کچھ نہیں ہوتا
دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں لوگوں کے مرنے، زبردست تباہی و بربادی ہونے کے علاوہ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کے بعد کیا جرمنی، جاپان، برطانیہ، آسٹریا، اطالیہ، فرانس، پولینڈ اور روس نقشے سے محو ہو گئے، قائم و دائم بلکہ مضبوط تر ہی ہیں، ہیں نا؟ ویت نام میں آگ کی بارش میں ڈوب جانے والوں کے بعد ویت نام ترقی پذیر ہے۔ کمبوڈیا یا کمپوچیا میں پال پوٹ نے لاکھوں لوگوں کو اس پار کی دنیا میں بھیج دیا تھا، کمپوچیا بھی کوئی برا تو نہیں جا رہا۔ عراق پر امریکی دھاوے کے بعد کیا عراق ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا؟ ایران، شمالی کوریا شدید اقتصادی پابندیوں کے باوجود بھی اپنے بازو کے پٹھے دکھا رہے ہیں۔ بنگال کے قحط کے بعد بنگال اور یوکرین کے قحط کے بعد یوکرین میں ماؤں نے کیا بچے جننے چھوڑ دیے تھے؟ بالکل نہیں۔ بس اتنا ہی ہوا تھا نہ کہ دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں لوگ مارے گئے، تباہی و بربادی ہوئی۔ ایٹم بم سے بھی کوئی ڈیڑھ دو لاکھ انسان لقمہ اجل بن گئے تھے۔ ویت نام اور کمپوچیا میں بھی عارضی طور پر آبادی کم ہوئی تھی۔ عراق میں جنگ سے پہلے اور جنگ کے دوران لاکھوں لوگ مارے گئے۔ افغانستان کی کثیر آبادی مہاجر ہو گئی تھی اور اب تک بہت سے ہجرت کا دکھ سہے جا رہی ہے، بہت زیادہ لوگ دنیا سے اٹھ گئے تھے۔ بنگال کے قحط کے دوران اسی بنگال میں بہت سے لوگوں کے گودام اناج سے بھرے ہوئے تھے۔ ریستوران جن کے باہر لوگ مکھیوں کی طرح گر گر کے مر رہے تھے، اسی طرح آباد تھے۔ موسیقی بھی سنی جا رہی تھی۔ لوگ رقص بھی کر رہے تھے۔ جب سٹالن کے لیے خروشچیف یوکرین کے قحط کی ہولناک رپورٹ لے کر آیا تھا تو اس رپورٹ کو سننے کے بعد بھی پارٹی کے زعما عمدہ ترین اکل و شرب کی محفل میں شریک تھے بس سٹالن کی بیوی نے یہ کہہ کر کہ " تم لوگ انسان نہیں ہو حیوان ہو" کنپٹی پر گولی مار کر خود کشی کر لی تھی۔
تو بھائی اگر 18 فروری کو پیرس میں ایف اے ٹی ایف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) کے اجلاس میں پاکستان کو امریکہ کی درخواست پر دہشت گردی میں مالی معاونت فراہم کرنے والا ملک قرار دے بھی دیا گیا تو کیا ہو جائے گا، کچھ بھی نہیں۔ بس درآمد برآمد کرنے والے تاجر مشکل کا شکار ہونگے، باہر سے آنے والی اشیاء مہنگی ہو جائیں گی۔ عرب ملکوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کے گھروں کے چولہے مدہم پڑ جائیں گے۔ ہاں ایک بڑا نقصان ہو سکتا ہے کہ باہر سے آنے والے زرمبادلہ کی چین ٹوٹ جائے۔ لوگ بینکوں کی بجائے ہنڈی والوں سے زیادہ رجوع کرنے لگیں، جس سے حکومت کا خزانہ جو پہلے ہی خاصا خالی ہے مزید خالی ہونا شروع ہو جائے۔ افراط زر بڑھ جائے، بیروزگاری میں اضافہ ہو جائے۔ یہ کونسے مسائل ہیں، پاکستان کے لوگ ایسے مسئلوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہاں یہ بھی ہوگا کہ جرائم میں اضافہ ہو جائے گا۔ بھوک مزید خواتین کو بے راہ روی کی جانب دھکیل دے گی۔
ارے بھئی یہ مسئلے تو صدیوں سے موجود ہیں۔ بس سپریم کورٹ میں صادق و امین کا سرٹیفکیٹ فراہم کیے جانے کے مقدمات چلتے رہیں۔ عدلیہ کی جے جے کار ہوتی رہے۔ بلڈ پریشر شوٹ کر جانے سے مرنے کا مذاق اڑایا جاتا رہے۔ نکالے جانے کی دہائی دی جاتی رہے۔ سونامی آنے کی "نوید" سنائی جاتی رہے۔ راؤ انوار گرفتار نہ کیا جا سکے وغیرہ وغیرہ۔ لطف آتا رہے۔ بھوک ووک تو لگا ہی کرتی ہے۔ چیزیں مہنگی وہنگی بھی ہو ہی جاتی ہیں۔ عورتوں کو طوائفیں بننے سے نہ پیغمبر روک سکے نہ حکومتیں۔ تو بے فکر ہو جاؤ۔ ہم اپنی ترکیب میں خاص ہیں کیونکہ ہم امت کا حصہ ہیں۔
