازی کے لیے بعد میں ان کا لہجہ کچھ برا ہی نہیں بلکہ قابل مذمت بھی ہو گیا اور یہ لہجہ اور انداز اب بھی، جب کہ وہ اقتدار حاصل کر چکے ہیں، اکثر عود کر آتا ہے۔
خزانہ خالی ہے۔ جو بھی آیا اس نے یہی کہا اور غلط بھی نہیں کہا کیونکہ ہمارے ہاں قومی احساس اجاگر ہو ہی نہیں پایا، احساس ذات کا ہوتا ہے بس۔ چنانچہ جو حکمران آتے ہیں وہ کچھ کام کرتے ہیں، کچھ اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔ جو کام کرتے ہیں، ان پر کیے گئے اخراجات بھی درحقیقت ذاتی سرمایہ کاری کی مانند ہوتے ہیں کیونکہ ان کاموں سے ان کا پھر سے منتخب کیا جانا بہت حد تک یقینی ہو جاتا ہے۔ جو جاتا ہے وہ اپنے کارناموں کا تذکرہ کرتا نہیں تھکتا اور جو آتا ہے وہ جانے والوں کی بد عنوانیوں، بے اعمالیوں اور بے جا اخراجات کا تذکرہ کرتے اور اپنی طرف سے مستقبل کے سہانے خواب دکھاتے نہیں تھکتا۔
جو نئی حکومت آئی ہے وہ قرض نہ لے تو کیا کرے۔ اس سے پہلے کی حکومت نے بیرونی قرضوں کے علاوہ اندرونی قرضے بھی بے تحاشا لیے تھے۔ اللوں تللوں کی بات ہم نہیں کرتے کیونکہ اقتدار میں جو آتے ہیں وہ اسی لیے آتے ہیں کہ اقتدار کے مزے لیں اور اختیار کا لطف اٹھائیں۔ گذشتہ حکومت نے سبسڈہز بہت زیادہ دی تھیں۔ زرمبادلہ کی قدر کو جعلی طور پر برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی جو اتنی برقرار بھی نہ رکھی جا سکی تھی۔
سبسڈیز سبھی حکومتیں دیا کرتی ہیں مگر بلاجہ اور بے تحاشا سبسڈیز دیا جانا، حکومتیں تو حکومتیں نطام کا بھی دھرن تختہ کر سکتا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام میں ایک بڑا کردار ان سبسڈیز نے ہی ادا کیا تھا۔ طالبعلم ملک کے اندر اور ملک سے باہر ایک سو سے کچھ زیادہ ڈالر ادا کرکے ایروفلوٹ کی بزنس کلاس میں سفر کیا کرتے تھے۔ سوویت یونین کے آخری ایام میں مجھے بھی ایک ہم نام طالبعلم کے نام سے خریدی ٹکٹ پر ایسا سفر کرنے کاموقع ملا تھا۔
نعرے تو نعرے ہوتے ہیں۔ انتخابات سے پہلے سب ملک کو "ونڈر لینڈ" بنا دینے کا دعوٰی کیا کرتے ہیں۔ ایسی بات نہیں کہ انہیں حقائق کا علم نہیں ہوتا۔ وہ سب جانتے ہیں مگر نہیں جانتے تو سب کچھ عوام نہیں جانتے جن سے ووٹ لے کر سیاسی پارٹیوں کے رہنما اقتدار حاصل کیا کرتے ہیں۔ سیاستدانوں کا مطمع نظر ہی اقتدار حاصل کرنا ہوتا ہے۔
تاحتٰی ایک زمانے میں انسانوں کی بھلائی کی سب سے بڑی داعی سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیوں میں بھی رہنما اقتدار کے خواہاں رہے اور کارکن فلاح و بہبود کے خواستگار۔ رہنما کوئی انسان اسی لیے بنتا ہے کہ وہ رہنما رہے۔ آپ نے کسی رہنما کو کبھی کارکنوں کی صف میں جاتے دیکھا ہے۔ رہنماؤں کی جگہ خالی ہوتی ہے تو آٹے میں نمک کی مقدار کے مصداق کوئی کارکن رہنما کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور یہ پارٹیوں کی مجبوری بھی ہوتی ہے کہ وہ جمہوریت کا دکھاوا کرنے کو اپنے عزیز تر کارکن کو جس میں درحقیقت اقتدار کی خواہش کے جراثیم ہوتے ہیں، اوپر لائیں۔
تو جناب رہنما ہونا کوئی اتنا آسان بھی نہیں ہوتا۔ قرض لینے کے فیصلے بھی کرنے ہوتے ہیں۔ قرضوں کی ادائیگی کے راستے بھی نکالنے ہوتے ہیں۔ لوگوں کو مشکل میں ڈالنا بھی ہوتا ہے۔ لوگوں کو مشکل سے نکالنے کی تدابیر بھی کرنی ہوتی ہیں۔
نئی حکومت ہے۔ نئے لوگ ہیں ماسوائے چند ایک کے۔ بیوروکریسی وہی پرانی ہے۔ نظام وہی کہنہ ہے۔ دنیا نئی ہو نہیں سکتی۔ سعودی عرب میں بادشاہت ہے۔ بادشاہ کو اوئے بادشاہ، ایتھے رکھ کہا نہیں جا سکتا۔ چین میں کمیونسٹ حکومت ہے، وہ چاہے تو سنکیانگ میں لوگوں کو روزہ رکھنے سے سختی سے روک دے، چاہے تو نمازیں نہ پڑھنے دے لیکن سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے بلند دوستی کے حامل ملک کے اعمال پر منہ میں گھنگھنیاں ڈالنی ہی پڑتی ہیں۔ آئی ایم ایف پرانی بلکہ بہت پرانی ہے جس کے اصول بھی کہنہ ہیں، سخت بھی ہیں اور اپنے مفاد کے لیے زہادہ کارگر۔
دنیا میں تمام سرمایہ داری، تمام کرنسیاں قرض کے فلسفے پر قائم ہیں۔ امریکہ کھربوں ڈالر کا مقروض ہے۔ قرض لینا گھبرانے کا موجب نہیں بنتا بلکہ قرضے کیسے ادا کیے جائیں گے یہ بات زیادہ پریشان کن ہوا کرتی ہے۔ نئی حکومت کچھ تو کرے گی مگر یہ بات طے ہے کہ لوگ بھوک سے مریں گے نہیں۔ حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ اس کے خلاف فوری احتجاجات اور ہنگامہ آرائی کا وطیرہ نہیں اپنا چاہیے کیونکہ اس کے جانے سے شدید سیاسی عدم استحکام پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...