میں ضلع شکارپور میں تھانہ باگڑجی اور تھانہ رُستم میں ایس، ایچ، او رہا ہوں، دنوں تھانوں کی حددود میں کچے کا علائقہ ہے، پہلے میں بھی کچے کے علائقے کو ایک عام علائقہ سمجھتا تھا لیکن جب پہلی بار ایک قتل کی تفتیش کیلئے کیس کے مدعیوں کے ساتھ تھانہ باگڑجی کے کچے کے علائقے میں گیا تو معلوم ہوا کہ کچہ کس کو کہتے ہیں۔
قاریں دریا کے پانی کو شھروں میں جانے سے روکنے کیلئے دریا کے دونوں اطراف مٹی کے بند باندھے گئے ہیں، مٹی کے بندوں کے درمیانی فاصلہ کہیں 50 کلومیٹر ہے تو کہیں 100 یا 200 کلومیٹر ہے، حیدرآباد سے کشمور تک کچہ 470 کلومیٹر طویل ہے، تقریبا ہم چورس 47 ہزار کلومیٹر کچے کا علائقہ سندھ میں ہے، یاد رہے کہ پاکستان کاقُل رقبہ 796095 ہم چورس کلومیٹر ہے ۔ ان مٹی کے بندوں کے درمیاں والے علائقے کو کچہ کہا جاتا ہے، بندوں کے درمیاں لاکھوں ایکڑ زمین ہے جو ساری کی ساری فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کی ہے، فاریسٹ کی زمین علائقے کے بااثر سیاسی لوگ لیز پر لیتے ہیں، علائقے میں لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین پر قدرتی طور اُگنے والے کانٹے دار کیکر کے درخت ہوتے ہیں ۔ کریکر کے درخت اتنے گھنے ہوتے ہیں کہ آدمی اگر اندر چلا جائے تو کانٹوں کی وجہ سے بڑی مُشکل سے زخمی ہوکر باہر نکلے گا ۔ آئے روز مال مویشی درختوں کے اندر پہنس کر ہلاک ہوتے رہتے ہیں۔
شکارپور ضلع کے پاس تقریبا 60 کلومیٹر طویل اور ہم چورس 3 ہزار کلومیٹر کا کچہ کا علائقہ ہے۔
ضلع کشمور کے پاس تقریباً 84 کلو میٹر طویل اور ہم چورس 5040 کلومیٹر کچے کا علائقہ ہے۔
کچے کے علائقے میں روڈ راستے یا نہری نظام نہیں ہے، دریا اپنی مرضی سے ادھر اُدھر چلتا رہتا ہے اور لاکھوں ایکڑ اور ہم چورس ہزاروں کلومیٹر پر جنگلی کانٹے دار کیکر کے درخت اُگاتا چلا جاتا ہے، درختوں کو کاٹ کر علائقے کے طاقتور لوگ اور ڈاکو کروڑوں روپیہ کماتے ہیں ، کچے میں کچھ زمینوں کو ہموار کیا گیا ہے جس میں زمیندار کیلئہ،کماند، تربوز، بڑی مقدار میں سبزیاں ، دودھ مال مویشی اور مچھلی کی بُہتات ہے، جیساکہ راستے روڈ نہ ہونے کی وجہ سے مُقامی آبادی کشتیوں کے ذریعے اپنا مال مقامی مارکیٹ میں فراہم کرتے ہیں،
کچے کی الگ ایک منفرد دُنیا ہے جس پر آج تک ہماری حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی اور نہ ہماری میڈیا یا صحافی حضرات نے کوئی دورے یا تحقیق کرنے کی زحمت کی ہے۔ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری اردو میڈیا زمیندار، ڈاکو اور سندھی بولنے والوں کو ایک ہی عینک سے دیکھتے ہیں جس طرح کراچی میں بھتہ کی وصولی کیلئے ہزاروں لوگوں کو قتل کرنے والوں کو، مالکان کی طرف سے بھتہ دینے سے انکار کے بعد بلدیہ فیکٹری میں تین سو مزدوروں کو آگ میں جلا دینا ۔12 مئی کے قاتلوں کو، یونٹ، سیکٹر، اور زونل انچارجوں اور عام اردو بولنے والے یا سندھی،پنجابی،بلوچ،پٹھان کو ایک عینک سے نہیں دیکھا جاسکتا
