کچھ اول فول اور ایک بلاگ کی خبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرصہ دراز سے چند دوست کہہ رہے تھے کہ اپنا ’’بلاگ‘‘ بنائیں۔ میں نے کبھی اس مشورے کو سنجیدہ نہ لیا تھا۔ گزشتہ دنوں جب مختلف اردو ویب سائیٹس میدان میں آئیں تو ویسے بھی بلاگ کی ضرورت نہ رہی ۔ لیکن اب میرے ایک سٹوڈینٹ نے بڑی محنت سے میرے لیے بلاگ بنایا ہے۔ یعنی آئندہ میں اپنے مضامین اور ناولوں کی اقساط اُس بلاگ پر نشرکیا کرونگا۔ ظاہر ہے پوسٹ کا لنک یہاں فیس بک پر بھی شیئر کرونگا۔
علاوہ بریں شاہد اعوان صاحب غالباً دانش ڈاٹ کام کے نام سے ایک ویب سائیٹ لانچ کرنے والے ہیں۔ ان کا ارادہ ہے کہ وہ ویڈیو لاگ بھی بنائیں گے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں اُس ویڈیو لاگ کی ابتدائی ویڈیوز بھی دوں؟ اس لیے ارادہ ہے کہ بعض اہم موضوعات پر کانسیپٹس کلیئر کرتی ہوئی کچھ ویڈیوز بھی بناؤنگا۔
کتاب محل والے فحد بھائی نے گزشتہ دنوں فلاسفی کا جو ابتدائی کورس شائع کیا وہ کتاب انگلش میں ہونے کے باوجود دوستوں نے بہت پسند کی۔ دوستوں کا شکریہ! اب آسان اردو میں فزکس کی کتاب آیا چاہتی ہے۔ فحد بھائی! نے انگلش کی کتاب لیتے وقت کہا تھا،
’’ادریس بھائی! انگریزی کی کتاب اور وہ بھی فلسفہ میں کون پڑھتاہے؟ میں یہ کتاب اِس لیے چھاپ رہاہوں کہ آپ مجھے اپنی اگلی اردو کی کتاب بھی دینگے‘‘
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے مرشد‘‘
اب صورتحال یہ ہے کہ شاہد بھائی بھی جگری دوست ہیں اور ان سے بھی کہہ رکھا تھا کہ آپ کو دونگا فزکس والی کتاب۔ اس کے علاوہ اکیڈمی آف لیٹرز میں ’’سہ ماہی ادبیات‘‘ کے مدیر جناب اختررضا سلیمی جب اپنا مشہور ناول ’’جاگے ہیں خواب سے‘‘ لکھ رہے تھے تو اکثر ٹائم اینڈ سپیس پر میرے ساتھ لمبی لمبی گفتگوئیں فرمایا کرتے۔ انہی دنوں انہوں نے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے موجودہ ڈی جی ڈاکٹرانعام الحق جاوید سے میری جدید فزکس والی کتاب کے بارے میں بات کی۔ تب ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے بھی عندیہ دیا کہ ٹھیک ہے، نیشنل بک فاؤنڈیشن‘‘ یہ کتاب شائع کریگی۔ چنانچہ ابھی تک مجھے خود ٹھیک سے معلوم نہیں کہ یہ کتاب کس پبلشر کے پاس جائے گی۔ زیادہ چانسز یہ ہیں کہ فحد بھائی لے جائینگےکیونکہ انہوں نے انگلش والی کتاب کی اشاعت اِس کے ساتھ مشروط کردی تھی اور یوں ایک طرح سے، مجھ سے وعدہ لے لیا تھا۔
ایک زمانہ تھا جب میں کتابیں لکھا کرتا تھا تو پبلشرز مجھے پیسے دیا کرتے تھے۔ تب میں سوچا کرتا تھا کہ جب زیادہ بڑا رائٹر بن جاؤنگا تو اور زیادہ پیسے ملا کرینگے۔ اردو بازار لاہور کے پبلشرز نے میری اکیس کتابیں شائع کیں اور ایک کتاب سرگودھا سے شائع ہوئی۔ لیکن پھر ہوا یوں کہ میں نے دوہزار سات میں مکتبہ القریش والے محمد علی قریشی صاحب سے ناراض ہوکر اور پبلشروں کے خلاف ایک نہایت ’’دردناک نظم‘‘ لکھ کر، پبلشروں کو کتابیں دینا بند کردیا۔ ناراضی کی وجہ پیسے نہ تھے، دراصل محمدعلی قریشی صاحب نے مجھ سے اجازت لیے بغیر کتاب میں سے دس بارہ صفحات نکال دیے تھے جو عورت کی حکمرانی کے حق میں تھے۔
