نوشتہِ ديوار پڑھنے کيلئے بصيرت کی چنداں ضرورت نہيں کيونکہ اس کيلئے بصارت ہی کافی ہے ليکن جب اسکرين پہ چلنے والے بھرپور ايکشن کے مناظر اتنے صاف دکھائی دے رہے ہوں کہ بصارت ہی نتائج اخذ کرنے کيلئے کافی ہو تو پھر فلم کا شاطر ڈائريکٹر کسی بڑے لکھاری کے قلم سے پسِ ديوار کے حقائق کو يوں الجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ آنکھيں نوشتہِ ديوار پہ ہونے کے باوجود دل و دماغ پسِ پردہ محرکات ميں کھو جاتے ہيں۔
اسی ليئے نوشتہِ ديوار اتنا اہم نہيں رہتا کہ نتائج اسی کے وجود سے ماخوز ہوں۔
نوشتہِ ديوار اور ايکشن سے بھرپور فلم کو سمجھنا اس ليئے بھی چنداں مشکل نہيں کہ ايک ہی ڈائريکٹر، ايک ہی پروڈيوسر، ايک ہی رائٹر، ايک ہی موضوع کو اور ان ہی اداکاروں، معاون اداکاروں اور "ايکسٹراز" کے ساتھ اتنی بار دھرا چکا ہيکہ اب تو ديکھنے والے اگلے سين، ايکشن، کلائميکس اور+
اينٹی کلائميکس کو بند آنکھوں سے ديکھ ليتے ہيں۔ ايک بات جس کو سمجھنے کيلئے بصيرت کے گھوڑے پہ سوار ہونا پڑتا ہے وہ فلم کا سپانسر اور فائينانسر ہے۔
اولين تو يہ فاٸينانسر ولايت سے ورود کرتے تھےليکن پھر کولمبس کی دريافت کردہ سرزمين کے باسيوں نے بھی ہمارے ہاں فلم سازی ميں فائنانسنگ اور سپانسرنگ کو اچھی سرمايہ کاری جانا۔ کولمبس کی دريافت کردہ سرزمين دنيا کيلئے کس قدر فائدہ مند اور ضرررساں ثابت ہوئی يہ ايک الگ موضوع ہے۔ +
ليکن اس کا سب سے بڑا فائدہ ہمارے قومی سينما کے فلم ميکرز کو ہوا۔
جس روس کی بقا اور رہی سہی طاقت کو ہم ٹینکوں گھن گرج سے تعبير کرتے ہیں وہی روس جب اپنی عسکری طاقت کی جولانی پہ تھا اور اس کی اس طاقت کیے بحرِ بيکراں ميں جوار بھاٹا آيا اور ہمارے پڑوس ميں خاک و خوں سے بھرپور تھيٹر+
سجا تو کولمبس کی دريافت کردہ سر زمين کے سپانسرز ڈالروں کے ساتھ مارگلہ کی پہاڑيوں کے دامن ميں متمکن ہوئے۔
ڈائريکٹرز کے ساتھ صرف لين دين کی نشست ہوئی۔ فلم کی پروڈکشن، کاسٹ اور پبلسٹی کا زمہ انھوں نے اپنے سر ليا۔ خاک و خوں سے بھرپور فلمی مناظر ساری دنيا نے ديکھے۔ شہروں کی ويرانی، جانوں کی ارزانی، انسانیت کی بے سروسامانی کو ڈالروں کی فراوانی ميں ملفوف رکھاگيا ليکن فلم کے مناظر اتنے+
اندوہناک اور بھيانک تھے کہ انسانيت کانپ اٹھی۔
اور آج تک کہيں خالد حسينی کے ناول The Kite Runner اور A Thousand Splendid Suns کی صورت ميں انسانيت کی روح پہ تازيانے لگاتےنظر آتے ہيں اور کہيں 'تيسری دنيا کی مونا ليزا' شربت گل پسِ ديوارِ زنداں فلم ميکرز کی دجل و تلبيس، حرص و ہوس اور اقتدار کی بھوک کا مشاہدہ کرتی ہےتو خاموش+
