ایک بلیک ہول کی "تصویر" کھینچنے کے لئے بیس ممالک سے دو سو ذہین ترین افراد نے اپنے علم اور محنت کے بل بوتے پہ بلیک ہول کی ایک "تصویر" کھینچی تھی۔ اور یہ انسانی تاریخ میں ایک اعزاز کی بات ہے۔
مگر کیا آپ کو پتا ہے کہ یہ تصویر 57 ملین نوری سال دور سیارے سے لی گئی۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس بلیک ہول کا 57 ملین نوری سال پُرانا ماضی دیکھا ہے۔ حال میں وہاں کیا ہو رہا ہے، کچھ علم نہیں۔
"تصویر" کے ریلیز ہونے پہ کُچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ "تصویر" دُھندلی ہے۔ ان لوگوں کو میں پلوٹو کی تصویر دکھائے دیتا ہوں جو 23 سال پہلے کھینچی تھی۔ اس تصویر میں آپ پلوٹو کی سطح کو واضح طور پہ نہیں دیکھ سکتے مگر اب ہم پلوٹو کی سطح کا مکمل تجزیہ کرنے کے قابل ہو چُکے ہیں۔
اسی طرح لارج ہیڈران کولاڈر میں چھوٹے لیول پہ بگ بینگ کرکے اس کائنات کے ابتداء کی سٹڈی سے لے کر گاڈ پارٹیکل کی دریافت تک ہم انسانوں نے آپس میں بے حد تعاون کیا۔ کشش ثقل کی لہروں کی تصدیق میں بھی بیس سے زائد ممالک کے سائنسدان شامل تھے۔ اور فخر کی بات یہ ہے کہ ان سب ٹیموں میں سے زیادہ تر میں ہمارا ایک آدھ ہم وطن ضرور رہا ہے۔
سائنسی علم کی ترقی کا سفر انتہائی کھٹن اور نازک ہے۔ اس میں ہمیں پوری پوری عمر ایک چیز کے نتائج حاصل کرنے میں لگانی پڑتی ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ ساری عمر بلیک ہول پہ تھیوریز دیتا رہا۔ مگر بلیک ہول کی تصدیق اسکی وفات کے بعد ہوئی۔ آئن سٹائن نے کششِ ثقل کی لہروں کا ذکر کیا مگر سو سال بعد تصدیق ملی۔ پریون نامی بیماریاں پھیلانے والے عنصر پہ سٹینلی نے عمر بھر کام کرکے نوبل انعام جیتا۔ بظاہر پڑھنے کو یہ بہت آسان سفر لگتا ہے لیکن اس میں عمر بیت جاتی ہے۔
آپ نے وہ آئن سٹائین اور ابلتے انڈوں کی جگہ گھڑی ڈالنے کا قصہ سُنا ہوگا۔ سچ یا جھوٹ کی بحث میں جائے بغیر یہ دیکھیں کہ اتنا مگن ہو کر دنیا کو ایک تصور دینا پڑتا ہے۔
بظاہر ڈارون کا کام ہمیں بطور مسلمان سازش لگتا ہے لیکن اسکے کانسپٹس کی وجہ سے جینیاتی بیماریوں کا مطالعہ تو آسان ہو ا ہی اسکے نظریہ ارتقاء نے ہمیں دوسری مخلوقات کو سیکھنے کا نیا علم دیا۔
مینڈل ایک پادری تھا اُس نے ساری عمر چرچ میں مٹر کے دانوں پہ تحقیق پہ بِتا دی۔ اور اسکا کام ریجکٹ کر دیا گیا۔ مگر پھر دو سو سال بعد اسکے کام کی تصدیق ہوئی اور ہم نے اس کے کام کی بنیاد پر علم کی پوری ایک برانچ جنیٹکس کی بنیاد رکھ دی۔ آج تمام جینیاتی بیماریوں کا علاج اُسکی فراہم کردہ بنیادوں کی مرہونِ منت ہے۔
ماری کیوری ایک گھر میں نوکرانی تھی۔ مالکن کے بیٹے کیساتھ عشق لڑا بیٹھی۔ مالکن نے نوکروں کو اکھٹا کیا اور کہا کہ دیکھو یہ میرے بیٹے سے شادی کرے گی۔ جسکے پاس کھانے کو دو وقت کی روٹی نہیں ہے۔ وہ بیچاری روتی روتی وہاں سے نکلتی ہے اور برلن (کنفرمیشن چاہیے) جا کر پڑھائی شروع کرتی ہے۔ سردیوں میں اپنے اوپر رضائی نا ہونے کی وجہ سے کپڑے اور سٹڈی ٹیبل تک رکھتی ہے۔ اسکو اسکا ٹیچر کہتا تھا کہ تمہیں پڑھائی کی بجائے روٹی کی ضرورت ہے۔ تم کمزوری کی وجہ سے یوں زیادہ جی نہیں سکتی۔ وہ پیری کیوری سے شادی کرتی ہے دونوں غریب، مگر پڑھے لکھے، پی ایچ ڈی کے لئے ایک پراجکٹ پہ کام کرتے ہیں اور ریڈیم بنا ڈالتے ہیں یہی ریڈیم اب کینسر کے شعاؤں کے علاج میں استعمال ہوتی ہے ایک غریب جوڑا اسے دریافت کر دیتا ہے۔ اب یہی ریڈیم ایک لاکھ ڈالر کی چند گرام ہے۔ سوچیں اس غریب جوڑے نے اسکو بنانے میں کتنی محنت کی ہوگی۔
الغرض کوئی بھی سائنسی ایجاد دن دو دن کا کام نہیں پوری عمر وقف کرنے کا نام ہے۔ مُجھ جیسے نالائق طلبہ شائد ہی اچھا سائنسدان بن پائیں مگر اپنے بچوں کو ہارنا مت سکھائیں اُنکو بنا کسی نتائج کے تسلسل کیساتھ کام کرنا سکھائیں۔ انشاءاللہ ہم آگے آئیں گے۔