کرشنا سوبتی چلی گیں . مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ وہ اس ماحول میں زندہ کیسے تھیں ..؟ .یہ ایک چھوٹا سا جملہ ہے .اگر آپ کرشنا سے ملے ہیں تو اس درد کی کیفیت کا سراغ مل سکتا ہے . اور نہیں ملے تو آپ اس درد کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ وہ زندہ کیسے تھیں . جیسے لاکھوں کروڑوں زندہ رہتے ہیں ، کرشنا سوبتی ان میں سے نہیں تھیں .اور کویی دوسرا کرشنا سوبتی ہو بھی نہیں سکتا ..وہ ایک چلتا پھرتا آتش دان تھیں …اس آتش دان کا ایک نام نظم بھی ہو سکتا ہے ،ناول بھی.. وہ نثر میں شاعری کرتی تھیں اور اپنے ارد گرد چھوٹے چھوٹے فلسفیانہ جملوں سے ایک کائنات تخلیق کر لیتی تھیں .انھیں دیکھتے ہوئے بھی اس بات کا احساس ہوتا تھا کہ آپ اپنے عھد کے اس عظیم مصور سے مل رہے ہیں ، جس نے ایک ملاقات میں ہی آپ کو کسی سادہ سے کینواس میں تبدیل کر دیا ہے ..اور کینواس پر لہو کے رنگوں سے جو تصویر ابھری ہے ، اس عظیم شاہکار میں حیات و ممات کے فلسفوں سے لے کر وہ زندگی بھی گردش کر رہی ہے ، جسکو خوفناک موسم تسلیم کرتے ہوئے آپ نے قبول تو کر لیا ہے مگر کرشنا آخری سانس تک قبول نہ کر سکیں . ..اس آتش دان میں ٢٠١٧ میں انہوں نے ایک کویتا لکھی — ویدک ہیں کرانتی .
ویدک ہے کرانتی
کرانتی بھارت میں / کرانتی نہیں ہے یہ / کویی غلط فہمی ہے
یہ مہان دھرنا ہے /ویدک کرانتی
گایوں کو بچاؤ / اور شہریوں کو مار ڈالو
دیوی دیوتاؤں کی یہی ہے آگیہ ( حکم )
خبردار / اسکی کویی نہ کرے نافرمانی /
جتنے پاپی ماروگے / اتنا اگلے جنم میں پھل پاؤ گے /
خوشحال زندگی کے لئے یہ ثواب ہے / جنم جنمانتر کے لئے
جو ویدک نظریات کے لئے کریگا یہ کرانتی /
اسے خوشحالی ملے گی / اگلے جنموں میں شانتی ہی شانتی /
اس ویدک یگیہ میں ساتھ دو /
ہندوتو کی کرانتی / ویدک ہے کرانتی /
کویی خوش فہمی نہیں ہے / اوم شانتی ..اوم شانتی /
اتنے اچھے دن
اس دیش میں پھر کب آئیں گے ؟
—- ( ١٧ فروری ٢٠١٧)
انکا ایک ناولٹ تھا — اے لڑکی ..یہ لڑکی اس وقت میری نظروں کے سامنے ہے .. یہ مختصر ہوتے ہوئے بھی ایک طویل داستان ہے موتکا انتظارکرتی ہوئی ایک بوڑھی عورت ..وہ زندگی کے آر پار دیکھ رہی ہے ..کویی ورق سادہ نہیں .ہزاروں کہانیاں یادوں کی فصیل پر پھیل جاتی ہیں . اس کہانی میں بوڑھی عورت کی پوری زندگی ہے .موت کی ساعت جیسے جیسے قریب آ رہی ہے ، وہ موت کے جشن کی تیاری کر رہی ہے . موت ایک بے خوف دعوت ہے کہ وہ اے اور لڑکی اس سے ملنے کے لئے تیار ہو .. موہ مایا ، یادیں ، زندگی کے بکھرے اوراق ، حوادث کے تجربوں کو کنارے کرتے ہوئے وہ ملنا نہیں چاہتی ، وہ اپنی تکمیل کے صفحوں پر دستخط کرتے ہوئے ملنے کی متلاشی ہے .اور وہ تب ملنا چاہتی ہیں ، جب بھیانک وقت اپنے سیاہ پنجوں کے ساتھ ہلاکت کی داستان قلمبند کر رہا ہوتا ہے . وہ ناولٹ ایک مکمل نظم ہے ، موت سے زندگی تک کے سفر کو جیسے کرشنا نے جیا ، وہ انکا ہی اسلوب اور انکا ہی تجربہ ہے . کرشنا کو یاد کرتے ہوئے مجھے بار بار وہ لڑکی یاد آ رہی ہے .وہ کرشنا نہیں تو کون تھی ..؟
2010 میں کرشنا سوبتی کو حکمت ہند نے سب سے بڑا اعزاز پدم وبھوشن دینے کے لئے اعلان کیا تو کرشنا سوبتی نے اس اعزاز کو بہت احترام کے ساتھ قبول کرنے سے انکار کر دیا. انکے پاس انکار کرنے کا بہتر جواز تھا .انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا – 'میں ایک بہت سادہ اور معمولی سی فنکار ہوں .. اور میں یقین رکھتی ہوں کہ دانشوروں کے پاس جو سوچنے کی طاقت ہے، اگر وہ اپنے ملک کے لوگوں کو اور حقیقت کو دیکھ سکتے ہیں، تو وہ اسے صحیح طریقے سے پڑھ بھی سکتے ہیں،انکا فرض ہے کہ وہ حکومتی اعزاز اور ایسٹیبلشمنٹ سے دور رہیں ..
