کچھ مشترک بھی رہنے دیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں ایک نیا ٹرینڈ عام ہوتا جا رہا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو منفرد بنانے کی خاطر یاکوئی تنازع پیدا کر کے اس سے لطف اٹھانے کے لئے اختلافی امور کو نمایاں کرنے لگے ہیں۔پہلے بھی ایسا ہوتا تھا، مگر اس کا تناسب بہت کم تھا۔ تاریخ پڑھانے والے ایک استاد نے تحریک پاکستان کے حوالے سے نکتہ تراشی کی کوشش کی، بعض ایسی باتیںکہہ ڈالیں جن کا مستند حوالہ موجود نہیں تھا۔ تاریخ کے شناور یہاں موجود ہیں، انہوں نے بڑی عمدگی سے مدلل جواب دے کر وہ بحث ہی ختم کر ڈالی۔ عمومی فضا ان دنوں معتدل تھی۔معاملات تب بگڑنے لگے جب الیکٹرانک میڈیا شباب پر آیا۔نیوز چینلزنے بہت سے نئے مباحث پیدا کئے اور دانستہ طور پر اختلاف کو ہوا دی۔ مقصد اس کے پیچھے یہی تھا کہ لڑائی جھگڑے ہوں اور لوگ دلچسپی سے پروگرام دیکھنے پر مجبور ہوجائیں، یوں ریٹنگ بڑھ جائے۔ ایسا ہوتا بھی رہا۔ ٹی وی چینلز کی تاریخ کی سب سے زیادہ ریٹنگ اداکارہ وینا ملک اور مفتی قوی کی باہمی لڑائی والے پروگرام کو ملی۔ یہ ریکارڈ ریٹنگ سمجھی جاتی ہے۔ وینا ملک ان دنوں بھارت میں متنازع شو”بگ باس“کر کے آئی تھیں۔ ایک پروگرام میں وہ مدعو تھیں، بحث شروع ہوئی، اینکر نے ہوشیاری یہ کی کہ کسی مستند عالم دین کے بجائے مفتی قوی جیسے تماشبین قسم کے مولوی کو بلا لیا۔ دونوں میں بحث ہوئی، وینا ملک پروفیشنل اداکارہ ہیں، انہوں نے لائیو پروگرام میں خوب ٹسوے بہائے اور ناظرین کی ہمدردی سمیٹی۔ اس کے بعدٹاک شوز میں لڑائیاں کرانے کی باقاعدہ سوچی سمجھی کوششیں بھی ہوتی رہیں۔ کسی پروگرام میں شرکا اگر اپنے اوپر کنٹرول کھو بیٹھتے اور تیز جملوں کا تبادلہ ہوتا تو پروڈیوسر حضرات کی باچھیں کھل جاتیں۔ اچھی ریٹنگ ان کا مقدر بن جاتی اور ان کا شو ہٹ ہوجاتا۔
ٹی وی کی دنیا میں تو ابھی تک وہی چل رہا ہے، مگر اب یہ طریقہ زیادہ پرکشش نہیں رہا۔سوشل میڈیا میں البتہ یہ نیا عنصر ہے۔ فیس بک پر یہ ٹرینڈ زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے اور زیادہ ریٹنگ حاصل کرنے کے خواہاں لوگ دھڑا دھڑ اختلافی پوسٹیں کر کے اپنی ریٹنگ بڑھا رہے ہیں۔ کسی بھی روز صبح اٹھ کر فیس بک کھولیں تو ایک نیا فتنہ، ایک نیا مباحثہ، نئی جنگ منتظر ہوگی۔ یار لوگ ریٹنگ کے جنوں میں ہر چیز کو تہہ وبالا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔برسوں پہلے ایک مزاح نگار کا مولانا نورانی کے حوالے سے فکاہیہ کالم پڑھا۔ اس میں ازراہ تفنن انہوں نے لکھا،” مولانا نورانی جب بھی کسی غیر ملکی دورے سے وطن واپس آتے ہیں تو اپنے سیکرٹری کو بلا کر پہلا سوال یہ پوچھتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی طرف سے آج کون سا بیان جاری کیا گیا ہے، فوری طور پر میری طرف سے جوابی بیان جاری کر دو۔ “خیر یہ تو مذاق کی بات تھی، وہی نورانی میاں ایم ایم اے میں جماعت اسلامی کے ساتھ کندھا ملا کر یوں بیٹھے کہ پھراستقامت سے ڈٹے رہے ، حتیٰ کہ ان کا وقت آپہنچا۔ بہرحال فیس بک کے جگادری بھی روزانہ یہی پوچھتے ہیں کہ یارو آج کل کن باتوں پر قومی اتفاق چل رہا ہے، کون سے ایسے نکات ہیں جن پر پاکستان کے لوگ متفق ہیں؟ پتہ چلتے ہی فوری طور پرایک اختلافی پوسٹ جڑ دیں گے، ان کے ہم خیال اذئیت پسند بھنبھناتے ہوئے وہاں اکٹھے ہوجائیں گے۔
کہتے ہیں کہ ایرانی بادشاہ نوشیرواں کا ایک عقلمند وزیر بزرجمہر تھا، بعض اسے بزرگ مہر بھی کہتے ہیں، ایک روایت یہ ہے کہ بزرجمہر یا بزرگ مہر کسی شخصیت کا نام نہیں بلکہ عہدہ تھا ۔ بہرحال اس سے اردو میں بزرجمہر کی طنزیہ ترکیب بنائی گئی، نام نہاد دانشوروں پر یہ فٹ کی جاتی ہے۔ فیس بک کے بزرجمہر بھی آئے روز نت نیا ایشو ڈھونڈتے رہتے ہیں۔کسی کو یہ اعتراض ہے کہ پاکستان چودہ اگست نہیں پندرہ اگست کو بنا تھا ، اس لئے ہم یوم آزادی پندرہ کے بجائے چودہ کو کیوں مناتے ہیں؟ ایسے سوالات اور اعتراضات کے جواب کے لئے ہمارے ذہن میں ایک ہی نام ڈاکٹر صفدر محمود کاآتا ہے، اللہ انہیں لمبی عمر اور صحت عطا فرمائے، انہوں نے ایسے ایسے دندان شکن قسم کے مضامین لکھے ہیں کہ پڑھنے والے کی مکمل تشفی ہوجاتی ہے۔ہمارے جیسا کم علم بھی تکنیکی نوعیت کی بحث میں جائے بغیر اتنا تو کہہ سکتا ہے کہ بھائی ستر سال سے پورے ملک کے لوگ اگر چودہ اگست کو یوم آزادی منا رہے ہیں تو پھر نیا شگوفہ چھوڑنے اور اس فضول بحث چھیڑنے کا کیا فائدہ ؟مشکل سے ہم لوگ کسی چیز پر متفق ہوتے ہیں، اگر ہوگئے تو پھر چلنے دیا جائے، کیا تردد ہے؟اس سال ایک صاحب نے تیئس مارچ کو اختلافی بنانے کی سوچی، شگوفہ چھوڑا کہ یہ تو یوم جمہوریہ تھا، اسے پھر سے یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جائے۔آنجناب سے پوچھا جائے کہ آپ اب تک سوئے پڑے تھے کہ اچانک ہی کسی زلزلے نے خواب غفلت سے جھنجھوڑ ڈالا اورا ٹھتے ہی کالم لکھ مارا۔ کئی عشروں سے تیئس مارچ یوم پاکستان کے طور پر منایا جا رہا ہے، اسے اب اچانک متنازع بنانے کی کیا تک ہے؟ یوم جمہوریہ منانے کا اتنا ہی شوق ہے تو ایک نئے دن کا انتخاب کرلیں۔ جس دن تہتر کا آئین منظور ہوا، اسے ہی یوم جمہوریہ کہنا شروع کر دیں، کیا مضائقہ ہے؟قومیں جن چیزوں پر متفق ہوں، ان کے ساتھ کوئی منفی علامت منسلک نہیں تو براہ کرم انہیں چلنے دیا جائے ۔اگر کسی نے اپنا زہر اگلنے کا تہیہ کر ہی لیا ہے تو وہ کسی اور ایشو کا انتخاب کر لے، قومی ایام اور متفق علیہ ایشوز کو خدارا معاف رکھیں۔بہت سے اہم معاملات ہیں جن کی طرف دانشوروں کو فوکس کرنا چاہیے۔ قانون کی حکمرانی، احتساب، میرٹ کی پابندی، عام آدمی کے دکھوں میںکمی لانا، یہ سب ایسے ایشوز ہیں جن پر بات ہونی چاہیے، ان کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں کھپا دی جائیں۔
