’’لال لال لہرائے گا‘‘ کے نعروں سے پاکستان کے شہر کیا گونجے کہ فرسودہ روایتوں کے پنڈت ایسے بھڑکے جیسے کسی بِھڑ نے کاٹ لیا ہو۔ ان بیباک نوجوانوں کو اس طرح کی نعرے بازی سے فیض میلے کے منتظمین تک نالاں ہوئے، لیکن جب سوشل میڈیا پہ ’’لال لال لہرائے گا‘‘ کے نعرے ڈھول کی تھاپ پہ وائرل ہوئے تو ملک بھر میں طلبا اور نوجوانوں کو ایسے لگا کہ کسی نے اُن کے دلوں میں چھپے انقلابی جذبات کو اچانک چابک لگا دی ہو۔ شاید ان توتلی نوخرام روحوں کہ جن کی قسمت میں ناز بالیدگی نہیں ہے کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کے نعروں کو اتنی پذیرائی ملے گی۔ بڑھتی مہنگائی، پھیلتی بیروزگاری، چوپٹ تبدیلی، ووٹ کو عزت دو کی آبروریزی اور بھٹو کی یادیں محو ہونے سے سیاسی و نظری خلا پیدا ہوا تو درسگاہوں میں اُڑتی خاک سے نالاں نوجوانوں کو بس ایک بہانہ چاہیے تھا اور وہ اپنی بے طاقتی کو ختم کرنے کے لیے طلبا یونینز کی بحالی کا نعرہ لے کر میدان میں کود پڑے۔ ان کے ساتھ مزدور، انواع و اقسام کے دانشور، ادیب اور مجھ جیسے ریٹائرڈ لیفٹسٹ بھی شامل ہو گئے۔ سرما کے پت جھڑ میں سُرخ پرچموں کی بہار نے پھر سے انقلابی یادیں تازہ کیں اور میری آنکھوں کے سامنے 1968 کے عظیم نوجوان اُبھار کے مناظر گھومنے لگے، جن کے ہاتھوں فیلڈ مارشل ایوب خان کی طبقاتی و علاقائی تفریق کی ترقی کا ماڈل زمین بوس ہوا۔ اُس وقت لاکھوں طلبا، مزدور اور شہری و دیہی غربا قریہ قریہ میدان میں اُترے تھے اور ایک عوامی انقلاب بپا ہو چلا تھا۔ کسی کو اُس وقت بھی خبر نہیں تھی کہ راولپنڈی کے پولی ٹیکنیکل کالج کے ایک طالب علم کی شہادت پر عوام کا ایسا انقلابی لاوا پھٹ پڑے گا۔ اسی طرح نقیب اللہ محسود اور مشعال کے قاتلوں کو خبر نہ تھی کہ اُن کے خون کا حساب لینے اور شہری حقوق کی بازیابی کے لیے دور دراز کے قبائل کے نوجوان گیاہستان میں چنگاری ثابت ہوں گے۔
سٹوڈنٹس مارچ میں ابھی تو شہروں کے متوسط طبقوں کے نوجوان نکلے ہیں، جب غریبوں اور مدرسوں کے بے یارومددگار طالبان کتاب و قلم کا تقاضا کرنے میدان میں نکلیں گے تو پھر دیکھیے لال لال کیسے لہرائے گا۔ بحث ایشیا سرخ ہے یا سبز کی نہیں، نہ ہی صوفیا کے انسان دوست بسنتی رنگ اور سیفرون کے تنگ نظر ہندتوائی رنگ کی ہے۔ یہ تو محض علامتیں ہیں، افکار کی۔ اصل لڑائی وہی ہے جو شکاگو کے مزدوروں، چین کے کسانوں، روس کے محنت کشوں اور ویت نام کے حریت پسندوں اور سامراجیوں اور استحصالیوں کے مابین ہوئی تھی۔ بھلے سوویت یونین ٹوٹ گیا اور سوشلسٹ چین گلوبلائزیشن کا انجن بن گیا۔ جب تک سماج طبقات میں تقسیم ہے، طبقاتی جدوجہد ہوتی رہے گی۔ یہ بھی طبقاتی تعصب ہے کہ امرا اپنی لوٹ مار اور طبقاتی مفادات کے لیے ہر طرح کے مقدس نظریات، قوانین اور اداروں کو بے رحمی اور چالاکی سے استعمال کریں تو جائز اور جب افتادگانِ خاک ظلم و استحصال کے خلاف آواز اُٹھائیں تو وہ دین و دُنیا کے دشمن قرار دیے جائیں۔ حیرانگی تب ہوتی ہے جب متوسط طبقے کے دانشور سرمایہ داروں اور سامراجیوں کے نظریاتی دفاع کے لیے میدان میں کود پڑتے ہیں۔ اب اس کا کیا کیجیے کہ دُنیا کے مٹھی بھر بڑے سرمایہ دار دُنیا کی 80 فیصد دولت کے مالک ہو چکے لیکن زائد قدر پہ پلنے والے سیٹھوں کے ھاتھوں نہ انسانئیت بچی نہ کرہ ارض محفوظ رھا. امیر غریب کی طبقاتی خلیج جب اپنی انتہائوں کو پہنچے گی تو لال لال تو لہرائے گا، بھلے آپ سوشلزم کو کیسے ہی ناکام قرار دیئے جانے کی بھڑاس نکالتے رہیں۔ لیکن سرمادیہ دارانہ نظام یا نیولبرل اکنامکس کے داعی بتائیں تو کہ دنیا اور بنی نوع انسان کو سوائے زلت و افلاس کے اس نے دیا کیا ہے۔ یہ اب سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں پوری انسانیت کے استحصال اور کرئہ ارض کی تباہ کُن آلودگی سے نجات کی عالمی جدوجہد بن گئی ہے۔ اب لوگ اِک کھیت نہیں، اِک دیس نہیں، پوری دُنیا مانگیں گے۔
چین اپنا یار ہے اور اس پر جانثار ہونے والوں کو معلوم نہیں کہ ایشا سُرخ ہے کا نعرہ چیئرمین مائوزے تنگ نے لگایا تھا۔ اور اسوقت ہم نوجوان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کہ مزدوروں کسانوں کا انقلاب کرنے چل نکلے تھے۔اب چینی خصوصیات کے سوشلزم پہ ہمارےمارکس وادی دوست کیسے ہی نظری سوالات اُٹھایا کریں اور سرمایہ داری نظریات کے ڈھنڈورچی کیسی ہی بغلیں بجائیں۔ مارکس ازم سے چینی کمیونسٹ پارٹی کی جیسی کیسی وابستگی کیا کیا رنگ دکھاتی ہے، اس پر آپ کے کسی فتوے سے کیا فرق پڑنے والا ہے۔ چینی جانیں اور چینی سوشلزم والے۔ ھم پہلے ہی روسی چینی نظریاتی مناقشے کی پیدا کردہ تفریق کے ہاتھوں اپنی انقلابی تحریکوں کی بڑی تباہی بھگت چکے ہیں۔ بالشویزم اور روسی ماڈل پہ جو اعتراضات ہوئے (جس میں خاص طور پر پرولتاریہ کی آمریت یا یوں کہیے کہ نوکر شاہی ریاستی سوشلزم شامل ہیں) اور اس سے نتائج اخذ کرتے کرتے اور اُس کی تنقید پر یوروکمیونزم کے متبادل میں پناہ لینے کے باوجود نظری بحران ختم نہ ہوا۔ جدلیاتی مادئیت کے فلسفہ کی داروگیر سے خود سوشلزم بھی کیسے ماورا ہو سکتا تھا۔ مذہبی عقیدہ پرستوں اور عینیت پسندوں کی طرح کسی آخری سائینسی سچائی کا دعویٰ کرنے والوں کو بھی ’اک تغیر ہے زمانے کو‘ کی لپیٹ نے آ لیا۔ بھلا چوتھی پیڑھی کے صنعتی و اطلاعاتی و مصنوعی ذہانت کے زمانے میں انیسویں صدی کی برطانوی سیاسی معیشت کے سماجی خاکے پہ تو سماجی تجزیہ نہیں رُک جانا تھا اور موجودہ زمانے کی سماجی ساخت کے مارکسی تجزیئے بنا طبقاتی جدوجہد کا شعوری سلسلہ آگے کیسے بڑھ سکتا ہے۔ اوپر سے انیسویں اور بیسویں صدی کے پہلے نصف تک کے انقلابوں اور اُنکے مخصوص نظریاتی مباحث اور حکمتِ عملیوں کے رٹے رٹائے فارمولوں سے بالکل نئی نئی تحریکوں اور فکری باریکیوں کا احاطہ کیسے کیا جا سکتا تھا۔ بس ہمارے ساتھی مارکس وادی بھول گئے کی وہ اور اُنکی پارٹیاں بھی جدلی مادئیت کی بے رحم کانٹ چھانٹ ماورا نہیں اور وہ تاریخی مادئیت کی بھینٹ چڑھ گئے اور فرقہ وارانہ نوآبادیوں میں گھٹ کر رہ گئے۔ رہے ہمارے ایشیا سبز والے تو اُن سے کوئی پوچھے جب آپ سامراج کے آلۂ کار بنے تو افغانستان کا کیا حشر ہوا اور جب آپ پہ سامراجی آفت ٹوٹی تو پھر عراق، شام اور لیبیا کا کیا خوفناک حشر ہوا۔ سوائے ایک دوسرے کی تکفیر اور فرقہ وارانہ غارت گری کے۔
