::: کچھ " سیاقیت " {Contextualism} کے تنقیدی نظرئیے پر بنیادی باتیں اور چند سوالات " :::
شاید یہ مغرب میں تو یہ نظریہ " خشک" طبعیت و مزاج کا ہے مگر اردو میں تو خشک ترین ہے۔ اس پر اردو ادب و لسان کے ناقدیں اور اہل فکر شاید ھی بات کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ نظریہ " نئی تنقید سے اخذ ہوا ہے اور اسی کی چھلنی سے چھن کر باہر آیا ھے۔ جو تفھیمات سے لے کر متن فہمی کے میدان کا احاطہ کرتا ہے۔ کی تحدیدات میں مباحث کرتا نظر آتا ہے۔ سیاقیت ادبی نقد کا تو میدان ہے نکگر فنوں لطیفہ، علامتی شعریات ، شاعرانہ بحو اوزن و آہنگ ، ادبی نظریات اور جمالیاتی تجربات کو کوضوعات کے اپنے مزاج کے تحت اپنے دائرہ آگہی اور ارراک میں لاتا ہے۔ سیاقیت کے فکریات کی اساس نئی تنقید میں پوشیدہ ہے۔ مرے کریکر اور الہیوووس نے ادبی متن کت ضمن میں سیاقی تنقید اور سیاقیت کا نطریہ اور مناجیات پر بہت مفید مباحث کی ہے۔ مرے کریگر نے 1956 میں اپنی کتاب NEW APOLOGISTS FOR POETRY میں ساقیایت کی اصلاح کو استعمال کیا ہے۔ وہ شعری فن پارے کو ایک خود کفیل اور قائم بالذات ہستی کے طور پر اخذ کرتے ہیں۔ ان کا موقف کت ۔۔۔" ایک سیاق وہ ہوتا ہے جیسے خود کار سعری سیاق کہنا چاہیے، اس کی نوعیت اس سیاق سے بالکل جداگانہ نوعیت کا ہوتا ہے۔ جیسے وہ غیر شاعرانہ سیاقات کا نام دیتے ہیں۔ جو خارجی حقیقت کے حوالوں کر مبنی ہوتے ہیں۔ "۔۔۔ تقریابا " نِئی تنقید" کا بھی قریب قریب ایسا ایسا ہی مزاج ہے۔
جدید تنقیدی نظرئے میں سیاقیت کی اصطلاح "قابلیت" اصطلاح تصور کی جاتی ہے جس کو مختلف فلسفیانہ نظریات کو مسترد کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے. مجرد طور پر علمیات{ epistemology} کے بطن میں، دو نظریات کے وسیع اقسام کا تقابل کیا جاتا ہے ہییں اور ان کا موازنہ کرنے والوں کو سیاق دان {"contextualist"} کہا جا تا ہے۔ جوموضوع کے سیاق اور خصوصیات کو اجاگر کرتا ہے۔
"سیاقیت" ادبی تنقید کا ایک مکتبہ فکر ہے جو اپنا کام خود مختار ادارے کے طور پر کام کرتا ہے، جس میں تخلیق اور انتقادات کی فطانت اور ذہانت کو تجزیات کے پیرائے میں لاکر اسے کسی نتیجے پر پہنچنے کی سعی کی جاتی ہے۔ جو بذات خود ایک امتحان ہوتا ہے۔ سیاقیت کے فلسفہ میں خیالات کے ایک مجموعہ کی وضاحت کرتا ہے جو سیاق پر زور دیتا ہے جس میں ایک کارروائی، بیان، یا اظہار ہوتا ہے، اور اس بات کا استدلال کرتا ہے کہ، کچھ اہم احترام میں، کارروائی، بیانیہ، یا اظہار صرف اس سیاق و سباق سے متعلق سمجھا جا سکتا ہے. سیاقیت پسند وں کہ خیال ہے کہ فلسفیانہ متنازعہ نظریات، جیسے "معنی پی"، "جاننے والے پی"، "A کی وجہ ہے"، اور ممکنہ طور پر یہاں تک کہ "سچا" یا "صحیح" ہونے کا حق صرف ایک خاص سیاق و نسب سے تعلق رکھتا ہے. بعض فلسفیوں کا خیال ہے کہ انحصار سے متعلق انحصار رشتہ داریت کا باعث بن سکتا ہے؛ اس کے باوجود، سیاق پسندی اپنے خیالات میں فلسفہ کے اندر تیزی سے مقبول ہوتا رہا ہے
