کچھ غیر سائنسی باتیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے آس پاس فزکس کے طلبہ کھڑے تھے۔ کسی تقریب کا موقع تھا۔ تقریب شروع ہونے میں ابھی وقت تھا، سو ہم مختلف باتیں کرنے لگے۔ معاً میں نے ایک خیال کے تحت طلبہ سے ایک پہیلی پوچھ لی،
’’فرض کرو! ٹائم ٹریول ممکن ہوجاتاہے۔ فرض کرو! ممکن توہوجاتاہے لیکن اِس شرط کے ساتھ کہ جو کوئی بھی ماضی میں جائے گا فُلاں فُلاں وجوہات کی بنا پر اس کی یاداشت باقی نہیں رہ پائے گی۔ وہ جب اپنی پسند کے زمانے میں نمودار ہوگا تو اپنا نام تک سب کچھ بھول چکاہوگا۔ ایسے عالم میں ایسی کیا چیز ہے جو وہ اپنے ساتھ لے جائے تو اسے یاد آسکتاہے کہ وہ ایک ٹائم ٹریولر ہے اور مستقبل سے آیاہے؟‘‘
فوری طور پر کسی کے ذہن میں جواب نہ آیا۔ کچھ وقت کے بعد تقریب آغاز ہونے لگی۔ ہم سب اندر چلے گئے اور اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ تقریب کے آغاز سے کچھ ہی دیر پہلے معاذ میرے پاس آیا اور میرے کان میں کہا،
’’سر! اِکویشن۔ ایک اِکویشن۔ فقط ایک مساوات لے کر جائے وہ اپنے ساتھ، ریاضی کی‘‘
اب چونکہ بحث کا وقت نہیں تھا۔ میں خاموش ہوگیا۔ لیکن میں اتنی بات ضرور معاذ کے ذہن میں ڈال دی کہ بیٹاجی! وہ تو سب کچھ بھول چکاہے۔ ریاضی بھی۔
البتہ معاذ کے چلے جانے کے بعد میں اس کے اکویشن والے جواب پر غور کرنے لگ گیا۔ مجھے لگا جیسے معاذ کی بات زیادہ غلط نہیں تھی۔
معاً میری کیفیت بدل گئی۔ میں فینٹسی کو حقیقت سمجھنے لگا۔ شعروادب کے ساتھ تعلق پرانا ہے سو جذبات اور دل کے ساتھ بھی اُتنا ہی پراناہے۔ کیفیت بدلی، نہ کہ سوچ یا دماغ نے کوئی عقلی کارنامہ دکھانا شروع کیا۔ ایک کیفیت جو فقط دل اور جذبات کی وجہ سے نمودار ہوسکتی تھی۔
اسی کیفیت میں مَیں تھا کہ مجھے خیال آیا، ’’اگر ہمارے آس پاس ایسے لوگ موجود ہوں جو مستقبل سے وارد ہوئے ہوں لیکن اپنی یاداشت کھوچکے ہوں اور ہمارے ساتھ رہ رہے ہوں تو ہم ان کی بعض حرکات و سکنات، ان کے دے جاوُوز، اُن کے الہامی علم اور ان کے پاس موجود بعض بظاہر لایعنی ’’کوڈز‘‘ کی مدد سے ایک خالصتاً غیر سائنسی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ مستبقل سے وارد ہوئے ہونگے۔
اس پر مستزاد اگر مستقبل سے بھیجنے والوں کا طریقۂ کار ہی ایسا ہو کہ نمودار ہونے والا شخص نئے سرے سے پیدا ہو اور سب لوگوں کے درمیان بڑا ہو اور پھر عمر کے کسی حصے میں اُسے کبھی نہ سمجھ میں آنے والے طریقوں سے مختلف کوڈز موصول ہوتے رہیں اور وہ عمر بھر انہیں سمجھنے کی کوشش کرتارہے۔ تو کامیاب کوشش والا شخص جان بھی سکتاہے کہ وہ مستقبل سے وارد ہوا ہے لیکن ناکام کوشش والے شخص کو ہم پاگل کہہ کر پاگل خانے میں بھی ڈال سکتے ہیں۔
پھر اس پر بھی مستزاد اگر وہ نئے سرے سے پیدا نہ ہو لیکن مستقبل سے بھیجنے والوں کا طریقہ کار ہی یہ ہو کہ جب بھی کوئی مستقبل سے ماضی میں وارد ہوگا تو وہ پہلے سے موجود کسی شخص کے ذہن میں کچھ ایسے غیر محسوس طریقے سے داخل ہوجائے گا کہ پہلا والا شخص موجود نہ رہے اور نیا وارد ہونے والا اس کے اندر سما جائے۔ تو ایسی صورت میں بھی اس کا انجام یا تو پاگل خانہ ہوگا اور یا پھر وہ اگر اُن کوڈز کو سمجھ لیتاہے تو ضرور کوئی بڑا آدمی بن کر ظاہر ہوگا۔
یہ ساری باتیں نہایت غیر سائنسی ہیں۔ دراصل جن لوگوں نے مشکل فوکو کو پڑھاہے وہ جانتے ہیں کہ فوکو سائنسی ایجادات کے عروج سے بہت پہلے مجذوبوں اور مجنونوں کی زندگیوں کے ساتھ ہمارے سلوک سے اسی لیے مطمئن نہیں رہتا تھا کہ بقول اس کے یہ لوگ مختلف ہیں، نہ کہ مجنون۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“