معاملہ جبر و قدر کا نہیں مگر معاملہ جبر و قدر کا ہے بھی۔ میں اجبار کا شکار یا مقدر کے مارے غریب لوگوں کو دکھی دیکھ نہیں سکتا، ویسے تو میں خود بھی بالکل نہ امیر ہوں اور نہ خوشحال۔ میں کیا میرے بڑے بھائی بھی بس سفید پوش ہیں۔ شروع سے خوشحالی بھی دیکھی، بدحالی بھی مگر معاملہ سفید پوشی پر آ کے ٹک گیا۔
فلموں میں مسائل تو امراء کے بھی ہوتے ہیں اور خاصے گمبھیر بھی، ویسے عام زندگی میں بھی میں نے کئی اچھے خاصے خوشحال بلکہ باقاعدہ امیر لوگ دیکھے ہیں جو بظاہر بڑی بھرپور زندگی گذار رہے ہوتے ہیں مگر جب ان کی زندگی کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ تو بالکل ہی تنہا ہیں اور اندر سے ٹوٹے ہوئے۔ ان کا شراب نوشی یا کسی اور نشہ کی جانب رجحان یا بہت زیادہ مذہبی ہونا یا اپنے کہے کو اٹل سمجھنا، خود کو عقل کُل تصور کرنا سمجھ آ جاتا ہے۔ مگر فلموں میں غریب اور خوددار لوگوں کے مسئلے دیکھ کر دل بھر آتا ہے۔ لگتا ہے میں ایسے معاشرے میں زیادہ دیر نہیں رہ سکتا جہاں غریب بے تحاشا ہوں اور خوشحال کم۔
میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں روس میں رہتا ہوں ،جہاں معیار زندگی کوئی اتنا بلند نہیں ہے مگر ننگی غربت بھی بہت زیادہ عیاں نہیں ہے۔ کسی بڑھیا کا ایک مالٹا خریدنا میرا دل تو توڑتا ہے مگر مجھ جیسے بھی ایک نہیں تو دو کلو خرید لیتے ہونگے جس میں آٹھ یا نو چڑھتے ہونگے۔ لوگ چیزوں کو ٹکر ٹکر دیکھتے یا کوڑے میں پڑے خوراک کے سامان سے چنتے دکھائی نہیں دیتے، جیسے یہاں دکھائی دے جاتے ہیں۔
تو معاملات کچھ اور طرح کیوں نہیں ہو جاتے؟ جیسے میں ڈاکٹر بنا بلکہ ماں کی خواہش اور بھائی کے حکم کے تحت بنا، جبکہ مجھے دسویں سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ تو میں نے ایف ایس سی سے بغاوت کیوں نہ کر دی؟ روزنامہ امروز کے سنڈے ایڈیشن میں ویسے ہی لکھنے لگا تھا، کوشش کرتا تو اسی اخبار میں اپرنٹس کی جاب تو مل ہی جاتی۔ تعلیم کے اخراجات اٹھا سکتا تھا، ہوسٹل کا خرچ بھی پورا کر ہی لیتا۔ صحافی بن جاتا۔ مگر ایسا نہ ہوا، جب میں نے سویرا کے سابق مدیر صلاح الدین صاحب سے جو خود بڑے انجینئر اور ایک بڑی انجینئرنگ فرم ہارزا انٹرنیشنل کے سربراہ تھے، سے گلہ کیا کہ مجھے ماں اور بھائی نے زبردستی ڈاکٹر بنا دیا تو انہوں نے کہا بہت اچھا کیا، لکھنے سے پیٹ تھوڑا نہ بھرتا ہے۔
مگر ڈاکٹر ہونے سے بھی میں نے کتنی دیر پیٹ بھرا ہوگا، کوئی سات آٹھ سال۔ لکھ کے ہی پیٹ بھرا اور اب تک اسی سے جو کمایا وہ خرچ کر رہا ہوں بلکہ کچھ نہ کچھ اب بھی لکھ کے ہی کما رہا ہوں۔ کیا میں نے ڈاکٹر بن کے اپنے علم کو ضائع نہیں کیا؟ مگر میرے وہ دوست جو ڈاکٹر ہیں اور بڑے ڈاکٹر ہیں، خوب کمانے والے ڈاکٹر ہیں ، کچھ بہت بڑے طبی عہدوں پر رہے، ایک دو اب تک عہدہ دار ہیں ، کہتے ہیں کہ تم عظیم ہو، تم خالص زندگی بسر کر رہے ہو۔
یہ تو درست ہے کہ کوئی داغ ندامت نہیں ہے۔ کیا پتہ معاملہ کچھ اور طرح ہوتا تو کہیں مجھ پہ بہت بڑا داغ ندامت ہوتا ۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ اور طرح ہوتا تو سفید پوش بھی نہ رہ پاتا۔ ہو سکتا ہے کہ معروف ہو جاتا تو بہت کمانے کی لت لگ جاتی، کوٹھی تعمیر کرنے، کاریں خریدنے اور بچے پڑھانے کے لیے ضمیر گروی رکھ دیتا اور بنا پھرتا کہ مجھ سے بڑا باغیرت اور باضمیر شخص کوئی نہیں جو نہ بکا نہ جھکا حالانکہ ایسا ہو چکا ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ مجھے فائلیں مل جایا کرتیں اور میں کرپشن کو فاش کرنے کے دھندے پہ لگا دیا جاتا۔ اسی طرح کا اور بہت کچھ بھی تو ہو سکتا تھا چنانچہ جیسا ہوا ویسا ہی ہونا تھا اور مجھے یہی لکھ کے اسے سوشل میڈیا اور مین میڈیا میں آپ کے پڑھنے کو پیش کرنا تھا۔