یہ سوال آسان لگتا ہے لیکن ہے نہیں۔ یہ روزمرہ کی گفتگو سے لے کر سیاست تک ڈسکس ہونے والا ایک اہم سوال ہے لیکن اس کا جواب کیسے دیکھا جائے؟ کیا کچھ ملک غریب اس لئے ہیں کہ کچھ ملک امیر ہیں؟ کیا امیر ممالک کے جغرافیے میں کوئی خاص بات ہے؟ کیا قدرتی وسائل ملک کی امارت کا تعین کرتے ہیں؟ کیا کہیں پر لوگ دوسروں سے زیادہ عقل رکھتے ہیں؟ کیا دنیا میں کچھ محدود دولت ہے اور یہ بس تقسیم کا مسئلہ ہے؟ اگر ان سوالوں کا جواب ہاں میں ہو تو اس کا مطلب یہ کہ قسمت طے ہو چکی ہے۔ اگر ہم امیر ہیں تو زبردست۔ اگر غریب ہیں تو ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں یا پھر کسی نجات دہندہ کا انتظار کریں جو ہماری حالت بدالے؟ کیا انقلاب بھی کبھی کوئی مسئلہ حل کرتے ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا ان سوالوں کے جواب سائنسی طریقے سے ڈھونڈے بھی جا سکتے ہیں؟ سائنسی طریقے سے اس طرح کے جواب ڈھونڈنے کے لئے ہمیں قدرتی تجربہ گاہ چاہیئے۔ یعنی ایسی مختلف جگہیں جہاں پر سیمپل سائز بڑا ہو، حالات میں مماثلت رہی ہو اور نتائج میں فرق ہو۔ ان سوالوں کے لئے ہمارے پاس قدرتی تجربہ گاہ امریکاز ہیں۔ ایک ہی وقت میں آباد ہونے والے، ایک ارب کی آبادی رکھنے والے اور 35 ممالک پر مشتمل برِ اعظم۔
یہاں پر کچھ ممالک بہت امیر ہیں، کچھ بہت غریب۔ کینیڈا کی فی کس آمدنی ال سلواڈور یا ایکواڈور سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ امریکہ کی آمدنی کولمبیا سے چار گنا زیادہ ہے۔ چلی اور پانامہ کی آمدنی بولیویا سے تین گنا ہے اور پیرو سے دگنی۔ آدھے لوگ امیر ممالک میں ہیں اور آدھے غریب ممالک میں۔ امریکہ اور میکسیکو کو جو لکیر تقسیم کرتی ہے، اس کے دونوں اطراف میں رہنے والوں کے معیارِ زندگی، آمدنی، صحت اور امن کی صورتحال میں بہت فرق ہے۔ دونوں اطراف کی آبادی بالکل ایک جیسی ہے اور قدرتی وسائل بھی۔ کیلیفورنیا، ٹیکساس اور نیو میکسیکو جو امریکہ کی خوشحال ریاستیں ہیں، انیسویں صدی کے شروع تک میکسیکو کا ہی حصہ ہوا کرتی تھیں۔ جو لوگ شمال کی طرف آئے، وہ معاشرے کے پروڈکٹو شہری ہیں۔ اس طرح قدرتی وسائل، لوگوں، نسلی یا مذہبی فرق کی وجہ سے ملک کی حالت پر فرق کا خیال غلط ہو جاتا ہے۔ تو پھر یہ فرق کیوں؟ اگر آپ کے ذہن میں جواب ہے کہ بری حکومت یا برے سیاستدان تو یہ جواب کچھ بھی نہں بتاتا۔ کیونکہ سوال یہ کہ آخر ایسا کیا ہے کہ میکسیکو اور اس کے جنوب کے ممالک کی قسمت مسلسل خراب رہی اور ان کے حصے میں اچھے سیاستدان یا حکومتیں نہیں آئیں جو شمال کے ممالک میں آئیں۔ آخر کیوں؟ بری قسمت کسی سوال کا جواب نہیں۔
اس کے لئے چار سو سال پہلے چلتے ہیں۔ یہ اکتوبر 1618 ہے اور یورپ سے دو بھائی امریکا کی طرف نکلے ہیں۔ قسمت کا کرنا ایسا ہوا کہ دونوں الگ کشتیوں پر سوال ہوئے، ایک میکسیکو پہنچ گیا اور دوسرا شمال کی طرف بوسٹن میں (جو آج کے امریکہ کا خوشحال ترین علاقہ ہے)۔ ان دونوں علاقوں میں بہت زیادہ فرق تھا۔ ان دونوں بھائیوں میں سے کونسا خوش ہو گا؟ اگر آپ کا جواب بوسٹن ہے تو شاید نظرثانی کی ضرورت پڑے۔ میکسیکو والا بھائی ایک ایسی جگہ پر پہنچا تھا جہاں نئی اور شاندار عمارات تھیں۔ ایسا شہر جو کسی بھی یورپی شہر سے کم نہ تھا۔ ہرے بھرے کھیت تھے۔ بڑے شہر، پرانی تہذیبیں۔ بوسٹن والا بھائی ایک سرد اور غیرآباد جگہ پر پہنچا تھا جہاں کسی قسم کا کوئی انفراسٹرکچر نہیں تھا۔ زندہ رہنا ایک مشکل چیلنج تھا۔ بس بھوک اور ٹھنڈ۔
امریکہ کولمبس نے دریافت کیا تو ہسپانوی سلطنت نے شمالی امریکہ کو اس لئے چھوڑ دیا تھا کہ وہاں پر کچھ تھا ہی نہں۔ انہوں نے جنوبی امریکہ میں کالونیاں بنائی تھیں۔ سونا چاندی کی کانیں، اچھی زمین اور سستی لیبر وہیں پر تھی۔ برطانیہ نے شمالی امریکہ کو اس لئے چنا تھا کہ وہ بچی کچھی جگہ رہ گئی تھی۔ انیسویں صدی کے اختتام پر دنیا کے امیر ترین ملک کا تعلق جنوبی امریکہ سے تھا۔
