1۔ زمین پر ہر طرف ہاتھی کیوں نہیں؟
2۔ شیر چوہے کیوں نہیں شکار کرتا؟
3۔ خرگوش اڑتے کیوں نہیں؟
4۔ کیا ذہین مشینیں فکشن فلوں کی طرز پر ہمیں ختم کر کے زمین پر قبضہ کر لیں گی؟
5۔ ہمارا ڈی این اے ایک خورد بینی کیڑے پیرامیشئم سے بھی سادہ کیوں ہے؟
6۔ انسان کیسے باقی انواع سے ممتاز ہے؟
7۔ کیا آپ کے کمرے میں بھوت پریت بستے ہیں؟
ان بظاہر مختلف لگنے والے سوالوں کا جواب ایک ہی ہے اور وہ ہے زندگی اور توانائی کا رشتہ۔ اس کے لئے پہلے سوال کا جواب تفصیل سے۔
ہاتھی خشکی کا سب سے بڑا جانور ہے۔ اس کے سائز کے وجہ سے کوئی ایسا جانور نہیں جو ہاتھی کو شکار کرتا ہو۔ ایک ہاتھی کی اوسط عمر ستر سال ہے۔ ہتھنی کا ایک حمل بائیس ماہ کا ہے۔ بیس سے پچاس سال کی عمر کے بیچ ایک ہتھنی زندگی میں اوسطا چھ بچے پیدا کرتی ہے۔ اگر حساب لگائیں تو ایک جوڑے سے شروع ہو کر ہاتھیوں کی آبادی کا وزن ساڑھے سات سو برس میں زمین کے وزن جتنا ہو جائے گا۔ لیکن دنیا میں ہر طرف ہاتھی کیوں نہیں؟
ای کولی بیکٹیریا جو ہماری آنتوں میں رہتا ہے، اس کا وزن ایک ملی گرام کا ایک اربواں حصہ ہے۔ یہ ہر بیس منٹ کے بعد دو میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اگر یہ اسی طرح تقسیم ہوتا رہے تو تین روز میں ان کی آبادی کا وزن زمین جتنا ہو جائے گا۔ ہر طرف ای کولی بیکٹیریا کیوں نہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ زندگی کی کرنسی توانائی ہے جو زندگی کو ریگولیٹ کرتی ہے اور زندگی میں یہ توانائی خوراک کی زنجیروں میں چلتی ہے۔ کسی جاندار کی تعداد کتنی ہو گی اس کا اںحصار اس پر ہے کہ اس کے بڑھنے کے لئے کتنی توانائی (خوراک) موجود ہے اور دوسرا یہ کہ وہ خود کتنے اور جانداروں کی توانائی کا ذریعہ ہے۔
اگر ساتھ لگی تصویر دیکھ لیں تو وہ ایک ایکوسسٹم کے ممالیہ جانوروں کی ریگولیشن پر ہے۔ جتنا جس کا سائز بڑا ہے، اس کی تعداد کا انحصار اس پر ہے کہ کتنی خوراک موجود ہے اور چھوٹے جانداروں کا اںحصار اس پر ہے کہ ان کے شکاری کتنے ہیں۔ ان سے ملکر کسی ایکوسسٹم میں جانداروں کی تعداد ریگولیٹ ہوتی ہے۔
ایک بار یہ توانائی کا یہ اصول سمجھ آ گیا تو نہ صرف ان کے بلکہ اور بھی بہت سے سوالوں کے جواب خود ہی مل جاتے ہیں، اس لئے باقی سوالات کے جواب بالکل اختصار کے ساتھ
2۔ شیر کی توانائی کی ضروریات اتنی ہیں کہ اسے بڑے جانوروں کا شکار کرنا ہے۔ وہ جن کا وزن بیس کلو سے زیادہ ہو۔ چھوٹے جانوروں کو شکار کرنا اس کی توانائی کی ضروریات کو پورا نہیں کرتا اس لئے شیر اس میں وقت ضائع نہیں کرتا۔
3۔ اڑنے کا عمل، اس کے اعضاء اور ان کو برقرار رکھنا توانائی مانگتا ہے۔
4۔ جب تک کہ یہ توانائی کی ضرورت آزادانہ خود پوری نہیں کر سکتیں جس کا کم از کم مستقبل قریب میں کوئی امکان نہیں (اگر کوئی فکشن فلم میٹرکس کی طرف اشارہ کرے جس میں یہ مشینیں توانائی انسانوں سے حاصل کرتی تھیں تو اس میں مسئلہ یہ کہ ان انسانوں کو بھی توانائی چاہیۓ)۔
5۔ اگر ہمارا ڈی این اے پیرامیشیئم جتنا ہوتا تو ہماری توانائی کی ضروریات بہت زیادہ ہوتیں۔ چھوٹی زندگی میں یہ پیچدگی ممکن ہے، پیچیدہ جاندار میں نہیں۔
6۔ توانائی کو قابو کر کے۔ جتنی توانائی ہم اپنی زندگی کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے استعمال کرتے ہیں، اس سے بیس گنا دوسری چیزوں پر۔ بطور ایک نوع کے ذہانت کی یہ معروضی تعریف ہے جو ہمیں باقی انواع سے ممتاز کرتی ہے۔ زراعت اس امتیاز کی طرف بہت بڑا قدم تھا۔
7۔ کسی کو بھی حرکت کرنے کے لئے توانائی چاہیۓ اور پھر اس توانائی کو ذخیرہ کرنے کی جگہ تا کہ وہ مسلسل استعمال ہو سکے۔ اس کے بغیر زندگی نہیں (اس اصول کے بغیر آپ کا موبائل فون بھی نہیں چلتا)۔ بغیر توانائی حاصل کرنے اور اس کو ذخیرہ کرنے کے طریقے کے کسی چیز کے لئے حرکت ممکن نہیں۔ زمین کی سطح پر یہ توانائی کا ذریعہ صرف سورج سے ہے۔ اگر آپ کے کمرے کا بھوت سورج سے توانائی لے کر اس کو ذخیرہ کر کے اسے استعمال نہیں کر سکتا تو پھر فزکس کے اصولوں کے تحت اس کا ہونا صرف اس وقت ممکن ہے اگر وہ حرکت نہیں کر سکتا، آواز نہیں نکال سکتا اور کوئی بھی دوسرا کام نہیں کر سکتا یعنی کہ وہ پھر شاید آپ کا ٹیڈی بئیر ہو۔
زندگی اور توانائی کے رشتے سے زندگی کے ارتقا کا ماڈل اور اس کی پیشگوئی کرنے کے بارے میں پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عزیز متھانی کا ریسرچ پیپر یہاں سے