جن دنوں پہچان دولت سے نہیں‘ وضعداری اور رکھ رکھائو سے ہوتی تھی‘ کسی کو دعوت دیتے تھے تو تشریف آوری کے لیے باقاعدہ سواری بھیجی جاتی تھی۔ واپسی کے لیے بھی سواری پیش کی جاتی تھی اور خدام پاپیادہ ہمراہ جاتے تھے۔ سلاطین دہلی کے زمانے میں عباسی خلیفہ کے ایک عزیز دہلی تشریف لائے تو بادشاہِ وقت کئی کوس شہر سے باہر استقبال کے لیے گیا۔ ہمارے معزز مہمان چین کے صدر ہماری سرزمین پر تشریف لائے۔ چشمِ ما روشن دلِ ما شاد۔ علم حاصل کرنے کے لیے چین جانے کی تلقین فرمائی گئی تھی۔ چین کے صدر کی تشریف آوری پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ علم سکھانے والے خود آ گئے۔ گویا کنواں چل کر پیاسے کے پاس آ گیا۔
مہمان نوازی کی قدیم روایت آج بھی زندہ ہوتی تو ہمیں اپنا جہاز بھیجنا ہوتا۔ اس میں بھی قدرت کی حکمت ہے کہ نہیں بھیجنا پڑا۔ ورنہ ہماری ’’پابندیٔ وقت‘‘ کا مہمانِ گرامی بھی شکار ہو جاتے۔
دوست ملک چین کے ہم پر بہت احسانات ہیں۔ مشکل وقت میں ہمیشہ کام آیا۔ دفاع ہو یا معیشت‘ بین الاقوامی سیاست ہو یا علاقائی مسائل‘ چین نے ہر موقع پر اپنا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈالا۔ تھنڈر جہاز ہم نے چین کے اشتراک سے بنائے۔ کارخانے لگانے میں اس کا تعاون شامل۔ اب توانائی کے میدان میں وہ ہمیں مشکل سے نکالنے کے لیے مدد کر رہا ہے۔ مگر ایک اور بھی احسان ہے جو چین نے اپنا صدر بھیج کر ہم پر کیا ہے۔
جس دن مہمانِ گرامی نے آنا تھا‘ اس سے ایک دن پہلے شام کے وقت مری روڈ کے اُس حصے پر جانا ہوا جو دارالحکومت میں واقع ہے۔ راول چوک اور سیرینا ہوٹل کے درمیانی علاقے میں شاہراہ پر کرینیں‘ بلڈوزر اور دوسری مشینیں کھڑی تھیں جن کے درست نام بھی لکھنے والے کو نہیں آتے۔ معلوم ہوا کہ راتوں رات اس حصے کو‘ جو ایک عرصہ سے شکستہ اور خستہ تھا‘ تندرست کیا جا رہا ہے۔ دوست ملک کا احسان دیکھیے کہ جو کام ایک عرصہ سے نہیں ہو رہا تھا‘ ٹیکس دینے والے ٹیکس دیے جا رہے تھے‘ کاغذوں پر تجویزیں جنم لے رہی تھیں‘ بجٹ پاس ہو کر‘ رقوم غائب ہو رہی تھیں۔ ایک بہت بڑا قومی ہیکل‘ عظیم الجثہ ادارہ‘ ترقیات کے نام پر دارالحکومت کے باشندوں کی گردنوں پر سواری کر رہا ہے‘ مگر شاہراہ کی مرمت تھی کہ نہیں ہو رہی تھی۔ چین کے صدر تشریف لائے تو چند گھنٹوں میں کام ہو گیا۔
غالباً ایوب خا ن کا زمانہ تھا۔ خیبر پختونخوا کو اُس زمانے میں صوبہ سرحد کہا جاتا تھا۔ امریکی صدر دورے پر آیا۔ اُس نے علاقے کے خوانین اور عمائدین سے بھی ملاقات کی۔ ایک قبائلی ملک نے اُسے کہا کہ میرے بیٹے کو تحصیل دار لگوا جائو۔ اس نے پوچھا کہ بزرگ کیا ارشاد فرما رہے ہیں۔ قصہ کوتاہ جیسا کہ روایت بیان کی جاتی ہے‘ اس کے عزیز کی تحصیل دار کے طور پر تقرری کر دی گئی۔ سنا ہے کہ اس کا نام اُس امریکی صدر کے حوالے ہی سے لیا جاتا تھا۔ چنانچہ غیر ملکی مہمانوں کے حوالے سے کام کرانے کی روایت ہمارے ہاں تاریخی جڑیں رکھتی ہے۔ چین کے صدر دوبارہ تشریف لائیں تو ہم پر کچھ اور احسانات کر جائیں۔ مثلاً وہ یہ فرمائش کریں کہ بجلی اور گیس کے محکموں کا بل بھیجنے کا طریقہ ملاحظہ فرمانا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان اداروں کی وہ دھاندلی اس طرح ختم ہو جائے جو وہ ایک عرصہ سے صارفین سے روا رکھی جا رہی ہے۔ یعنی ایک ماہ بل پندرہ ہزار روپے آتا ہے‘ دوسرے ماہ ایک ہزار‘ تیسرے ماہ ڈیڑھ ہزار اور چوتھے ماہ تیس ہزار؟ اور تو اور اِس ’’شرافت‘‘ سے جان چھڑانے کی کوئی صورت نہیں نظر آتی! اسی طرح چین کے صدر اگر اس خواہش کا اظہار فرمائیں کہ دارالحکومت کی رسوائے زمانہ ایکسپریس وے دو ماہ کے لیے لاہور منتقل کردی جائے تو دارالحکومت کے شہریوں پر ان کا احسانِ عظیم ہوگا۔ اس شاہراہ پر‘ جو ٹریفک کے لحاظ سے جڑواں شہروں میں مصروف ترین ہے‘ عوام گھنٹوں نہیں‘ پہروں خوار ہوتے ہیں۔ دو ماہ کے لیے یہ شاہراہ لاہور کا حصہ بنا دی جائے تو اس کے دن پھر جائیں گے۔ اس پر نصف درجن انڈرپاس بن جائیں گے۔ لینوں کی تعداد ایک سے دس ہو جائے گی۔ سگنل ہٹا دیے جائیں گے۔ کناروں پر درخت لگا دیے جائیں گے۔ جب یہ شاہراہ اتنی ہی ’’مہذب‘‘ ہو جائے جتنی خوش بخت شہر ’لاہور‘ کی باقی سڑکیں ہیں‘ تو اسے واپس دارالحکومت میں لا بچھایا جائے۔ اس طرح مملکت خداداد کے شہری اُن مختلف اذیتوں کے اعتبار سے جو وہ سہہ رہے ہیں‘ غیر ملکی مہمانوں سے کرائی جانے والی دیگر کرم فرمائیوں کی فہرست بنا سکتے ہیں۔
پس نوشت: قارئین میں سے اگر کسی نے خیبر پختونخوا‘ سندھ اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ دیکھے ہیں تو ازراہ کرم اطلاع دیں۔ یہ تینوں معزز حضرات اہم مواقع پر گم ہو جاتے ہیں‘ اگر یہ خود ان سطور کو پڑھیں تو اپنے ہونے کا پتہ دیں۔ ان کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی انتہا یہ ہے کہ دوست ملک چین کے صدر تشریف لائے تو یہ ایئرپورٹ پر نظر آئے نہ دیگر تقریبات میں۔ دوسری طرف پنجاب کے وزیراعلیٰ کی پابندیٔ وقت‘ چستی‘ چابکدستی اور ذمہ دارانہ رویے کی بلندی عروج پر تھی۔ وہ ایئرپورٹ پر وفاقی وزرا کی صف میں ایستادہ تھے‘ اور باقی مواقع پر بھی نمایاں نظر آ رہے تھے۔ بلوچستان کے چیف منسٹر ایئرپورٹ کی تقریبات میں تو نہیں تھے لیکن ایک آدھ عشایئے میں انہیں دیکھا گیا۔ اب وزیراعظم کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کو دعوت دیں اور باقی کو درخوراعتنا نہ سمجھیں۔ خیر سے تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں۔ تجربہ کاری عروج پر ہے۔ مبتدی تو وہ ہیں نہیں۔ ہو نہ ہو‘ قصور ان وزرائے اعلیٰ کا ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ خیبرپختونخوا‘ سندھ اور گلگت بلتستان کے عوام میں دوست ملک کے حوالے سے غلط فہمی بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ ان پر لازم ہے کہ اس ضمن میں قوم سے اپنے غیرذمہ دارانہ رویے کی معافی مانگیں!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