کچھ کٹھوعہ اور آصفہ کے بارے میں
کٹھوعہ جمو ں سے ٨٨ کلومیٹر دور کشمیر کا چوتھا سب سے بڑا شہر ہے .یہاں ہندوؤں کی آبادی ٨٧ فیصد ہے جبکہ مسلمانوں کی مجموعی آبادی صرف تین فی صد کے اس پاس ہے .بکروال چرواہوں کا ایک قبیلہ ہے .یہ لوگ کہیں بھی ایک جگہ نہیں رہتے .آصفہ کا تعلّق اسی کمیو نٹی سے تھا .رنجیت ساگر ڈیم بننے کے بعد کچھ بکروال چرواہے کٹھوعہ میں آ کر بس گئے .انکی مجموعی تعداد اتنی کم ہے کہ انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے .٢٠١٤ کے بعد امن پسند شہر کٹھوعہ میں بھی مذھب کی سیاست شروع ہو گیی .بکروال ہندو بستی سے الگ پہاڑی حصّے میں رہتے ہیں ،جہاں انھیں جانوروں کو چرانے میں آسانی ہوتی ہے .سردیوں میں اس قبیلے کے لوگ جمو ں آ جاتے ہیں اور گرمی کا موسم آتے ہی کشمیر کا رخ کرتے ہیں .
سنجھی رام آصفہ مرڈر اور گینگ ریپ کی سب سے اہم کڑی ہے .کٹھوعہ کے اس پاس مسلمانوں کا رہنا اسے منظور نہیں تھا .اس نے کٹھوعہ کے ہندوؤں کو بھڑکانا شروع کیا کہ بکروال کمیو نٹی کے لوگ گاؤ ہتیا کرتے ہیں اور ڈرگس بچتے ہیں .یہی بات آصفہ کے مرڈر کے بعد چارج شیٹ میں بھی لکھی گیی .
اس ایک حادثے میں ،موجودہ ہندوستان کے تمام نفرت بھرے رنگوں کو دیکھا جا سکتا ہے .
بکروال چرواہوں کو جموں سے نکالنے کے لئے آصفہ کو ٹارگیٹ کیا گیا .سنجھی رام ،اسکے چہیتوں اور ایک پولیس والے نے آصفہ کو مندر لایا .ڈرگس کا انجیکشن دے کر سات دن تک ، اور ایک ایک دن میں کیی کیی بار آصفہ کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا .آصفہ کے سر کو پتھر سے کچلنے سے قبل پولیس کا ایک جوان کہتا ہے کہ کیوں نہ ایک بار پھر پیاس بجھایی جائے .باری باری سے معصوم فرشتہ کے ساتھ ناپاک عمل کو دہرایا جاتا ہے اور پھر بے دردی سے ہلاک کر کے لاش جنگل میں پھیک دی جاتی ہے …
سنجھی رام کا الزام کہ یہ ڈرگس بیچتے تھے ،گاؤ ہتیا کرتے تھے کا جھوٹ اسی بات سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ معصوم بچی کو ڈرگس کا انجیکشن دیا کرتے تھے .ممکن ہے یہ لوگ ڈرگس کا کاروبار بھی کرتے ہوں .بی جے پی میں سوم سنگیت جیسے سیاست دانوں کے کیی گھرانے گوشت کے کاروبار سے وابستہ تھے اور الزام مسلمانوں پر آتے رہے .
جموں اور پورے ہندوستان میں نفرت کی جو شدید آندھی ٢٠١٤ کے بعد اٹھی ، اسی آندھی کا ایک شکار آصفہ ہے ،اس لئے آصفہ مرڈر کو جیوتی یا نربھیا مرڈر کیس یا اناو کے گینگ ریپ سے جوڑ کر نہیں دیکھا جا سکتا ..اس نفرت کا ایک پڑاؤ تقسیم کا المیہ ہے ، جب سب سے زیادہ شکار عورتیں ہوئیں .ایسے موقع پر جب انسان نفرت کی شدت میں نفسیاتی مریض بن جاتا ہے تو اس کے خیال میں سب سے پہلا تصور عورتوں کی بربادی کا آتا ہے .مرد سمجھتا ہے کہ عورتوں کو رسوا کے کے ،انکی عزت لوٹ کر اس نے دشمن کے مذھب کو شکست دے دی ہے .کشمیر میں ١٩٨٩ کے بعد ظلم کی انتہا رہی .اکثر شکار عورتیں رہیں .آصفہ کا کیس ٢٠٠٢ کے گجرات فساد کی یاد تازہ کراتا ہے . گجرات کے نرودہ پاٹیہ کے پورے مسلم محلے کو فسادیوں نے گھیر کر چُن چُن کر مسلمانوں کو عورتوں بچوں سمیت زندہ جلایا.مسلم عورتوں اور لڑکیوں کی پہلے عصمت دری کی جاتی پھر قتل کردیا جاتا.بلقیس بانو کی اپنے پڑوسیوں ہی کے ذریعے اجتماعی عصمت دری ہوئی .حاملہ کوثر بانو کا پیٹ چاک کرکے اُس کے بچے کو تلواروں کی نوک پر اُچھالا گیا..تقسیم اور آزادی کی کہانیوں کو مت یاد کیجئے ..یہ حادثہ صرف سولہ سال پرانا ہے .سولہ برس میں مسلمانوں کی دنیا بدل گیی ..اتر پردیش کا تاج جس شخص کے سر پر رکھا گیا ، اسی یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ بیان دیا تھا ، کہ مسلمانوں کی عورتوں کو قبر سے نکالو اور انکی عزت کا جنازہ نکال دو ..