ایک عام ڈرائیور اپنے سر کے پاس لگے یا سائیڈ والے شیشے سے ایک گھنٹے کے سفر میں قریبا دس منٹ پچھلی سیٹ پر بیٹھی خاتون کو تاڑتا ہے۔ یعنی چھ گھنٹے کے سفر میں ایک گھنٹہ۔ سواری چاہے جیسی اور جس عمر کی بھی ہو بس ثواب سمجھ کر آنکھیں ٹھنڈی کر لی جاتی ہیں۔
پروفیشنل ڈرائیورز اس کیس میں قدرے نخرے باز ہوتے۔ وہ تاڑنے کے لئیے خوب صورت خواتین کو چُن لیتے اور پھر تاڑتے ہی رہتے ہیں ۔ اس عظیم الشان کام کے دوران اُن کی توجہ سامنے والے ٹرک پر کم اور پیچھے والی لیموزین پر زیادہ ہوتی۔
اگر منٹ ، گھنٹے اور دِنوں کا حساب کیا جائے تو ایک ساٹھ سالہ مرد اپنی زندگی کے پورے دو سال خواتین کو تاڑنے میں گُزار چکا ہوتا ہے ۔ اُن متاثرہ خواتین میں سے بُہت ساری اُن کے دل میں ہمیشہ کے لئے پیوست ہو چُکی ہوتیں ، بزرگوار رات آنکھیں بند کر کہ بھی اُنہیں یاد کرتے رہتے ۔ یہ تاڑ بازی صرف بے پردہ خواتین تک محدود نہیِں ۔ پردہ دار خواتین کو تاڑنے کا بھی اپنا ایک علیحدہ لُطف اور عالی شان مقام ہے۔
شادی شُدہ جوڑوں ہاں کم یا زیادہ بچے پیدا ہونے کی بہت ساری وجوہات ہیں۔
ریلوے سٹیشن یا ہوائی اڈے کے نزدیکی آبادیوں میں ہر دو بچوں کے درمیان وقفہ کم اور بچوں کی مجموعی گنتی زیادہ ہو گی کیوں کہ رات کو ریل کی سیٹی یا جہاز کی آواز سے بچے ڈر کر سو جاتے اور بڑے جاگ جاتے۔
حال ہی میں جس افریقن خاتون نے اکٹھے دس بچے پیدا کر کہ ورلڈ ریکارڈ قائم کیا اُس کی رہائش ہوائی اڈے کے پاس ہے جہاں روز رات دو بجے چیچوکی ملیاں سے آنے والی بوئنگ کی پرواز لینڈ کرتی۔
پاکستان میں بچے کم پیدا ہونے کی پہلی بڑی وجہ پیاری پُھپھو جانی کا ساس کے درجے پر فائیز ہونا ہے ۔ پُھپھو ساس رات کو بلاوجہ ہی ہائے ہائے کر کہ بیٹے کو اپنے پاس بُلا لیتی اور کُچھ اس طرح کی کہانی سٹیج کرتیں کہ باقی ساری رات اُن کا بیٹا یہ ہی سوچتا رہتا کہ پتا نہیں صبح تک امی زندہ ہو گی یا نہیں۔
کُچھ بیگمات بھی اِن بِلٹ بچے مخالف خصوصیات رکھتی ہیں ۔ وہ رات ہوتے ہی سر درد کے بہانے سر پر دوپٹہ باندھ کر سو جاتیں ۔ میاں صاحب ساری رات اپنے آپ کو کوستے یہ غور کرتے رہتے کہ جب اللّہ میاں نے سر درد بنا دیا تھا تو حکومتِ پاکستان نے محکمہ بہبودِ آبادی کیوں بنایا۔ ؟
یہ آجکل کے ڈیجٹل بچے بھی بہت شیطان ہیں ۔ ماں کی لِپ سٹک اور باپ کے موڈ کا پورا دھیان رکھتے ۔ گھر کے ماحول کا جائیزہ لے کر عین رات بارہ بجے اُنہیں آئس کریم کھانا یاد آ جاتا ۔ سب سے بڑا اُٹھ کر فرج سے آئس کریم نکالتا اور پھر چھوٹے اُس کی شکایت لگانے اماں ابا کے بیڈ روم میں پہنچ جاتے ۔ یوں نا چاہتے بھی فیملی پلاننگ ہو جاتی۔
کُچھ مرد حضرات بھی بہت میسنڑے ہیں ۔ بظاہر بیگم پر صدقے واری جائیں گے لیکن دوپہر جِس خاتون ساتھی ساتھ لنچ کیا ہوتا رات اُسی کو دل میں بسائے مُونہہ پھیر کر سو جاتے ۔ بیگم ساری رات خاوند کی درازیِ عمر کی دعائیں کرتی سوچتی رہتی کہ میرا بندہ کتنا معصوم ہے ۔ بیچارا سارا دن اتنی محنت کرتا کہ رات اِسے اپنے آپ کا ہوش ہی نہیں رہتا۔
بہت مواقع پر ننھے بچوں کا پیمپر چینج کرنا یا انہیِں فیڈر بھر کر دینا بھی انسانی آبادی کم ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ بیگم کو بہلا پُھسلا کر جب تک میاں صاحب بچے سنبھالتے تب تک صاحب کی اپنی بجلی بند اور سارے چراغ گُل ہو چکے ہوتے۔
کچھ علاقوں میں بچے کم ہونے کی بڑی وجہ بچوں کا زیادہ ہونا بھی ہے ۔ صبح بڑے بیٹے کی پینٹ کو بٹن لگانے سے بات شروع ہو کر چھوٹی کی فراک سے ہوتی ہوئی ننھے کا فیڈر سنبھال کر رات ایک بجے گُڑیا کے پیمپر پر ختم ہوتی ۔ تب تک بیگم اور صاحب کے اپنے جسم کے سارے جوڑ ڈھیلے ہو چکے ہوتے اور صبح پہلے سے موجود بچوں کے لڑنے کی آوازیں سُن کر آنکھ کُھلتی۔
یوں رات بھی گئی اور بات بھی گئی۔