تھانہ باگڑجی میں جب میں پہلی دفعہ کچے میں جارہا تھا تو غلام نبی کورائی نے مجھے کہا کہ صاحب آپ پینٹ شرٹ نہ پہنیں ملیشا کی شلوار قمیص اور جوگر پہن لیں میرے پاس ملیشا کے کپڑے نہیں تھے غلام نبی نے مجھے کہا صاحب آپ سلوار قمیص میں چلیں اور ساتھ میں چار پانچ کپڑوں کے جوڑے لے چلیں کیونکہ واپسی میں چار پانچ دن لگ سکتے ہیں ۔
کیس کا مدعی بضد تھا کہ آپ لوگ ہتھیار وغیرہ لے کر نہ چلیں خوامخواہ لوگ ڈر جائیں گے۔ ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ غلام نبی کورائی نے بھی مجھے کہا کہ صاحب ہتھیاروں کے بغیر چلتے ہیں
تھانے سے دریا کے بند تک گاڑی میں گئے، بند کے بعد پیدل راستہ تھا آگے جاکر کیکر کے کانٹے دار درختوں کے درمیان صرف بمشکل ایک آدمی کے چلنے کا راستہ تھا، چھوٹے اور بڑے درخت اتنے گھنے تھے کہ دس فٹ کے فاصلے پر اگر کوئی آدمی چُھپ کر بیٹھا ہو نظر نہیں آئے گا۔ چار دن بعد واپسی ہوئی۔ وہ زندگی کے چار مشکل ترین دن کبھی نہیں بھولوں گا۔ نہ دن کا چین نہ رات کا آرام ۔ دن کو پسینے سے کپڑے اسطرح شرابور کہ جیسے کوئی مسلسل آپ پر پانی اُن ڈیل رہا ہے۔ رات آپ چارپائی سے اتر نہیں سکتے ساُنپوں کی بہتات – مچھر ایسے جیسے وہ ہماری دعوت پر آئے ہوں ۔ اوپر چادر ڈالو تو گرمی چادر اُتارو تو مچھر !!
واپسی پر ہم سارے لوگ بیمار پڑگئے۔ ایک ہفتے بعد جاکر ٹھیک ہوئے۔ واپسی پر غلام نبی نے بتایا کہ میں نے کیس مدعی کے کہنے پر بغیر اسلحہ چلنے کیلئے اس لیئے آپ کو آمادہ کیا کہ کیس کے مدعی کو ڈر تھا کہ ہم سے کوئی اسلحہ نہ چھین لے یا ہم کو کوئی نقصان نہ دے دے۔
واقعہ 1
ایک بار رستم کے کچے کے علائقے میں فوج نے آپریشن شروع کیا۔ پولیس کی طرف سے ہمارے ایس ایس پی شکارپور عبدلاللہ خان چاچڑ صاحب ( موجودہ ہوم سیکریٹری سندھ مسٹر محمد عثمان چاچڑ کے والد صاحب) اور فوج کی ایک کرنل صاحب اپنے جوانوں کے ساتھ پیدل بند سے کچے میں اُتر گئے، ایک ہفتہ تک کرنل صاحب کی رہنمائی میں ڈاکوئوں کی کمین گاہوں پر حملے کرتے رہے، ہم پولیس والوں کو کچھ بھی پتہ نہیں تھا مگر فوج کو ایک ایک چپہ چپہ اور ڈاکووں کے متعلق پوری معلومات تھی، ایک ہفتہ تک ہم فوج کے ساتھ اُن کے “ مہمان” کی طرح ساتھ تھے ہمارے پولیس کے جوانوں کے کھانے پینے تک کا بندوبست فوج کررہی تھی
واقعہ 2:
