آج – 8/نومبر 1925
مقبول عام شاعر، لکھنوی زبان و تہذیب کے نمائندہ شاعر” کرشن بہاری نورؔ “ کا یومِ ولادت…
نام کرشن بہاری اور نورؔ تخلص تھا۔ ۸؍ نومبر۱۹۲۵ء کو لکھنؤ میں پید اہوئے۔ان کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۴۲ء سے ہوا جب وہ مولانا ظفر عباس نقوی، فضل لکھنؤ کے حلقۂ تلامذہ میں داخل ہوئے۔ نور صاحب محکمۂ پوسٹل اینڈ ٹیلی گراف میں ملازم تھے اور ایک ذمے دار عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ ’’دکھ سکھ‘‘ کے نام سے ان کا ایک شعری مجموعہ ۱۹۷۷ء میں اترپردیش اردواکادمی کے مالی اشتراک سے شائع ہوا۔’’تپسیا‘‘ بھی ا ن کی تصنیف ہے۔ایک مجموعۂ دیوناگری میں بھی ’’سمندر میری تلاش میں ہے‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اترپردیش اردو اکادمی نے ان کی ادبی خدمات پر انعام دیا۔ ۲۰؍مئی ۲۰۰۳ء کو غازی آباد میں وفات پاگئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:175
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر کرشن بہاری نورؔ کے یومِ پیدائش پر منتخب اشعار اظہار عقیدت…
آئنہ یہ تو بتاتا ہے کہ میں کیا ہوں مگر
آئنہ اس پہ ہے خاموش کہ کیا ہے مجھ میں
—
میں تو غزل سنا کے اکیلا کھڑا رہا
سب اپنے اپنے چاہنے والوں میں کھو گئے
—
کیسی عجیب شرط ہے دیدار کے لیے
آنکھیں جو بند ہوں تو وہ جلوہ دکھائی دے
—
زندگی سے بڑی سزا ہی نہیں
اور کیا جرم ہے پتا ہی نہیں
—
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ بچا ہی نہیں
—
میں جس کے ہاتھ میں اک پھول دے کے آیا تھا
اسی کے ہاتھ کا پتھر مری تلاش میں ہے
—
ہوس نے توڑ دی برسوں کی سادھنا میری
گناہ کیا ہے یہ جانا مگر گناہ کے بعد
—
کیوں آئینہ کہیں اسے پتھر نہ کیوں کہیں
جس آئینے میں عکس نہ اس کا دکھائی دے
—
تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا یعنی
کبھی دریا نہیں کافی کبھی قطرہ ہے بہت
—
اک غزل اس پہ لکھوں دل کا تقاضا ہے بہت
ان دنوں خود سے بچھڑ جانے کا دھڑکا ہے بہت
—
اپنا پتہ نہ اپنی خبر چھوڑ جاؤں گا
بے سمتیوں کی گردِ سفر چھوڑ جاؤں گا
—
یوں دعوتِ شباب نہ دو میں نشے میں ہوں
یہ دوسری شراب نہ دو میں نشے میں ہوں
—
میں ایک قطرہ ہوں میرا الگ وجود تو ہے
ہوا کرے جو سمندر مری تلاش میں ہے
—
تیز ہو جاتا ہے خوشبو کا سفر شام کے بعد
پھول شہروں میں بھی کھلتے ہیں مگر شام کے بعد
—
یہ لمحہ زیست کا ہے بس آخری ہے اور میں ہوں
ہر ایک سمت سے اب واپسی ہے اور میں ہوں
—
بچھڑ کے تجھ سے نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں
عجیب طرح کے بس حادثے گزرتے ہیں
—
کسی کے رخ سے جو پردہ اٹھا دیا میں نے
سزا یہ پائی کی دیوانگی کی قید میں ہوں
—
موسم ہیں دو ہی عشق کے صورت کوئی بھی ہو
ہیں اس کے پاس آئنے ہجر و وصال کے
—
یارو گھر آئی شام چلو میکدے چلیں
یاد آ رہے ہیں جام چلو میکدے چلیں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
کرشن بہاری نورؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