یہ ایک عام تصور ہے یہ دانشورانہ تاریخ کا سب سے بڑا مقصد سیاق و سباق کی تحدیدات میں رہ کرمتن، تخلیقات پر غور فکر کرتا ہے. لیکن ان فکری کاوشوں کامطلب اکثر معنی، علم اور عارضییت کی نوعیت سے ہوتا ہے۔ اس صارتحال میں میزبان کے طور پر علمیاتی { epistemological }کے اپنے مفادات اور عزائم ہوتے ہیں ۔ سیاقیت کچھ زیادہ قابل قدر فکریات کی قرات کرتا ہے جس کے تناظر میں، خاص طور پر مجموعی طور پر مفہوم کا اندازہ لگایا جاتا ہے، جس کے مطابق یہ ایک مناسب "فٹ" ہونے والا مظہر ہوتا ہے۔ جس میں "خیال" اور اس کی "عمر" کے درمیان سما جائے. یہ مجموعی اصول معنی کے " مقامی " نظریہ کو مضبوط اور توانا کرتا ہے اور تاریخی تناظر کی ایک بئی ابلاغیات کو فروغ دیتا ہے جو "حتمی" تصور کیا جاتا ہے، سیاقیت کی فکریات ہصرف مقامی شعبے کی حدود میں رہ کر مناسب معنوں کی تشریح کرتے ہیں۔ جو ان کی دانست میں اپنے اندر مناسب معنی کے حامل ہوتے ہیں۔ ہیں. ایک جائیزے کے مطابق، تاریخی تفہیم کے لئے یہ درمیان کے ایک پیمانے کے طور پر ایک قانونی کردار ادا کرتے ہیں ،
موجودہ ادبی آفاق کی نوعیت میں ایک رجحان ساقیت کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور ساتھ ساتھ اس کے متبادل تاریخی، فکری اور ساختیاتی طریقوں اور مناجہیات سے نئے آفاق تلاش کئے جارہے ہیں۔
میرے زہن میں اس سلسلے میں سوالات اور چند نکات ہیں۔ اس پر بات ہوجائے تو بہتر ہے اور اردو میں فکر اور نظر کے نئے دروازے کھلیں۔
۱۔ کیا امریکی کی" زیراثر نئی تنقید" کے زیر اثر نظریاتی حوالے سے سیاقیت، ہیت پسندی اور معروضی تحریکوں کو استعمال کرکے شاعرانہ حوالے سے مخاطبے کو دیگر ہیتوں سے علیحدہ کردیا گیا اور خودمختار معروض کے متعلقات کو ابھارہ جاتا ھے؟
۲۔ کیا " سیاقیت " میں الفاظ کا متنی سیاق خلق کرتا ھَے؟
۳۔ کیا یہ فنکارانہ عمل ہے؟ یا اپنے سیاق میں اس کا ردعمل ہے؟ جو ایک جمالیاتی 'معروض ' ہونے کے ساتھ موضوعی بھی ہوتا ہے۔
۴۔ کیا سیاقیات میں متنی حسیت، فراریت، عمیق مسائل، اور معجزیاتی تناقص کے تنقیدی تصورات سے بھرے ہوتے ہیں؟
۵۔ کیا سیاقیت میں متن کی توجحیات اور لسانی مخاطبے کا معنیاتی اظہاریہ ہے؟
۶۔ کیا عبد الرحمان بجنوری کی جمالیاتی اور تاثراتی تنقید کو " سیاقیت " کے زمرے میں رکھا جاسکتا ھے؟
۷۔ آپ کے خیال میں اردو کے وہ کونسے کون سے نقادان ہیں جو " سیاقیت کو سمجھتے ہیں اور انھوں نے "سیاقیت" کے حوالے سے لکھا ہے؟
۸۔ کیا "ردتّشکیل " کے نظرئیے میں " سیاقیت "کا عکس ملتا ہے؟
۔۔۔۔۔ دوستوں کو دعوت شیراز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