٢٠٠٢ میں گجرات سے بھیانک آگ کی لپٹیں اٹھیں اور ساری دنیا میں پھیل گییں .گجرات پر میرے خیال سے سب سے زیادہ ہندی زبان میں لکھا گیا .اس درد کو جس انداز سے ہندی ادیبوں / شاعروں نے محسوس کیا ، اسکا اظہار بھی یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے .درد زندہ ہو گیا تھا .تقسیم وطن کی کہانیاں بوسیدہ اوراق سے باہر آ گیی تھیں ..اس درد کو کرشنا سوبتی نے بھی محسوس کیا .گجرات پاکستان سے گجرات ہندوستان ، ایک ایسی تخلیق ہے ، جہاں کرشنا سوبتی کے زخموں اور درد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ..گھر تقسیم کئے جانے پر اٹھنے والی دیواروں سے کس قدر اپنی آواز بےگاني ہوکر لوٹتی ہے ..؟. کس طرح پرائے ہو گئے اپنے ہی صحن کے حصے میں، وجود کا ایک حصہ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے … اور کس طرح کوئی اپنا پرایا ہو جاتا ہے ..کرشنا نے ٹوٹے خواب سجایے .. درد کی موسیقی کو آواز دی .اور '' گجرات پاکستان سے، گجرات ہندوستان میں سب کچھ لکھ دیا .جسے لکھنا آسان نہ تھا …
اس ناول کو شنا سوبتي کی سوانح عمری بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ کرشنا نے یہاں اپنی ذاتی زندگی سے بھی بہت کچھ استفادہ کیا ہے .تقسیم کے دوران اپنی جائے پیدائش گجرات اور لاہور کو چھوڑتے ہوئے کرشنا سوبتي کہتی ہیں، 'یاد رکھنا، ہم یہاں رہ گئے ہیں.' یہ یاد رکھنا ہی درد کی سوغات کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے. ایک گجرات وہ پاکستان میں چھوڑ آیی ہیں .ایک گجرات آگ کی لپٹوں کے ساتھ ہندوستان میں آباد ہے .کرشنا جب دہلی پہنچتی ہیں تو ہندوستان کا گجرات انہیں آواز دیتا ہے اور وہ پاکستان کے گجرات کو اپنے یادوں کے سرمایہ میں بھر لیتی ہیں …. . ناول کے ابتدائی حصے میں کرشنا سوبتي لکھتی ہیں، 'پلٹ کر ایک بار پھر ڈبڈباي آنکھوں سے ، ایک بار پھر اپنے کمرے کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں کہا ،' بہتی ہواؤ، یاد رکھنا ہم یہاں پر رہ چکے ہیں.
ہندوستان زندہ باد
پاکستان پائندہ باد
یہ آوازیں کیوں لاپتہ ہیں؟ آواز کانوں میں پگھل رہی ہے.. آگے دیکھو ..اس خواب کا پیچھا چھوڑ دو جو پراے ملک میں غائب ہوگیا ہے.( ناول سے )
کرشنا سوبتی ١٨ فروری انیس سو پچیس کو پیدا ہوئیں . ساہتیہ اکادمی اور گیان پیٹھ جیسے انعامات سے بھی نوازا گیا .زندگی نامہ ، دل و دانش ، اندھیرے کے سورج مکھی انکے مشہور ناول ہیں . ہم حشمت ،یادوں اور خاکوں کا حسین سنگم ہے .اس کے تینوں حصّے لاجواب ہیں . ڈار سے بچھڑے ، مترو مرجانی ، یاروں کے یار انکی طویل کہانیاں ہیں . انہوں نے بہت کچھ لکھا . آخری سانس تک وہ ادب کے لئے وقف تھیں ..چورانوے برس کی عمر میں انہوں نے دنیا کو الوداع کہہ دیا .. انکے خوابوں کا گجرات قتل ہو چکا تھا ..یہ گجرات مختلف علاقوں اور قصبوں میں پیدا ہو رہا تھا .یہ گجرات اب عالمی نقشے پر بھی آباد تھا .اس لہو لہان گجرات کو دیکھنے کے لئے وہ زندہ کیسے رہتیں .. صحافی اور ادیب کو ایسٹبلشمنٹ کے خلاف ہونا چاہئے ..انکا پیغام انکی موت کے بعد ہمیں کویی راستہ دکھایے گا ، اسکی امید کم لگتی ہے ..