یونیورسٹی کے ہرے بھرے خوبصورت اور کشادہ راستوں سے گزرتے ہوئے اکثر سوچتا ہوں کہ کتنی عجیب بات ہے نا! محلے کے ایک عدد کچے کمرے والے ٹاٹ سکول سے استانی جی کو ساوے چھولے دے دے کر پرائمری پاس کرنے والا "فانی" آج یونیورسٹی کے پھولوں سے لدھے پلاٹوں پختہ راستوں اور کشادہ سڑکوں پر مٹر گشت کرتے، سنگ مر مر سے تراشی ہوئی خوبصورت مورتیوں اور چاند چہروں کا طواف کرتے اور مختلف مضامین کے اساتذہ کے پرمغز لیکچرز سنتے ہوئے ایک نئے احساس سے مزین یونیورسٹی لائف کو انجوائے کر رہا ہے.
کبھی کبھی کلاس میں سٹیٹسٹکس اور سائیکالوجی جیسے ثقیل لیکچر سن سن کر اُکتا جاتا ہوں تو سوچتا ہوں میرے جیسے کتنے ہی لوگ یونیورسٹی لائف کے خواب دیکھتے دیکھتے فکرِ روزگار کی بھول بھلیوں میں کہیں کھو جاتے ہیں. اپنے ہی ہم جولیوں کی طرف پلٹ کر دیکھوں تو فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے ٹاٹ سکول کے دن بڑی شدت سے یاد آ جاتے ہیں، ٹاٹ بھی کیا تھے خود گھر سے گٹو لے جاتے تھے جنہیں قینچی سے کتر کر لمبا کر لیتے جس سے پانچ لوگوں کیلئے تشریف ٹیکنے کی جگہ بن جاتی تھی، ٹاٹ پر میں اپنے ساتھ صرف کلوز دوستوں کو بٹھایا کرتا تھا انکے نام ابھی تک یاد ہیں مجھے، ایک بِلا کملا تھا ایک فریدا روڑے والا، ایک شیبا شنٹی اور ایک شبانہ لِمّیل تھی.. (ان ناموں کے آخر میں لگے تخلصات کی بھی الگ ہی سٹوری ہے) اب بِلے کی شادی ہو گئی ہے وہ کھوتا ریڑھی چلا کر گھر کا سرکس چلاتا ہے، شیبا کسی کی لڑکی بھگا کر لے گیا تھا اور اب شاید کراچی میں کہیں مزدوری کرتا ہے. فریدا مکانوں کا مستری اور محلے کا مشہور چرسی بن گیا ہے جبکہ شبانہ کی چھوٹی عمر میں ہی کسی دور کے گاؤں میں شادی ہو گئی اور اب وہ تین چار بچوں کی امی ہے. یہ تھے میرے کلوز فرینڈز، ہمارے درمیان محبت اسقدر تھی کہ ایک ہی دوات میں قلم ڈبو ڈبو کر تختیاں لکھا کرتے تھے پھر تختیاں گاچی سے پوچ کر ایک دوسرے کے ساتھ انکی گردنیں ملا کر دھوپ میں سوکھنے کے لیے کھڑی کر دیتے تھے. مجھے اچھی طرح یاد ہے بِلا کملا بکری کے جالنگ کا بستہ بنا کر اس میں کتابیں لے آتا تھا اور ہم اسکا مذاق اڑاتے تھے.. اگلی کلاس میں ترقی پانے کا طریقہ یہ تھا کہ جو بچہ استانی جی کے کھیتوں میں کاشت کیے ہوئے وسلوں کی گوڈی زیادہ اچھے طریقے سے کرتا اسے زیادہ نمبر ملتے تھے اور وہ اگلی کلاس میں بٹھا دیا جاتا. اس ایک کمرے والے کچے سکول کی کوئی لیٹرین نہیں تھی (اب بھی وہ سکول ذرا نہیں بدلا) یورن کرنے ہم باہر ٹوبھوں میں جاتے تھے. یورن کی اجازت لینے کا طریقہ یہ تھا کہ دائیں ہاتھ کی انگلی بلند کر کے کہا جاتا "باجی یورن کر آئیں؟" باجی اثبات میں سر ہلاتی تو ہم آزاد پنچھی کی طرح بانہوں کے پَر بنا کر باہر کی طرف دوڑ پڑتے تھے اجازت مانگنے کا یہ سٹائل دسویں جماعت تک رائج رہا…!
اب جبکہ یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ ہوں لیکن طبیعت سے اس سکولی پن کی جھلک اور جھجھک ابھی تک ختم نہیں ہوئی، کوئی پروفیسر کلاس میں آئے تو "کلاس سٹینڈ" کرا دیتا ہوں، کلاس سے باہر جانا ہو تو اجازت طلب کرنے کیلئے شہادت کی انگلی بےاختیار بلند ہونے لگتی ہے جسے بڑی مشکل سے کنٹرول کرتا ہوں.
خیر یہ ماضی کی باتیں تو کسی گہرے احساس کے تحت یاد آ گئیں.. کوئی اور بات کرتے ہیں.
میرے کلاس فیلو لڑکے بڑے کمینے ہیں میں جب صبح کلاس میں انٹر ہوتے ہوئے سلام کرتا ہوں تو بالکل مری ہوئی آواز میں چَٹی سمجھ کر جواب دیتے ہیں لیکن اگر کوئی لڑکی سلام کر لے تو ہمہ تن گوش ہو کر پورے خشوع و خضوع سے بآوازِ بلند سلام کا جواب دیتے ہیں. زیادہ تر سرائیکی ہیں کچھ فاٹا اور بلوچستان کے لڑکے بھی ہیں کلاس کی تعداد تقریباً 50 انمول رتنوں پر مشتمل ہے جن میں سے زیادہ تر میری طرح اللہ کے لعل ہی ہیں.
لڑکیاں بھی زیادہ تر سرائیکی اور دیہاتی پس منظر رکھتی ہیں لیکن زوری زبری اپنے آپ پر ایک مصنوعی شہری پن کی ملمع کاری کیے رہتی ہیں. اللہ کے فضل سے ہماری کلاس میں ممی ڈیڈی ٹائپ بچوں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہے. ہم سب ابھی نئے نئے ہیں قدرے سہمے ہوئے سے قدرے شرمائے ہوئے سے لیکن اپنے سینئرز کی عادتیں اور چال چلن دیکھ کر اندازہ ہو رہا ہے ہم بھی بہت جلد بڑے ہی تِیرے ہو جائیں گے.
خیر ابھی تو ابتداء عشق ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!!
(لکھتا اس لیے جاتا ہوں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے)
ایک شعر سنئیے!
خرید لیتے ہو مسکرا کے مجھے
کتنا سستا سا آدمی ہوں میں