زمین میں ایک دوسرے سے مل کر چلتے پانچ الگ سسٹم ہیں۔ چٹانیں، فضا، سمندر، برف اور زندگی۔ ہر ایک کا اپنا ردھم اور اپنی ورائٹی۔ ان پر غور کریں تو یہ ایک ہمہ وقت جاری رہنے والے باہم رقص کا نتیجہ ہے۔ وہی فورسز اور وہی پیٹرن۔ اگر نہ دکھنے والے فضائی کرے کا جائزہ کیا جائے تو ہوا کے پیکٹ اپنی جگہ اچھال کی قوت کے زیر اثر بدل رہے ہیں، عمارتوں سے ٹکرا کر گرم ہونے والی ہوا اوپر کو اٹھ رہی ہے اور اس کی جگہ لینے سرد ہوا نیچے کو آ رہی ہے۔ اگر ہم یہ دیکھ سکتے تو ہمیں گرم زمین کے اوپر کئی میل اونچے کالم نظر آتے۔ پانچ منٹ میں ایک میل پار کرتی ہوا سے بنے۔ ہوا کبھی بھی ساکن نہیں رہتی۔
اگر ہم گہرے سمندر میں دیکھیں تو وہاں پر بھی ایسا ہی نظر آئے گا۔ شمالی بحر اوقیانوس سے سرد اور نمکین پانی سمندر کی گہرائی میں ڈوب کر خط استوا کی طرف آتا ہوا۔ یہ سمندر کی تہہ پر پہنچ کر ایک سمت میں لڑھکنا شروع کر دے گا۔ گرم اور کم نمکین پانی کے ساتھ ملکر اوپر آنا شروع کر دے گا۔ آسمان میں ہوا کا چکر بھی ایسا ہی ہے۔ سمندر میں ایک چکر چار ہزار سال میں مکمل ہوتا ہے اور آدھی زمین کا چکر لگا لیتا ہے۔ ہوا کا چکر اوپر سے نیچے آنے میں چند گھنٹے لیتا ہے۔
ہمارے پاؤں تلے زمین بھی ساکن نہیں۔ زمین کی سطح کے نیچے اور کور سے اوپر مینٹل ہے۔ زمین کا بڑا حصہ یہی ہے۔ یہ گاڑھا اور سست رفتار مائع ہے۔ اندر کی کور اور ریڈیو ایکٹیویٹی اس کو گرم کرتی ہے۔ کور جس کو گرم کرتی ہے، وہ اچھال کی وجہ سے اوپر آنا شروع کر دیتا ہے اور اوپر سے ٹھنڈا ہو جانے والا نیچے کو۔ لیکن اس درجہ حرارت اور پریشر پر یہ چٹانیں حرکت میں وقت لیتی ہیں۔ ہمارے پاؤں سے بہت نیچے یہ ایک برس میں ایک انچ کا تین چوتھائی حصہ سفر کریں گی۔ پورا چکر پانچ کروڑ برس میں۔ لیکن زمین کے اندر کی فزکس بالکل وہی ہے جو سمندر کے پانی کی یا ہوا کی۔
زمین کے اندر سے توانائی کی بھاری مقدار باہر کو آ رہی ہے۔ لیکن یہ اس مقدار کے سامنے کچھ بھی نہیں جو سورج سے زمین کو پہنچ رہی ہے۔ زمین میں طرح طرح کا سبزہ ہے۔ کسی اینٹ پر جمی کائی کی شکل میں یا گھنے جنگل کی صورت میں۔ ہر پتہ کلوروفل سے بھرے خلیوں کا سپورٹ سٹرکچر ہے۔ ہر خلیہ ایک ننھی منی سی فیکٹری جو اس دھوپ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مدد سے شوگر اور آکسیجن بنا رہا ہے۔ اس آنے والی دھوپ کے سیلاب کی توانائی کا ایک چھوٹا سا حصہ یہ پتہ چرا کر اپنے پاس ذخیرہ کر لیتا ہے۔ ایک پرسکون اور روشن دن میں ایک میدان جو ساکن لگتا ہے، ساکن نہیں۔ اس میں یہ ان گنت فیکٹریاں مسلسل چل رہی ہیں۔ ہوا میں اکیس فیصد آکسیجن ہے۔ ایک وقت میں ایک مالیکیول کر کے یہ اس آکسیجن کو دوبارہ بنا رہی ہیں جو دوسری زندگی استعمال کر لیتی ہے۔ کروڑوں درختوں، جھاڑیوں، گھاس، کائی، الجی اور ہر قسم کا یہ سبزہ یہ کام زمانوں سے کر رہا ہے۔ آکسیجن اس سبز فوج کا مال غنیمت ہے۔
ان اور اس طرح کے چلتے کئی چکروں کے بیچ میں ہم اس زمین کے ایک بڑے محدود سے حصے پر خشکی کی کرسٹ کے اوپر، اپنے لئے موافق ماحول میں ان چکروں کی وجہ سے اپنی زندگی کا رشتہ برقرار رکھے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