کچھ کر جائیں یا دفع ہوں۔
میں نے آج سے ٹھیک تین دن پہلے پاکستان کی بہتری کے لیے ایک بہت سادہ حل والی پوسٹ لکھی۔ اُس میں موجودہ دس most moneyed بابؤں کا نام تھا ۔ چیف جسٹس اور چیف آف آرمی سٹاف سے درخواست تھی ان سے ہیسے نکلوانے کی ۔ بہت ہی آسان اور ماڈرن طریقے سے ۔
اُس تجویز کی لوگوں میں بے حد پزیرائی ہوئ ۔ سینکڑوں ای میل میسیج تو مجھے موصول ہوئے ۔ ایسا لگا جیسے لوگ بیقرار بیٹھے ہیں۔ شدید زہنی اضطراب میں ہیں۔
اس کے چوبیس گھنٹے بعد اوپر نیچے دو جوتے پھینکنے کے واقعات رُونما ہوئے ۔ میں نے ٹیلی ویژن پر بیٹھے اُن ارسطؤوں کی طرح مزمت نہیں کی بلکہ اسے ایک قدرتی عمل گردانا۔ every action has reaction . ہر ایک عمل کا رد عمل ہوتا ہے ۔ ہارون رشید جیسے صوفی نما صحافی بھی condemn کر رہے تھے۔ بھئ خلیفوں کے گریبان پکڑے گئے۔ کپڑے تار تار کیے گئے ۔ کس کھاتے میں؟
کیوں لیتے ہو زمہ داری ؟ کیا شوق ہے چوتھی دفعہ وزیر اعظم بننے کا ؟ کیوں لوگوں کے مسائل حل نہیں کرتے؟ کیوں خلق خدا کی بُھلائ کی زمہ داری لی اور نبھائی نہیں؟ کیوں لوگوں کو بھوکا ، ننگا اور بیمار رکھا اور خود ۴۵ کروڑ کی گھڑی باندھی ؟ آپ لوگ عزت کے قابل ہی نہیں ہیں ؟ بلکہ چوکوں میں پھانسی پر لٹکائے جانے کے قابل ہیں ۔ مجھے دکھ ہوا ان ٹی وی اینکرز پر جو ان واقعات کئ مزمت کر رہے تھے ۔ یہ نہیں بتا رہے تھے کہ کونسی چیز مجبور کر رہی ہے ان لوگوں کو اس امر پر ۔ میری درخواست ہے ان صحافیوں سے کہ جناب اپنی باری کا اب انتظار کریں ۔ آپ نے بھی ان idiot screens پر بہت تماشا رچا لیا ۔ بہت پیسے بنا لئے ۔
ملک کہاں پہنچا دیا ۔ تعلیم نہ ہونے کہ برابر ہے ۔ علاج معالجہ کی کوئ سہولت نہیں ۔ پاکستان کے سب سے بڑے فراڈیے ، کرپٹ اور شوباز شہباز ڈاکو کو اسٹیبلشمنٹ ملک کا اگلا وزیر اعظم بنانا چاہتی ہے ۔
مجھے کسی نے بتایا کہ ہفتہ والے دن سپریم جیوڈیشل کونسل کے اجلاس میں ملزم ججوں نے چیف جسٹس پر چڑھائ کر دی ۔ اشرافیہ ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑے گی، دیکھ لینا ۔ سپریم کورٹ میں تقسیم ہو گئ ہے ۔ ملٹری میں بغاوت کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔
مافیا فورسز با آسانی سرینڈر نہیں کریں گی ۔ اربوں ڈالر کا معاملہ ہے ۔ پاکستان ۷۰ سال سے کالے دھن کی آماج گاہ ہے ۔ لیکن مغرب نے پناما کے بعد کالے دھن کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ انڈر ورلڈ کی شکست نوشہ دیوار ہے ۔ پاکستان ہٹ لسٹ پر ہے ۔ FBI کا کڑا پہننے والے شاہین کو پاکستان کا سینیٹر بڑے فخر سے بنایا گیا ہے ۔