لبوں اور ديومالائی بلوری آنکھوں سے فلم ميکرز کی بصيرت اور بصارت کا تمسخر اڑاتی نظر آتی ہے۔
اس کی گہری خاموشی کی صدا ہماری اجتماعی قوتِ سماعت کے حيطے ميں تو نہيں آتی ليکن خالد حسينی کے ناول And The Mountains Echoed کی طرح ہماليہ سے داغستان تک کی پہاڑی سلسلوں مېں گونج پيدا کرتی ہے۔
جہاں بصيرت کی شمعِ فروزاں لیئےچلنے والے کچھ جيسے دانشور اور لکھاری انسانيت اور انسانی ارتقاء، رياست کے وجود، جمہور کی سامراج کے خلاف جدوجہد، ميگنا کارٹا سے لیکر جنيوا کنونشن تک کے انسان کے علمی اور شعوری سفر اور سلطانئ جمہور کے علمبردار، رياست کے ستونوں کے مابين تقسيم کار، +
آمريت کے خلاف بر سرِ پيکار عناصر کے سب سے بڑے علمبردار، روشنېوں کے سفير، اندھېروں کے رقيب، شيکسپير، دانتے، مارکس اور کارلائل کے فکری ہم جليس اور نئی نسل کے فکری رہنما يوں اچانک جمہور، جمہور کے حقِ حکمرانی، ساری دنيا ميں مروج اصول ہائے جہاں بانی پسِ پشت ڈال کر چشمِ زدن ميں نوشتہِ+
ديوار کو پڑھنے اور اس پر عمل پيرا ہونےکا درس دينے لگيں تو وہاں حل ہی ميں غيور ترکوں کی خوں سے لکھی تحرير کس نے پڑھنی ؟
ليبيا، عراق، شام اور مصر کی عشروں پہ محيط آپکے مجوزہِ نوشتہ ديوار پہ عمل پيرا آمريت کے جبر سے پيدا ہونے والی اور انسانيت کو جنجھوڑنے والی بانگِ درا بھی سنائی نہيں دے سکتی تو وہاں شربت گل کے خاموش احتجاج کی گونج کوئی کيسےسنے؟
اس فلم کے آغاز پہ ہی نوشتہِ ديوار پہ نہ صرف تھيٹر کی تباہی و بربادی لکھی تھی بلکہ فلم ڈائريکٹرز کی اپنی راج دھانی کی خانہ ويرانی بھی ديدے پھاڑ پھاڑ کر دکھائی ديتی تھی۔
ليکن فائنانسر نے مارکيٹنگ کيلئے جہاں قلمی پيادے مستعار ليئے تو وہاں صاحبانِ جبہ و دستار بھی بساط پہ اس ہنر سے سجائے کہ داڑھی کی لمبائی، مونچھوں کا وزن اور پائنچوں کی اونچائی ہی معيارِ بصيرت و بصارت ٹھہرے۔
فائنانسر کے عالمی ايجنڈے کی نگہبانی کيلئے ان صاحبانِ منمبر و محراب نے قرآنی آيات کی اپنی مطلب کی تاويلات، کہيں ماضی کی حکايات،کہيں قرونِ اولٰی کے مورخين کی روايات، کہيں اور کہيں اپنے مبنی بر ہوس فکری تخيلات کو براہينِ الہامی اور قولِ فيصل کے طور پر يوں پيش کېا کہ من گھڑت +
حکایات فرمانِ الٰہی دستورِ اسلام ٹھہرے۔ کہيں گرم پانيوں تک ملحدوں اور دہريوں کے ناپاک قدموں کا اشتہار چلايا گيا تو کہيں غزوہِ ہند کا ٹريلر بنا کر دکھايا گيا۔
