کچھ مجھ سے کہا ہوتا، کچھ مجھ سے سنا ہوتا۔
تفصیل میں جائے بغیر بالترتیب کچھ باتیں:
(1) میں ہر بچے کے اس حق کا غیر مشروط حامی ہوں کہ اُسے تعلیم اس کی مادری زبان میں دی جائے۔ میں نے کبھی نہیں کہا کہ کس زبان کو قومی زبان ہونا چاہیے۔ ہاں میں تدریس کی طبقاتی تقسیم کے خلاف ہوں۔ میں ہر مادری زبان کے ساتھ انگریزی کو ابتدا سے شروع کرنے کے حق میں ہوں تا کہ یہ شرف صرف اشرافیہ کے پاس نہ رہے۔ میرا رونا تو یہ ہے کہ میرے پاس خود اپنی زبان نہہیں۔ زبان کا ہونا یہ نہیں ہے کہ میں اپنے گھر میں مادری زبان بولو سکوں۔ اس سے بڑھ کر ہے کہ اُسے معاشرتی شرف بھی حاصل ہو۔ یقیناً یہاں معاشرتی شرف میں جانے کا موقع نہیں۔
(2) ایم کیو ایم کے مامے ہونے کے دعوے دار بہت ہیں لیکن میں نے صرف وہ بات کی ہے جو میں خود دیکھی۔ میرے لیے نہ تو کسی ایجنسی یا فوجی کا بیان کل واحد اور کُل حقیقت تھا نہ آج ہے۔ میں تو خود اپنے بیان کو بھی واحد حقیقت کے طور نہ تو پیش کرتا ہوں اور نہ سمجھتا ہوں۔
(3) پاکستان کی قومی سیاست میں ایم کیو ایم ایک چھوٹا علاقائی سیاسی گروپ تھا جس نے لسانی شناخت پر انحصار کیا۔ جب اس نے قوت حاصل کی تو فوج نے اُسے استعمال کرنے کے لیے فسطائیت کی طرف دھکیلا۔ یوں بھی کراچی اور حیدرآباد میں اردو بولنے والوں کی اکثریت اسٹیبلشمنٹ کی ہی حامی رہی ہے۔ ان کے منتخب کردہ اولین لوگ بھی یہی سیاست کرتے تھے۔ جماعت اسلامی اور جے یو پی۔ مجھے ایم کیو ایم کی اکثر پالیسیوں سے سو فیصد اختلاف ہے اور میں نے یہ اختلاف کیا بھی ہے۔ لیکن ایم کیوں کی کچھ نعروں سے مجھے اتفاق بھی ہے۔ لیکن ایم کیو ایم کے حامیوں یا کارکنوں کو لاقانونی طور پر ختم کرنے کی اور ان پر ان کے خاندانوں پر تشدد کرنے کی میں نے پہلے بھی مخالفت کی ہے اور اب بھی کرتا ہوں اور دنیا میں کہیں بھی کسی فرد کے خلاف یہ طریقہ روا رکھا جائے گا تو میں اس سے اختلاف کروں گا۔ لغاری صاحب سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے کہ مجھے سیاسی دسترخوانوں سے شکم سیری کی کتنی طمع رہی ہے۔
(4) بھٹو صاحب کی کامیابی سے نچلے اور کچلے ہوئے طبقے کو جو سیاسی شعور اور اپنے ہونے کا احساس ملا وہ اس خطے میں تاریخ کا ایک اہم سنگِ میل ہے اور شاید اسی وجہ سے ہماری سیاسی جماعتوں کی اکثریت بلدیاتی نظام اور اقتدار کی بلدیاتی سطح پر منتقلی کی مخالفت کرتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کے بننے میں اور وہاں فوج کشی میں بھٹو صاحب بھی شامل تھے۔ اس اقدام کی وجہ سے پاکستان جمہوریت کے امکان سے دور ہوا۔ اس جنگ کے بینیفشری کون کون تھے؟ لغاری صاحب یاد کریں ذرا، مجھے تو ضرور حافظے کی خرابی کا مرض لاحق ہو سکتا ہے۔ میرے عزیز! میں کل بھی فوج کشیوں کے خلاف تھا، آج بھی ہوں۔ یہی بات میں چیخ میں کرنے کی کوشش کی ہے کہ اپنے ہی ملک کے لوگوں کے ساتھ مفتبحوں کا سلوک بل کہ حریفوں اور دشمنوں کا سلوک نہیں ہونا چاہیے، اور اختلاف کرنے والوں کے بارے میں فوراً دشمن، غدار، قابل دار ہونے کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن سیاسی جماعتیں اقتدار میں آ کر فسطائیت کے راستے پر چل نکلتی ہیں کبھی کم اور کبھی زیادہ۔ شاید میرا یہ ذہنی فرما ہے جس کی بنا پر میں اب تک کسی سیاسی جماعت کا مکمل اور غیر مشروط حامی نہیں بن سکا۔
(5) برادرم! اگر میرے لیے یہ کہنے کا حق برقرار ہے تو، آپ اور بہت سے دوست جن کی آرا یہاں موجود ہیں مختلف مواقع پر میرے قریب رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ میں بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں ان کی کئی پالیسیوں کا مخالف رہا اور پورے دور رہا اور ان سے میری محبت کی ابتدا 4 جولائی 1977سے ہوئی اور یہ تناظر اب تک برقرار ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے تعلق بھی اسی تناظر میں ہے۔ اس میں پیپلز پارٹی کی قیادتیں اپنا قبلہ تبدیل کرتی رہیں لیکن مجھے اس سے کوئی علاقہ نہیں۔
میں نے اب تک تو کسی فوجی حکومت کے لیے یہ نہیں لکھا کہ اس نے اقتدار میں آ کر ملک کو بچایا یا شاندار کارنامہ انجام دیا ہے اور نہ ہی اب تک میرے ذہن میں یہ خیال آیا ہے۔ آیندہ بھی اس کا امکان نہیں۔ اسی طرح میں ہر ماورائے قانون اقدام کے خلاف ہوں۔
لیکن برادرم لغاری صاحب! میں سیاسی کارکن نہیں۔ میں زندگی میں اپنے لیے ایک ادیب ہونے کا خواب دیکھا تھا۔ میرے حصے کے روزگار کے لیے ذریعہ صحافت بنی۔ میں نے اپنی حد تک اس میں بھی اپنی سی کوشش کی کہ مجھے نوائے وقت جیسے ادارے میں رہتے ہوئے اس کی پالیسیوں کی ہمنوائی نہ کرنی پڑے۔ اُس کے لیے میں کیا کیا کیا اسے تو آپ خوب جانتے ہیں۔ میرے تو دوست بھی صرف کچھ صحافی اور ادیب ہیں۔ اور وہی میری ترجیح بھی ہیں۔ یہ سب لکھنے کی وجہ بھی یہی حلقۂ احباب ہے۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ ضرور مجھے اپنے اظہار پر درکار دسترس نہیں ورنہ میرے بارے میں اس نوع کی ’خوش فہمیاں‘ نہ پیدا ہوتیں۔ آپ نے مجھے ایک نوٹ کے قابل سمجھا یہ بھی تو آپ کی عنایت ہے۔ اب اگر آپ مجھے قابلِ تعزیر سمجھیں تو بھی مجھے وہی شکوہ ہو گا جو دار پر ٹنگے ایک شخص کو پتھر پھینکنے والوں کے درمیان پھول پھینکنے والے سے ہوا تھا۔
ایک آخری بات: میں حرفِ آخر نہیں ہوں۔ میں اب تک کچھ سوچتا ہوں سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مجھ سے یقیناً غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ لیکن میں نابینا پیروکار نہ تو ہوں نہ بننا چاہتا ہوں۔
“