ہم تو پہلے سے ہی کہتے چلے آئے ہیں کہ دیکھو دہشت گرد کوئی یونہی تو بنتا نہیں۔ کوئی سانحہ پیش آیا ہوگا تو انتقام میں دہشت گرد بن گیا ہوگا۔ دہشت گرد تو ایسے لوگوں کو ہم اب کہنے لگے ہیں جب مائی باپ نے انہیں دہشت گرد کہنے کا حکم جاری کیا ہے۔ دل میں ہم انہیں اب بھی مسلمان سمجھتے ہیں جو قرآن و سنت کی حکومت قائم کیے جانے کی خاطر اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ عدلیہ نے ملا فضل اللہ کے سسر کو صعیفی کی وجہ سے رہا کر دیا، آپس کی بات ہے سارا معاملہ، ارے سمجھو نہ اسلامی تحریک شروع تو انہیں ضعیف شخصیت کے بل بوتے پر ہوئی تھی۔ ہم نے کب انکار کیا کہ ان کارروائیوں میں آٹھ ہزار فوجی اور ساٹھ ہزار سے زیادہ عام لوگ نہیں مارے گئے مگر کیا کیا جائے جنگوں میں ایسا تو ہوتا ہی ہے ناں۔ کون کس سے جنگ کر رہا ہے؟ یہ بھی بھلا کوئی پوچھنے کی بات ہے، امریکہ کے یاروں اور ملک کے غداروں کے خلاف حقیقی محب وطن برسر پیکار ہیں۔ کیا کہا جنگ ختم ہو گئی، لگتا ہے آپ بہت معصوم ہیں۔ چلیے چھوڑیے آپ جو سمجھتے ہیں سمجھتے رہیے۔
تو بھائی لگانے دو امریکہ کو اور اس کے یاروں کو ہم پر اقتصادی پابندیاں، اگر بلیک لسٹ سے بھی کوئی خطرناک فہرست ہے تو اس میں ڈال دے۔ ہم صبر کرنے والے لوگ ہیں اور اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ہم پیرس کلب، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو کہاں خاطر میں لاتے ہیں۔ ہونے دو ان امریکہ کے یاروں اور غداروں کو خوار، بس سپریم کورٹ کو کچھ نہ ہو۔ جب بہت ابتری پھیل جاتی ہے تب ہی ایک نیا معاشرہ جنم لیتا ہے۔ ہم نان جویں کھانے والے بن جائیں گے۔ پانی پر گذارا کر لیں گے لیکن ان فرنگیوں کے آگے سر نہیں جھکائیں گے۔ کیا بولے، پانی میں سنکھیا ملا ہوا ہے تو اچھا ہے نہ کافروں کے آگے ناک رگڑنے سے کہیں بہتر ہے کہ اللہ کے حضور چلے جائیں۔
ہمیں ایف اے ٹی ایف نہ ڈرائیے۔ ہمارے لوگ تو ایٹم بم کے ساتھ بندھ کر دشمن ملکوں پر گرنے کو تیار ہیں اور ہمارے منصف سبحان اللہ وہ تو بت پرستوں کا نام تک لینا نہیں چاہتے۔ وہ راؤ انوار صاحب پر بھی چار ساڑھے چار سو انسان پار کر دینے کا بس الزام ہی ہے۔ جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے ملزم کو مجرم مانا ہی نہیں جاتا، تبھی تو چیف صاحب نے ایک خط پر انہیں تحفظ کی ضمانت دی تھی۔ یہ تو اچھا ہوا کہ راؤ صاحب شاطر آدمی ہیں اور پولیس میں چھپے امریکہ کے یاروں اور ملک کے غداروں کے لے پالکوں کو پہچانتے ہیں۔ آ جائیں گے سامنے آ جائیں گے۔ بھئی ہم تو جی دار لوگوں کی عزت کرتے ہیں۔ چلو مان لیا مار دیتے ہونگے، اماں یونہی تو نہیں مار دیتے نہ، کوئی شبہ ہوتا ہے تبھی مار دیتے ہونگے، ویسے ہم یہ الزام مانتے نہیں ہیں۔
قسم سے ان خود غرض سرمایہ دار ملکوں کی بس گیدڑ بھبھکیاں سن لو، ملک کی اسی فیصد آبادی کو تعیشات کی ضرورت ہی نہیں موٹا جھوٹا پہن کے اور سادہ سوکھا کھا کر گذارا کرنا ان سب کو آتا ہے۔ پابندیوں سے ان موٹوں کے پیٹ کچھ کم ہونگے، شاید ان کے گنج پر بال اگنے لگ جائیں جب ان کا گنج حقیقی کم ہو۔ انشاّاللہ قحط تو پھیلنے سے رہا۔ پھر غریب غربا کے لیے مذہبی تنظیمیں چندہ اکٹھا کرکے کچھ بندوبست کر ہی لیں گی۔ سنو اگر ہم سب مل کر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کریں تو وہاں ان ملکوں کے سربراہوں کا بول و براز خشک ہو جائے گا۔ کیا کہا امریکہ نعرہ سن کر ہم پر حملہ کر دے گا، تو کر دے ناں، لطف تو تب ہی آئے گا جب ہم من حیث القوم امریکہ کے خلاف اعلان جہاد کریں گے۔ افغانستان سے نکال کر پھینک دیں گے۔ ہندوستان میں جا بیٹھیں گے امریکی تو بیٹھ جائیں۔ ہم کسی طرح بھی ایف اے ٹی ایف سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ ہوتی رہے ایف اے ، ہمارے پاس ایم اے، ایم فل، پی ایچ ڈی ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“