آپریشن کے دوران جب کرنل صاحب کو اطلاع ملی کہ فلان جگہ کچھ ڈاکو چھپے ہوئے تو کرنل صاحب نے رات کے آخری پہر میں اُن پر حملہ کا پلان بنایا، اُس رات کچے میں پیدل چلتے چلتے ہمارے اور فوج کے کچھ جوان ہم سے بچھڑ گئے۔ بچھڑے ہوئے جوانوں کا وائرلیس پر کرنل صاحب سے رابطہ تھا۔ فائر یا Tracer Gun سے کوئی فائر نہیں کیا جاسکتا تھا کہ ڈاکو ہوشیار نہ ہوجائیں۔ کرنل صاحب نے اپنے بچھڑے ہوئے جوانوں کو کہا کہ ہم آگ کا آلئو روشن کرتے ہیں آپ لوگ آگ کی طرف آجائو اور اپنے جوانوں کو کہا کہ آگ کیلئے جھاڑیاں اگھٹی کریں میری حیرانگی کی اُس وقت انتھا نہ رہی جب دیکھا کہ کرنل صاحب اپنے جوانوں کے ساتھ جھاڑیاں اگھٹی کر رہے ہیں۔ ہمارے ایس،ایس پی صاحب نے کرنل صاحب کو بہت منع کیا مگر کرنل صاحب اپنے جوانوں کے ساتھ آخر تک جھاڑیاں تلاش کرکر کے اور اٹھا کے لاتے رہے۔
واقعہ 3
دوسرا میں اُس وقت حیران ہوا رات کے دو بج رہے تھے اور ہم لوگ اپنے ٹار گیٹ کی طرف جارہے تھے تو ایک مقام پر اچانک فوج کا گائیڈ رُک گیا اور کرنل صاحب کو اُلٹے ہاتھ کی طرف اشارا کرتے ہوئے کہا کہ سر اس طرف فلان جتوئی کا گھر ہے اس کے کتے بڑے چونکنے رہتے ہیں اگر ہم اُلٹے ہاتھ والے راستے سے جائیں گے تو کتے ہم پر بھونکیں گے اور ہوسکتا ہے جتوئی ہوائی فائرنگ کرے اور مزید کہا کہ اگر ہم اس دوسرے راستے سے جائیں تو دو کلومیٹر راستہ زیادہ ہے مگر بیچ میں کوئی گھر نہیں ہے۔
اس قسم کی انٹیلجنس معلومات ہم پولیس والوں کو کہاں ہوتی ہے، ہم کو اپنے شھر کے علائقے کا کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا یہ تو میں آپ کو کچے کے متعلق بتا رہا ہوں
یہ تصور کرنا کہ کرمنل کچے کا ہو یا پکے کا یا شھر کا ہو وہ کسی کے کنٹرول میں ہے اور کسی کے کہنے میں ہے !! یہ سب ایک خام خیال ہے۔ جب بھی پولیس نے سرداروں پر دباؤ ڈالا کہ فلاں ڈاکو کو پولیس کے پاس پیش کرے یہ سب بے سود رہتا ہے اور جب پولیس کرمنل کی بھینسیں یا عورتیں وغیرہ تھانے پر لاتے ہیں تو کرمنل اپنے سردار کے معرفت آکر پیش ہوتے ہیں یا اغوا شُدہ آدمیوں کو رہا کرتے ہیں ۔
کچے کی زندگی بڑی مشکل ترین زندگی ہے، کچے میں زندگی گُذارنا ایک ڈراونے خواب کی طرح ہے، شھر کے آدمی کا وہاں ایک دن گذارنا زندگی بھر کا مشکل ترین دن کے ماند ہوتا ہے۔ کچے کی سختیاں، ہر طرف پانی ہی پانی، جنگل اور اپریل سے لیکر اکتوبر تک سخت حبس کے ساتھ گرمی !! آف اللہ آدمی انسان سے جانور بن جاتا ہے۔ کتے کی طرح کی زندگی ہوتی ہے، کچے کے علائقے میں ہوا ہی دوسری چلتی ہے، کچے کے لوگوں کا مزاج ہی دوسرا ہوتا ہے۔ جب علائقے میں راستے ہی نہیں۔ کوئی جیپ وغیرہ جا نہیں سکتی ۔ ہم چورس ہزاروں کلومیٹروں میں پھلے جنگل میں کوئی پولیس، رینجرز یا فوج کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ اس وجہ سے وہاں کے کرمنل اور لوگوں کا بُہت دماغ خراب ہوتا ہے۔ وہ تو کسی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں ۔ مگر فوج صرف اور صرف انٹیلیجس بنیادوں اور ایک خاص ٹیکنیک اور “حکمت عملی”جو ایک راز ہے اور بتایا نہیں جاسکتا ان کچے کے کرمنل کا صفایا کرتی ہے۔ باقی پولیس کو کچے میں اُتارنا خودکشی کے برابر ہے۔ کچا مکھن کی ٹیکہ نہیں جس میں بال ہو اور پولیس آسانی سے وہ بال نکال لے ۔
آرمی اور پولیس نے علائقہ میں کرمنل کے ساتھ لڑتے بڑی قُربانیاں دی ہیں، ڈی، آئی،جی عزیز بلو صاحب، چوہدری اسلم صاحب، ایس،پی ملوک جاگیرانی صاحب، ایس پی عبددلفتاح سانگری صاحب اور ایک لمبی لسٹ ہے فوج اور پولیس کے شُہدا کی جن کی قُربانیاں کبھی نہیں بھولی جائیں گی۔
سکھر اسلام آباد موٹر وے گھوٹکی ضلع میں قادر پور گیس فیلڈ اور کشمور کچے بند کے ساتھ ساتھ گذرتی ہے، یہ موٹر وے کچے کے علائقے سے صرف فوج اور پولیس کی وجہ سے بنی ہے اور ان کی وجہ سے چل رہی ہے۔ آج بھی رات اور دن موٹر وے کے پلوں کے نیچے فوج ہوتی ہے جو ہم لوگ آرام سے اپنی منزل تک گامزن ہوتے ہیں۔
گھوٹکی اور کندہ کوٹ کو ملانے کیلئے پل بھی فوج اور پولیس کی کاوشوں کی وجہ سے بن رہا ہے وہاں کچے کا کرمنل پل بنانے میں آئے دن مشکلیں پیدا کرتے رہتے ہیں جو فوج اور پولیس خاموشی سے سب کچھ فیس کررہی ہے اور کام چل رہا ہے اور کل ان ہی کی وجہ سے اس پر ٹریفک بھی چلے گی۔
بڑے بڑے نامور ایس،ایس،پی جن کے یہاں نام لینا مناسب نہیں شکارپور کے کچے میں اپنی گاڑیاں اور ہتھیار چھنواکر پیدل خانپور تھانہ پہنچے اور بعد میں سرداروں کو منت سماجت کرکے اور ڈاکئوں کو پیسے دیکر اپنے لوٹے ہوئے ہتھیار واپس کروائے۔
حادثہ والے دن پولیس جوانوں کی لاشیں ،زخمی جوان APC اور گاڑیوں کا پورا قافلہ ڈاکئوں کے رحم و کرم پر چھوڑ آئی تھی جو ڈیل کے تحت جوانوں کی لاشیں زخمی اور کچھ گاڑیاں واپس لی گئی ہیں ،ابھی تک ایس ایس پی اسکاڈ کی LMG fitted 4×4 موبائل ڈاکوئوں کے زیر استعمال ہے۔
کچہ ایک پھولوں کی سیج نہیں ہے جو پولیس، رینجرز،فوج جاتے ہی اپنے شکار کو پکڑ کر آسانی سے واپس آجائے۔ کچہ کے کرمنل پولیس کا آسانی سے تیتر کی طرح انجانے میں شکار کر لیتے ہیں ، جس طرح بلڈوزر اور ٹریکٹر کا کام زمین کو ہموار کرنا ہوتا ہے صرف یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بلڈوزر کا کام ٹریکٹر نہیں کرسکتا ۔ کچہ آپریشن پولیس کے بس کا کام نہیں، صرف فوج ہی اپنی خاص “ حکمت عملی” کی وجہ سے کچے کو کنٹرول کرتی آئی ہے ۔
اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے !!!