(Last Updated On: )
کچھ دنوں تک یہاں وہاں ہم تھے
اب کِسے یاد ہے کہاں ہم تھے
کون تھا ہم کو جاننے والا؟
آپ اپنے لیے گماں ہم تھے
یعنی اپنے عدم سے تھے موجود
نیستی نام تھا! نشاں ہم تھے
دم بخود تھی چراغِ ہست کی لَو
روشنی تھے کبھی دھؤاں ہم تھے
داستاں میں کوئی حقیقت تھی؟
یا حقیقت میں داستاں ہم تھے
کام رکھتے تھے بے ثباتی سے
رائگانی کو رائگاں ہم تھے
عمر گزری کہ سینہ چاک ہیں ہم
عمر گزری کہ نوجواں ہم تھے
زندگی تھی کنارِ دریا پر
اور کناروں کے درمیاں ہم تھے
آپ نوحہ تھے، آپ نوحہ گر
آپ ہی آنکھ سے رواں ہم تھے
ایک جانب کھُلے کھُلے بازار
ایک جانب کشاں کشاں ہم تھے
اپنی خلوت تھی، اپنا پردہ تھا
میہماں ہم تھے، میزباں ہم تھے
بار ہو کر زمیں کے شانے پر
اپنی جانب رواں دواں ہم تھے
سب نے دیکھا کہ رزقِ خاک ہوئے
کون سمجھا کہ آسماں ہم تھے