شمالی امریکہ میں جانے والوں کو صرف زندہ رہنے کے لئے ہی سخت محنت کرنا پڑتی تھی۔ جنوبی امریکہ مختلف تھا۔ قدرتی دولت، اچھا موسم۔ زراعت آسان اور سستی مقامی لیبر۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جو لوگ یہاں پہنچے، ان کو کام نہیں کرنا پڑتا تھا۔ ساتھ ہی پرانے یورپ کا ہائیریرکی والا نظام بھی یہاں پہنچا تھا جس میں مرکزی کنٹرول ریاست کے پاس تھا اور اس سے کم لوگ فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ تجارتی مونوپولی، زمین کی تقسیم، کان کنی کی اجازت وغیرہ سب کچھ مرکزی کنٹرول میں تھا۔ برِ اعظم کے دونوں اطراف میں آہستہ آہستہ بننے والا کلچر مختلف تھا۔ ایک طرف محنت کا اور خود خطرہ مول لے کر کاروبار کرنے کا۔ دوسری طرف زیادہ ضروری چیز اقتدار اور کنٹرول میں ہونے والوں سے کنکشن تھے۔ انوسٹ منٹ کر کے خطرہ کیوں مول لیا جائے جب آسان طریقہ موجود ہے۔ اس طرح جنوبی امریکہ میں ایک کلچر بن گیا جو کہ سپین سے آزادی کے بعد بھی کلچر نہیں بدلا اور آج بھی لاطینی امریکہ کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ بیوروکریسی، مضبوط مرکزی حکومت، محدود ایلیٹ کلاس جس کی امارت حکومت سے تعلقات کی بنیاد پر ہے اور کسی کے لئے غربت سے امارت کی طرف جانے کی سیڑھی نہیں۔ دوسری طرف شمالی امریکہ کا راستہ فرق رہا۔ یہاں پر وسائل اور سستی لیبر نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کا سسٹم نہ بنا۔ سوشل کلچر اور ادارے بننے کا راستہ فرق رہا۔ فزیکل محنت کی عزت تھی۔ اس کے پسماندہ ہونے کا مطلب یہ کہ اس کے پاس سیاسی اور معاشی آزادی تھی۔ تاجِ برطانیہ نے اس پر شروع میں دھیان بھی نہ دیا۔ ان کی سلطنت کے دوسرے حصے زیادہ اہم تھے۔ اس معاشی اور سیاسی لحاظ سے آزاد خطے نے جب ترقی کرنا شروع کی تو پھر برطانیہ کی توجہ اس طرف ہوئی۔ امریکہ کی جنگِ آزادی، آزادی لینے کی نہیں بلکہ پہلے سے ملی آزادی برقرار رکھنے کی جنگ تھی۔ ان کا کلچر بھی آزادی کے بعد برقرار رہا۔ آج بھی کاروبار شروع کرنا، رِسک لینا، محنت کرنا اور آزادی یہاں کے کلچر کا حصہ چلا آ رہا ہے۔ جن ریاستوں میں غلامی کی روایت رہی، وہ یہاں پر بھی دوسروں سے پیچھے رہ گئیں۔
اگر کلچر ایسا ہو جہاں پر رِسک لئے جا سکیں، افراد خود محنت کے عادی ہوں، کام کرنے کو اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہو اور محنت کا پھل ملتا ہو تو وہ کسی بھی جغرافیائی ایڈواینٹیج سے کہیں بہتر ہے۔ جب اس کو مضبوط حکومت، بیوروکریسی، قرابت داری یا کسی اور نام پر روکا جاتا ہے تو اس کے نتائج اچھے نہیں نکلتے۔ قدرتی وسائل مدد کر سکتے ہیں لیکن ترقی کے لئے کافی نہیں۔
تو پھر کیا ممالک اپنی تاریخ کے قیدی ہیں؟ بالکل نہیں۔ جنوبی امریکہ کے دو ممالک چلی اور پانامہ پچھلی نے کچھ دہائیوں میں جس طرح ترقی کی ہے، وہ بتاتا ہے جس طرح ملک اپنے جغرافیہ کے قیدی نہیں، ویسے ہی تاریخ کی زنجیریں بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔
نوٹ نمبر ایک: اگر کسی کا خیال ہے کہ امریکہ یا کینیڈا کی ترقی کے پیچھے کوئی سازش ہے تو پھر بھی سوال اپنی جگہ پر رہتا ہے کہ یہ سازش میکسیکو یا ارجنٹینا کیوں نہیں کر سکے۔ وہاں کے لوگوں میں بھی عقل کی کمی نہیں اور ایک وقت میں یہ اپنے شمال میں ممالک سے زیادہ خوشحال ہوا کرتے تھے۔
نوٹ نمبر دو: اس طرح کے سوالات کا صرف ایک جواب نہیں ہوتا۔ ادارے اور کلچر سب سے اہم فیکٹر ہے، لیکن واحد نہیں۔
ساتھ لگا گراف دنیا میں جی ڈی پی فی کس کا ہے۔ امریکاز کی تجربہ گاہ سے نکلے نتائج اس میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ
اس کو تفصیل میں جاننے کے لئے یہ کتاب
Why Nations Fail by Daron Acemoglu and James Robinson
اس کی معلومات اس ویڈیو سے