دوہزار سات میں میرا آخری ناول ’’قرطاجنہ‘‘ آیا تھا۔ یہ وہی ناول ہے جس کی قسطیں میں اپنے نئے بلاگ پر شائع کرنے کا ارادہ رکھتاہوں۔ خیر ان دنوں ہاتھ بھی تنگ تھا اور پبلشرز بھی بہت دُکھ دیتے تھے اور اتفاق سے سید نذیر نیازی کو لکھے گئے اقبال کے ایک خط میں یہ بھی پڑھ لیا تھا کہ،
’’میں لاہور کے پبلشروں سے بہت تنگ ہوں‘‘
پھراقبال نے تفصیل سے لکھا کہ وہ کیوں تنگ ہیں اور آخر میں لکھا کہ،
’’اس بار ارادہ کیا ہے کہ پیامِ مشرق خود شائع کرواؤنگا‘‘
لیکن دوہزار سات میں میں نے جو سلسلہ روکا یعنی کتابیں پبلشرز کو دینے کا سلسلہ، اب جب دوہزار سولہ میں، نوسال بعد وہ سلسلہ دوبارہ شروع کرنا چاہا تو معلوم ہوا کہ میرے زمانے میں پبلشر جو پیسے رائٹرز کو دیا کرتے تھے، اب وہ بھی نہیں دیتے۔ مجھے اپنے زمانے میں مکتبہ اسلامیہ والے کی بات یاد آتی ہے۔ جب وہ فخر سے سینہ تان کر کہا کرتا،
’’میں وہ پبلشر ہوں جس نے کسی رائٹر کا آج تک پیسے نہیں دیے! میرا ریکارڈ ہے، میں رائٹرز کو ایک دھیلا بھی نہیں دیتا‘‘
تو میں حیران ہوکر اسے تکا کرتا تھا۔ خیر! پتہ ہی نہ چلا اور دنیا کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی۔ بھلا کہاں سے کہاں پہنچ گئی؟ اچھا سنیے! کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی۔
ایک دفعہ سعداللہ شاہ بیٹھے ہوئے، میرے پبلشر کے پاس، کہ ایک خاتون تشریف لائیں اور فرمانے لگیں،
’’جی ہم نے گھر میں جو شیلف کتابوں کے لیے بنوائے ہیں وہ ذرا بڑے بن گئے ہیں۔ کیا آپ کے پاس ایسی کتابیں ہونگی جو سائز میں بڑی ہوں تاکہ ہم اُن میں رکھ سکیں؟‘‘
سعداللہ شاہ نے یہ سن کر جواب دیا، ’’آپ اٹلس خرید لیں۔ وہی اس سائز کے شیلفوں میں فِٹ آئینگے‘‘۔
اچھا ایک اور سنیے!
اُن دنوں لاہور اردو بازار میں میرا آنا جانا بہت تھا۔ ایک دن ایک پبلشر کی دکان پر گیا تو کیا دیکھا کہ وہ دکان سے سامان نکال رہا تھا۔ میں نے پوچھا، ’’کیا ہوا جناب؟ دکان کیوں خالی کررہے ہیں؟‘‘ فرمانے لگے، ’’کتابیں نہیں بکتیں یار! اب فیصلہ کیا ہے کہ جوتوں کی دکان کھول لوں‘‘۔ مجھے شدید دھچکا لگا۔ ایک بُک ہاؤس کو بُوٹ ہاؤس میں تبدیل ہوتا دیکھ کر جو مجھ پر گزری وہ میں ہی جانتاہوں۔ گزشتہ دنوں کسی پنجابی شاعر کا ایک شعر نظر سے گزرا،
اے بزار کاہدا اے جیدیاں دکاناں تے
ناں کتاب وِکدی اے ناں شراب وکدی اے
خیر! بات لمبی ہورہی ہے۔ سو میں نے اب جب دوبارہ پبلشرز کو کتب دینا شروع کیں تو معلوم ہوا کہ اب تو پہلے سے بھی حالت، دگرگوں ہوچکی ہے۔ اب الٹا مصنف، پبلشر کو پیسے دے کر، اپنی کتاب چھپوا کر تقسیم کرتاہے۔ یہ تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکرہوا کہ میری مالی حالت بدل گئی اور مجھے پبلشرز سے پیسوں کی ضرورت ہی نہ رہی ورنہ اگر وہی حالت رہتی اور میرا ذریعہ آمدن صرف قلم ہوتا تو یقیناً آج میرے بچے ورکشاپوں میں چائلڈ لیبر کررہے ہوتے۔
اتنا لمبا مضمون لکھ دیا حالانکہ سنانا، اپنے قارئین کو صرف دو خوشخبریاں چاہتا تھا،
۱۔ میرا بلاگ عنقریب آیا چاہتاہے۔
۲۲۔ جدید فزکس پر آسان اردو میں میری کتاب جلد آرہی ہے۔
شکریہ
https://www.facebook.com/idreesazaad/posts/10208764593339070
“