اس کی کوکھ سے يہ نوشتہِ ديوار نکالا گيا کہ وطنِ عزيز کو قائد کیے فرمان کی روشنی ميں اسلام کی "تجربہ گاہ" بنانے کيئے ضروری ہيکہ جمہور کے حقِ حکمرانی کو کفر سمجھا جائے اور آزادیِ اظہارِ رائے پہ نقب لگائی جائےاور سوچنے سمجھنے پہ پہرہ بٹھايا جائے تاکہ کوئی پسِ ديوار کھيلے جانے -+
والیے گھناؤنے کھيل کو نہ سمجھ سکے۔
زہدواتقاء، قيل و قال سے مسجع گفتگو، لمبے جبوں، رولتی تسبيحوں، حنائی داڑھیيوں، سرمئی آنکھوں، اور ڈالروں کی روشنائی سےمعمور قلموں کی سبک رفتاری سے منظرنامہ اتنا دھندلا ديا جائے کہ چيختے حقائق اور چلاتی ہوئی تباہی آنکھوں سے اوجھل رہے۔
اس کھيل ميں بقول کچھ لوگوں کے سوويت يونين اپنی عسکری قوت کے باوجود صرف روس تک محدود ہو گيا اور اس کے بطن سے کئی نوزائيدہ مملکتيں وجود ميں آئيں۔
نوزاٸيدہ مملکتوں کے جمہور نے تو آج تقريباََ تين عشرے گزرنے کے باوجود يہ نعرہِ مستانہ بلند نہيں کيا کہ ايک دفعہ پھر ہميں مضبوط فوجی قوت کے حامل سوويت يونين کا حصہ بنايا جائے۔
سوويت يونين نے آپ کے آئيډيل اسرائيل کے فلسطين پر غاصبانہ قنضے کی طرح افغانستان کو فوجی قوت کے بل پر اپنے نگيں کرنے کو کوشش کی تو عالمی بساط پہ خود ہی نگوں ہو گيا۔ جسے آپ نے خردمندی اور حقائق پسندی سے تعبير کيا وہی سوويت يونين کے حق ميں جنون اور پاگل پن ٹھہرا۔
اس گريٹ گيم ميں روس کی شکست اور امريکہ کی فتح سے ہمکناری ميں ديگر کئی وجوہ کے ساتھ ساتھ يہ بات بھی اظہر من الشمس ہيکہ امريکہ کی فتح ميں ايک بڑا عنصر وہاں جمہور کی حکمرانی تھی۔
مارکس کے فلسفے اور جمہوريت کے بنيادی اصولوں کو پسِ پشت ڈال کر سوويت يونين اپنے عظيم وجود کو برقرار نہ رکھ سکا۔ اس عظيم کھيل ميں، اگر فلم کے ڈائريکٹرز جنکی توجہ صرف ايکشن اور ڈالروں پہ مرکوز تھی، اگر نوشتہِ ديوار کو خاطر ميں لاتے تو آج تباہی و بربادی وطنِ عزيز کا مقدر نہ ہوتی۔
سپانسر کی بھر پور مالی معاونت سے فلم ميں تھرِل پيدا کرنے اور صاحبانِ جبہ و دستار کے درآمد شدہ حجازی سرمہ کو ناظرين کی آنکھوں ميں لگانے کے باوجود، کے مردِ مومن جو پابندِ صوم و صلٰوت اور عابدِ شبِ زندہ دار تھا، کو بقول صاحبانِ جبہ و دستار اقتدار کے عطيہِ خداوندی ہونے کی +
الہامی ضمانت و تسلی پہ اطمينان نہ ہوا تو اس نے ريفرنڈم کا کھيل کھيلا۔