یہ تاریخی مضحکہ ہے کہ اب اُمرا کی جماعتیں اور طبقاتی جدوجہد کو کفر قرار دینے والے مذہبی پیشوا بھی غریب غریب کی مالا جپتے ہیں۔ آج کل تو فیشن ہو گیا ہے کہ ہر طرح کا سیاسی اُٹھائی گیر بھی سب کے ساتھ یکساں سلوک، سب کے لیے ایک قانون کی منافقانہ گردان میں اپنے اپنے حریفوں کو پچھاڑنے کے چکر میں ہے، لیکن طبقاتی معاشی و سماجی نظام اور طبقاتی قانون و ریاست کو بدلے بنا۔ اور اپنے اپنے استحصال کے کاروبار چھوڑے بنا۔ ابھی یہ کافی نہیں تھا کہ ریاست و حکومت بجائے اس کے کہ چوتھے صنعتی و اطلاعاتی و تکنیکی انقلاب کی جانب توجہ دیتی، یہ چل پڑی ہے پانچویں پیڑھی کی عجیب الخلقت جنگ (Hybrid Warfare)
کی طرف۔ ایک سلامتی کی ریاست کو خطرہ دہشت گردوں اور مذہبی انتہاپسندوں سے نہیں، جو کہ ابھی بھی سروں پہ منڈلا رہا ہے۔ اُسے فکر لاحق ہے تو انسانی، شہری، سماجی اور طبقاتی حقوق کی فریاد کرنے والوں سے۔ جعلی سول حکمرانی کے دور میں ایک فسطائی لہر آ رہی ہے جو سوچنے والے ناقدین، عوامی حقوق کی آواز اُٹھانے والوں اور لال لال کے نعرے لگانے والوں کو اپنی لپیٹ میں لینے کے جتن کر رہی ہے۔ اب اگر طلبا اپنے بنیادی حقوق بشمول، اعلیٰ تعلیم، خواندگی، روزگار اور انجمن سازی مانگ رہے ہیں تو اس میں کیا فتنہ گری ہے سوائے سازشی نظریہ دانوں کے فکری جنجال کے؟ اگر موجودہ اُجرتوں پہ اُجرتی مزدور دو وقت کی روٹی سے محروم ہو کر روٹی روزگار مانگتے ہیں تو وہ صرف اپنے خالی پیٹوں کی بھوک مٹانے کی التجا کر رہے ہیں؟ اگر دانشور اور صحافی حق اظہار مانگتے ہیں تو وہ کیسے سلامتی کے لیے خطرہ ہو گئے؟ اسی طرح غریب کسان فاقہ کشی کے ہاتهوں مرنے کی دہائی دے رہے ہیں تو وہ کیسے کسی غیرملک کے ایجنٹ ہو گئے؟ ہمارے محروم علاقوں کے لوگ اور مظلوم قومئیتیں اگر پاکستان میں مساوی شرکت کی آواز اٹهاتی ہیں، تو وہ کیسے قومی سلامتی کے لیے ناسور ہوگئیں؟ یا پهر مذہبی اقلیتیں جو بهارت کے مسلمانوں کی طرح مساوی شہری بنائے جانے کا تقاضا کرتی ہیں تو وہ کیسے غدار ہو گئیں؟
عورتوں کا تو ذکر ہی کیا، غیرت کے نام پر قتل کیے جانے والے معاشرے میں وہ جب اپنے جسم و جان کے حق خود اختیاری اور مرد سے برابری کا حق مانگتی ہیں تو انہیں مغرب زدہ کہہ کر پدرشاہی مظالم پہ کیسے پردہ ڈالا جا سکتا؟ یہ سب بڑے مسئلے اور بڑے مدے ہیں جن سے آنکهیں نہیں چرائی جا سکتیں. اگر آپ اتنے ہی سلامتی کے داعی ہیں تو ان مسئلوں کو حل کرو تو خطرہ ناپید ہو جائے گا. لیکن آپ یہ کرنے سے رہے. کہ اسی استحصالی نظام میں یہ ممکن نہیں۔یہ کام بهی ایک انقلابی جمہوری تحریک ہی کر سکتی ہے. اور کوئی تحریک یا نظریہ انقلابی کہلانے کے لائق نہیں جو عوامی مدوں اور حقوق کی جدوجہد سے کسی خیالی مجرد نسخے کے بہانے اس سے کنارہ کشی کرے. بهلا لال لال لہرانے میں کیا قباحت ہے؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...