آج یہ بھوگی بائیس کروڑ کی آبادی والی ریاست کا بے تاج بادشاہ ہے .کیا ایسے بیان دینے والے لیڈر سے مسلمان کسی بھی طرح کی رحم کی امید کر سکتے ہیں .؟ گودھرا کے بعد جب گجرات جل رہا تھا ، گجرات کو جلانے کا فیصلہ کس کا تھا ..؟ گجرات حادثے کے صرف بارہ برس بعد ہندوستان کی تقدیر کے سیاہ خانے میں ایک نام آصفہ کا لکھ دیا گیا ..آصفہ کو صرف ایک بکروال قبیلے کی مسلمان بچی نہ سمجھیں .انتقام کی یہ کہانی ان ہزاروں فرضی تاریخ کی کہانیوں کا حصّہ ہیں جو آر ایس ایس نے ہزار برس کی مسلم تاریخ با الخصوص مغلوں کی تاریخ سے جمع کی ہیں .جہاں انتقام کا یہ سبق پڑھایا جاتا ہے کہ پدما وتی سے جودھا تک ہندو عورتوں کو رسوا کیا گیا .اب حکومت تمہاری ہے تو انتقام لینے کی باری بھی تمہاری ہے ..اس لئے معصوم اور نا بالغ آصفہ کے ساتھ جو حادثہ ہوا ، اس کے پس پردہ انتقام کی اسی کہانی کو دہرایا گیا .اور اسی لئے ہندو ایکتا منچ نے جب ملزمین کے دفاع میں جلوس نکالا تو اس میں بی جے پی لیڈروں اور مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل تھیں .ابھی ہم اتنے غیر مہذب نہیں ہوئے کہ معصوم بچی کے ساتھ ہونے والے گینگ ریپ کا بچاؤ کر سکیں .لیکن یہ پورا معاملہ گجرات رول ماڈل کا حصّہ تھا ..مسلمانوں کے فرضی قصوں کا زہر اس قدر عورت ،مرد اور بچوں میں بھر دیا گیا ہے کہ آزادی کے بعد پہلہ موقع ہے جب بیشتر حقیقت اور دلیل بھول کر مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں ..اس بارے میں سوشل ویب سائٹس پر ھزاروں ہندو تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکیلے پوسٹ لگا رہی ہیں اور ناپاک ذہن تیار کر رہی ہیں .آر ایس ایس کی شاخوں سے بھی ایسے لیٹرچرعوام میں تقسیم کیے جا رہے ہیں . .مودی حکومت کے ساڑھے چار برسوں میں مسلم عورتوں کے خلاف بیانات کا سلسلہ بھی کھل کر جاری ہے .طلاق ثلاثہ کا معاملہ بھی مسلم عورتوں کو کمزور کرنا ہے .پدما وتی کو لے کر جب ہنگامہ ہوا تو مسلم عورتوں کے خلاف ناپاک بیانوں کی باڑھ آ گیی تھی .یہ کس کے اشاروں پر ہوا تھا ؟یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ..
آر ایس ایس کی لیبا ر ٹری میں ایسے لیٹر یچر بڑی تعداد میں شایع کیے جا رہے ہیں .
ہمیں نا امید ہونے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں ہے کہ فرقہ واریت کا زہر پورے معاشرے میں گھولنے کے باوجود ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ آج بھی جمہوریت ،فرقہ وارانہ ہمہ آہنگی ،اور گنگا جمنی تھذیب پر یقین رکھتا ہے .آصفہ کو انصاف دلانے کے لئے ایک ہندو خاتون وکیل نے کسی کی پرواہ نہیں کی .بکاؤ میڈیا نے بھی آصفہ کو ہندو مسلمان کے خانے میں نہیں رکھا .یہاں میڈیا کے بیشتر نیوز اینکر کا ضمیر جاگ گیا .تمام اخباروں نے کٹھوعہ کے حادثے کی پر زور مذمت کی .ایک مہینے کے بعد مودی نے آواز اٹھایی تو انکی بے بسی اور بے چارگی کو بھی سب سمجھ رہے ہیں .کٹھوعہ اور اناو کے حادثے نے ترنگا کو بھی بحث کا موضوع بنایا اور سنگھی ذہنیت کی حب الوطنی کو خارج کرنے کے لئے بھی کیی چینل میدان میں کود پڑے .
معصوم آصفہ کی ہلاکت بیداری کی لہر پیدا کرنے میں کامیاب رہی ہے .لیکن مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلانے والے خاموش نہیں بیٹھیں گے .انکا اصل ٹارگیٹ مسلم عورتیں ہیں ..یہ آصفہ جیسی بچی بھی ہو سکتی ہے یا اس سے بھی کم عمر کی بچی ان کا شکار ہو سکتی ہے .آصفہ کے قاتلوں کا دفاع کرنے والے در اصل اس مخصوص لیٹر یچر کی پیروی کر رہے ہیں ،جس کا سہارا لے کر مسلسل ایسے لوگوں کو انتقام کے لئے تیار کیا جا رہا ہے ..
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“