اسے بھیی اس بات پہ يقين تھا کہ مملکت کا وجود اس کی زات سے ہے نہ کہ اس کاغذ کے ٹکڑے سے مگر پھر بھی اپنے اقتدار کو سندِ جواز بخشنے کيلئے اسے ريفرنڈم کا ڈھونگ کيوں رچانا پڑا؟
سپانسر نے جب ضياء ميں ملفوف تاريکی چہار نگر پھيلا دی تو پھر اسے بے دستور زمين کی بجائے فطرت کے قوانين کی کاربند فضاؤں ميں ہی تحليل کر دیا تو ڈائريکٹر نے جمہور کو يہ مژدہ سنايا کہ اب ملک مزید آمريت کا متحمل نہيں ہو سکتا اور جمہوريت ميں پاکستان کا مستقبل ہے۔
اختيار کے سنگھاسن پہ بيٹھنے والوں نے اپنی چھاتی عسکری تمغوں کے ساتھ ساتھ ايک تمغہِ جمہوريت کا اضافہ کيا اور اختيار کی بجائے اقتدار جمہور کے منتخب نمائندوں کے حوالے کيا اور خود پسِ پردہ بيٹھ کر کھيل کھيلنے کا فيصلہ کيا۔
اور اس بار پسِ ديوار رہ کر جمہوريت پہ نقب لگانے کا تانا بانا بٌنا گي ليکن مسئلہ پھر فائنانسر کا تھا۔ اگلے عشرے ميں امريکہ سے تو کوئی مالی مدد نہ ملی البتہ حجاز سے مالياتی ہواؤں اور اقبال کے شاہينوں کا ورود ہوا۔
پڑوس ميں قرونِ اولٰی کی خلافت کا قيام ہی ہمارا اولين مقصد ٹھہرا اور ايک دفعہ پھر وہی کھيل کھيلا گيا جس کا کلائميکس نائن اليون پہ ہوا۔
اب سپانسر پھر ميسر تھا، تھيٹر بھی تھا، کاسٹ بھی تھی ليکن اب کی بار ڈائريکٹر کو 'سابقہ ہيرو' کو ولن بنا کر پيش کرنا تھا۔ ميڈيا کے اشتہاری دلالوں اور صاحبانِ جبہ و دستار کے فکری حوالوں سے کل تک کے"جہاد" کو دہشت گردی کا چولا پہنايا گيااور پھر جمہور کے حقِ حکمرانی پہ ڈاکہ ڈالا گيا+
کہ اب يہی نوشتہِ ديوار ہے۔
اگر سپانسرز کے سامراجی ايجنڈے کو اسکے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر آگے نہ بڑھايا گيا تو ہمارا مقدر تورا بورا ہی ہو گا يہ اعلان ہوا اور يوں ايک عشرہ پھر جمہور کا حقِ حکمرانی غصب ہو گيا۔
دستور کاغذ کا ايک ٹکڑا ٹھہرا بلکہ اس بار تو نظريہِ ضرورت کے بانيوں نے نوشتہِ ديوار کو سامنے رکھتے ہوئے، کاغذ کے اس ٹکڑے ميں آمر کومن چاہا رد و بدل کا اختيار بھی دے ديا۔ اور يوں ايک بار پھر جمہور نہ صرف حقِ حکمرانی سے محروم ہوئے بلکہ خاک و خوں ميں نہلا بھی ديئے گئے۔
باجوڑ سے پشاور، وزيرِستان سے سوات، کوئٹہ سے کراچی اور لاہور سے گلگت تک انسانی لاشوں کے انبار لگ گئے۔ پہلے دساور سے "مجاہد" آيا کرتے تھے اب کی بار خودکش بمباروں نے وطنِ عزيز کو مسکن بنايا۔
بين الاقوامی ايجنڈے کو سمجھنے سے قاصر اور بصيرت و بصارت سے محروم خداوندگانِ مملکت اور اپنے آپکو عقلِ کل سمجھنے والے اب کی بار کھيل کو نہ سمجھ سکے اور سٹريٹيجک ڈيپتھ کے نام پہ اپنے سے شاطر اور ماہر کھلاڑيوں کی آنکھوں ميں دھول جھونکنے لگے۔