ہمارے آرمی چیف اور چیف جج ، سب ٹھیک کا راگ آلاپ رہے ہیں ۔ مافیا backed جمہوریت کے شدید دلدادہ ہیں ۔ جناب پہلے کرپشن کا گند صاف کریں۔ بلوچستان ، فاٹا اور کراچی میں لاکھوں لوگ فوج کے ہاتھوں ماؤرائے قتل کرتے ہوئے تو باجوہ صاحب آپ کو جمہوریت نہیں یاد آئ ؟ اب حرام کے اربوں ڈالر نکلوانے میں پیٹ میں جمہوریت کے مڑوڑ اٹھ رہے ہیں ؟ جمہوری اقدار یاد آ رہی ہیں۔ سبحان اللہ آپ کی دانائ پر ۔ انسانی آزادیوں کی بات ہو رہی ہے ۔ کہاں تھیں یہ آزادیاں جب میرے Asia on line والے صحافی دوست سلیم شہزاد کو دن دیہاڑے پہلے اغوا کیا گیا پھر قتل کر کے لاش نہر میں پھینک دی ۔ اور اسی ثاقب نثار سے one man commission بنوا کر کلین چٹ لے لی ۔ اور میری ایک اور دوست سبین محمود کو صرف اس بات پر قتل کیا کہ میں اور اس کی تنظیم صرف یہ کہ رہے تھے کہ بھلے آپ پورا بلوچستان دہشگردی کے چکر میں قتل کر دیں آپ کو آپریشن transparent رکھنا ہو گا تا کہ ایک بھی بے گناہ قتل نہ ہو ۔ صحافیوں کو ساتھ لے کہ چلنا ہو گا ۔ اس وقت میری آنکھیں پُرنم ہیں ، میں سبین کے second floor کے کیفے جایا کرتا تھا ۔ کیا پیار اور جزبہ تھا اس میں انسانیت کے لیے ۔ مجھے کہتی تھی نزر خیال رکھو تمہے ایم کیو ایم والے مار دیں گے ۔ یہی مجھے تکبیر والا صلاح الدین کہتا تھا ۔ دونوں چلے گئے ۔ میں یہ عزاب بگھت رہا ہوں ۔ لیکن خیر ضرور لڑوں گا تا کہ ان کی روحوں کو تسلی و تشفی ہو کہ پیچھے کوئ ان کی شمع جلائے ہوئے ہے ، ان درندوں سے لڑنے کے لیے ۔
میں بھی امریکہ میں اسٹیبلشمنٹ کی دہشتگردی کی وجہ سے پناہ لیے بیٹھا ہوں جیسے میرا دوست بلاگر سلمان احمد فرانس میں بیٹھا ہے ۔
ہم سارے پاکستان کے دشمن نہیں ۔ ہمارا قصور صرف یہ ہے کہ ہم اپنی دھرتی ماں کی بٹوار میں حصہ دار نہیں بنے ۔ماں کو بیچا نہیں جاتا بیشک بھوک ننگ جتنا مرضی ستائے ، جان لے لے ۔ خیر ہے، ماں زندہ رہے گی ہمیشہ ہمیشہ ۔ میرا ایمان ہے ۔
اگر چیف جسٹس صاحب آپ یا چیف آف آرمی سٹاف کسی رشوت ستانی میں ملوث نہیں تو برائے مہربانی فورا کڑا احتساب شروع کریں ۔ کم از کم پانچ سو بلین ڈالر مل جائے گا ۔ اور یہ آپ دونوں کا کوئ پاکستان پر احسان نہیں ہو گا آپ کو اس کا ضرورت سے زیادہ معاوضہ دیا جاتا ہے ۔ چیف جج صاحب آپ ہی نے تو کہا تھا کہ ہمارا تو ڈرائیور ڈاکٹر سے زیادہ تنخواہ لیتا ہے ۔ تو پھر پرفارم بھی کریں جناب ۔
پاکستان میں سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ کبھی کسی نے پوچھا ہی نہیں ، کہ بھائ صاحب آپ کی کیا پر فارمنس رہی؟ ھزا فضل ربی کہاں سے آیا؟ سیٹھ کی نوکری ہوتی تو ہوش ٹکانے آ جاتے ۔ قبر میں ہوتے ۔
کچھ کر جائیں یا دفعہ ہوں ہماری بلا سے ، تم دونوں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