اس حوالے سے دانشور، کالم نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے فیس بک پر ایک بہت عمدہ پوسٹ کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:” چار باتیں یاد رکھیں۔ اولین تو یہ کہ ملک تو بن چکا، آپ اس کے لیے کسی کو ہیرو مان لیجیے، ولن مان لیجیے، جدوجہد کا ثمر کہہ لیں یا سازش کا نتیجہ۔ جو بھی آپ کی رائے ہو لیکن پاکستان ایک اٹل حقیقت ہے۔ اب یا تو دھکا دینے والے کی تلاش شروع کر دیں یا پھر پانی میں کود جانے پر جو انعام ہاتھ لگا ہے اس کے بہتر سے بہتر استعمال پر غور و فکر کر لیں۔
دوسرا یہ کہ اس ملک میں مختلف، بعض اوقات متضاد آوازیں اٹھتی رہیں گی۔ جب ہم کہتے ہیں کہ یہ ملک ایک جمہوری جدوجہد سے وجود میں آیا تو یہ بھی یاد رکھیے کہ جمہوریت میں حزب اختلاف بھی موجود رہتی ہے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کو اکثریت ملی لیکن سو فیصد مسلم ووٹ انہیں نہیں ملا، پاکستان تو بن گیا لیکن وہ اقلیتی ووٹ بھی اس کا حصہ بن گیا جو اس کے قیام سے متفق نہیں تھا۔ ان میں سے کچھ ابھی تک "حزب اختلاف" میں ہی ہیں اور موقع بہ موقع اپنی پوزیشن کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔
تیسرا یہ کہ ہمارے ہاں مختلف نظریات کی فراوانی بھی موجود ہے اور پھر ان کے حاملین کے مابین کشاکش کا بازار بھی گرم رہتا ہے، مذہبی نقطہ نظر کے مختلف رنگوں سے لے کر سیکولر، لبرل، سوشلسٹ … تقریباً سب ہی یہاں موجود ہیں۔
چوتھا یہ کہ جب نمبر ایک سے لے کر تین تک سب کے سب اس پاکستان میں موجود ہیں اور انہیں یہی رہنا ہے تو کیوں نہ اپنے نظریوں،
تاریخ پر مختلف نقطہ ہائے نظر وغیرہ کو اپنی جگہ رکھتے ہوئے چند بنیادی باتوں پر سماجی اتفاق رائے کر لیں …. قانون کی عملداری، انصاف کی فراہمی، میرٹ کی پابندی اور مظلوم کی داد رسی …. بس ان باتوں پر بلا تفریق و امتیاز متفق ہو جائیں۔ مظلوم خواہ کوئی ہو، بھلے آپ کا نظریاتی و سیاسی مخالف ہی کیوں نا ہو لیکن میرٹ پر اس کا ساتھ دیا جائے گا۔
دیگر مناظرے بھلے جاری رکھیں لیکن ان باتوں پر کوئی دو رائے نہ ہو. اس سے کچھ بڑا تو نہیں ہوگا ….. صرف یہ کہ ملک کی فضا ذرا کم مکدر ہو جائے گی، باہمی تشکیک کے بجائے اعتماد کا ماحول پیدا ہو گا اور "ترقی و استحکام" صرف سیاسی بیانات تک محدود نہیں رہیں گے.
تیئس مارچ کو آپ یوم پاکستان سمجھتے ہیں یا یوم جمہوریہ، یہ آپ کا ذوق اور انتخاب ہے، لیکن اگر آپ کا نظریہ یا فکر آپ کو ایک ایسے ملک کی بہتری میں حصہ لینے سے روکے ہوئے ہے جس سے آپ اور آپ کے بچوں کا مستقبل وابستہ ہے، تو یا تو آپ کے نظریہ میں کہیں کچھ کھوٹ ہے یا پھر آپ کے دل میں۔“
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