نتيجہ يہ نکلا کہ دنيا جن دہشت گردوں کے تعاقب ميں تھی وہ ہماری گود ميں کھيلتے پائے گئے۔ جب عالمی خفت کا سامنا کرنا پڑا تو شاطر "سامری " نے اب کی بار ميموگيٹ کا بچھڑا نکالا۔ اور ميڈيا پہ بيٹھے اپنے گماشتوں کے زريعے جمہور کو اس کے سامنے سجدہ ريز کر ديا۔
فلم ميں ايک سنسنی خيز منظر کا اضافہ ہوا۔ کہيں وطن سے وفاداری کی گن گاتی لمبی زبانوں کی تکرار سامنے آئی تو کہيں عدليہ کی للکار۔ قومی سلامتی کیے تحفظ کيلئے اب کی بار "جعفر از دکن" نہيں بلکہ "اعجاز از امريکہ" در آمد ہوا۔ عدالت ميں "حسين" کی "حقاني" ملزم ٹھہری۔
قومی سلامتی محفوظ ہو گئی۔ عدليہ نے کميشن تشکيل ديا ليکن "امريکی اعجاز" نے اپنی سلامتی کو قومی سلامتی پہ ترجيح دی اور کميشن کے روبرو نہ آيا۔
ملزم تو ملزم ہی رہا، مجرم ثابت نہ ہوا اور "ملک بدر" ہو کر بين الاقوامی دانشگاہوں ميں معلم جا لگا اور بين الاقوامی سياست پر اپنی زہانت سے اثر انداز ہونے لگا۔ ليکن فلم ميں اس سنسنی خيز منظر کے اضافے سے پسِ پردہ حقائق پر سے جمہور کی نظر ہٹا دی اورناديدہ قوتوں کا کھيل قصہِ پارينہ ہوا
جمور نے اپنے حقِ حکمرانی سے اقتدار کے ايوانوں ميں چہرے بدلے اور اب کی بار جمہور کو سرل الميدا کی خبر کے روزن سے پسِ ديوار جھانکنے کا موقع ملا تو يہی قومی سلامتی پہ حملہ ٹھہرا۔
اب فلم ميں پے در پے نئے مناظر کا اضافہ کيا گيا۔
پرانے نعروں کی شراب کو نئے دھرنوں کی بوتل ميں سجا کر پيش کيا گيا اور عوام اس کے نشے ميں اس قدر مخمور ہوئے کہ چند "جمہوری بکروں" کی قربانی کو ملکی سلامتی کو ہر طرح کے شر سے محفوظ رکھنے کيلئے ضروری سمجھنے لگے۔
بے وقعت منتخب جمہوری نمائندوں نے چند بکروں کی قربانی پہ آمادگی کا اظہار کيا تو صدا بلند ہوئی کہ حضور بکرے کی ماں کب تک خير منائے گی۔ اب کی بار بکرے نہيں بلکہ بکروں کی ماں اور شايد اسکو منتخب کرنے والے پارليمان کی قربانی بھی ضروری ہے۔
عوام فلم کے ان سنسنی خيز مناظر ميں مصروف تھے کہ چند "فرزانے" پسِ ديوار جھانکنے کی کوشش کرنے لگے تو يکدم کچھ دانشوروں کی تحريریں جلوہ افروز ہوئی کہ پسِ ديوار جھانکنا جرمِ عظيم ہے۔
بس نوشتہِ ديوار پہ نظريں گاڑے رکھو اور نوشتہ يہ ہيکہ آئين، دستور اور جمہور کا حقِ حکمرانی يہ سب مغرب کی ايجادات ہيں اور ان ہی کی سر زمين کو موزوں ہيں۔