ہندو میتھالوجی کے مطابق کرشن وشنو کا اوتار ہے۔ مگر کرشن جی نے بھگوت گیتا میں خود کو بھگوان کہا ہے۔ ان کے عقیدت مند انہیں بھگوان، یوگیشور، پرم پروش اور نارائن بھی کہتے ہیں۔ جب کہ کرشن کے مخالفین نے انہیں احسان فراموش، اپنے مالک کا بدخواہ، فریبی اور دغاباز بتایا ہے۔ شعرا نے بھی اپنے کلام میں انہیں اوباش و عیاش دیکھایا ہے۔
کرشن جی کی سوانع مہابھارت، وشنو پران، ہر ونش، بھاگوت اور برہم وی ورت پرانوں میں ملتی ہے۔ ان میں سب قدیم اور مستند مہابھارت سمجھی جاتی ہے۔ مگر سری کرشن اس میں بہت بعد میں آتے ہیں۔ وشنو پران میں ان کے بچپن کا ذکر زیادہ ہے اور ہری ونش، بھاگوت اور برہم وی ورت میں جو قصے ہیں وہ بھی زیادہ تر تربال لیلا یعنی بچپن کے ہیں۔ مہابھارت میں سری کرشن کے جو کارنامے درج ہیں ان کا ذکر پرانوں میں کم ہی ہے۔ مگر عام لوگوں میں بھاگوت پران کے قصے مہابھارت سے زیادہ پسند کیا جاتے ہیں۔ اگرچہ بھاگوت پران سے زیادہ مہابھارت اہم ہے۔ بھاگوت پران میں عامیانہ قصہ ہیں اس لیے ان میں عام لوگوں کی دلچسپی ہے۔ سری کرشن کے قصے جو مختلف ماخذوں میں ملتے ہیں وہ ان کی دوسروں تصدیق یا تائید نہیں ہوتی ہے۔ مثلاً سری کرشن بال لیلا کے قصے نہ وشنو پران میں نہیں ہیں۔ دسترخوان کا قصہ کا مہابھات، ہری ونش اور مہابھارت میں نہیں ملتا ہے۔ رادھا کا ذکر مہابھارت اور بھاگوت میں صرف ایک جگہ آیا ہے۔ لیکن مہابھارت، ہری ونش اور وشنوں پران میں ان کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ بھاگوت کے راس پنجادیہائی میں جو قصے تفصیل سے درج ہیں وشنو پران میں اس کی تفصیل نہیں ملتی ہے۔ اس طرح برہم وئی ورت میں عجیب وغریب قصے ملتے ہیں۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے جب کرشن کو دیوتا کی حثیت سے عام لوگوں میں مقبولیت حاصل ہوئی تو اس کے پیش نظر یہ قصے تصنیف کیے گئے۔ یعنی انہیں بھاٹوں اور شاعروں نے بڑھا چڑھا کر بیان کیا ہے۔ سور داس نے بھی اپنے زور قلم سے نئے رنگ سے اس میں مزید اضافے کئے اور اس کا اثر عوام پر بھی پڑا۔ کرشن کے بہت سے عقیدت مندوں نے انہیں کرشن لیلا کہا ہے اور بقول ان کے اگر پریمشور سے ملنا ہے تو سب کو چھوڑ کر اس میں ایسے گم ہوجاؤ جیسے گوپیوں نے کرشن کے عشق میں خود کو بھلا دیا یا اپنی ہستی کو متا دیا تھا۔ بعض ہندو مدبروں کا کہنا ہے اس سے یہ ہوا کہ رادھا اور کرشن کی لیلا کے نام سے ہندوؤں میں بہت سی فحش برائیاں پھیل گئیں۔
ان قصوں کے مطابق جنگل میں کرشن جی نے گوالوں کے لڑکوں کے ساتھ رہ کر کشتی لڑنا، بانسری بجانا اور سیکھا۔ ان دونوں فنون میں نہایت مشاق ہوکر بڑے بڑے اژدہوں خونخوار درندوں اور جنگلی جانوروں کو مار ڈالتے اور اپنی بانسری کی آواز سے گوالنوں کو دیوانہ کرنا شروع کردیا۔ صبح و شام جب گوالنیں جمنا اشنان کرنے اور پانی بھرنے جاتی تھیں تو یہ راستہ میں کھڑے ہوکر بانسری بجاتے۔ گوالنوں سے اشارے کنائے ہنسی مزاق اور دلگی کرتے تھے اور گوالنوں میں شہوت کی آگ کو بھرکاتے۔ کرشن جی گوالنوں کو مست کرنے کے آبادی کے باہر سنسان میدانوں اور باغیچوں میں بانسری بجاتے۔ گوپیاں بانسری کی کی آواز سن کر پہنچ جاتیں۔ بارش کے زمانے میں جھولا ڈال کر کرشن کے ساتھ جھوسنا بیش بہا پوشاکوں پھول کے زیور و عطر کی خوشبوں سے آرستہ و پیراستہ ہوکر رقص و سرور کرنے موسم بہار میں گلاں اور عبیہ کے قمقموں سے ہولی کھیلتیں۔ ایک دفعہ گوپیاں دریائے جمنا میں غسل کر رہی تھیں۔ سری کرشن نے ان کے کپڑے اٹھا کر ایک درخت پر چڑھ گئے اور جب گوپیوں نے کپڑے مانگے تو سری کرشن جی نے وہ برہنہ بدن ان کے سامنے آئیں تو ان کے کپڑوں واپس کریں گے۔ آخر کار جب گوپیاں ان کے سامنے برہنہ آئیں تو ان کے کپڑے واپس کیے۔ سری کرشن جوانی میں نہایت حسین تھے گوپیاں ان پر عاشق تھیں اور ان میں سے آٹھ گوپیوں کے ساتھ کرشن جی نے شادی کی تھی اور ان سب سے عزیز اور منظور نظر بیوی رادھا تھی۔ کرشن جی نے بہت سی شادیاں کیں، دوندا اور رادھا کے علاوہ کرشن کی باقیدہ بیویوں کی تعداد 1608 بتائی جاتی ہے۔
عیش و عشرت کی یہ رسمیں رفتہ رفتہ یہ تمام رسمیں عام ہوگئیں۔ دور دراز کے لوگ بھی ان رسوموں کو منانے لگے۔ موسم بہار میں اور بارش کے زمانہ میں روز مرہ رہس کا ناچ ناچنا جانے لگا۔ یہ رسیمں اب تک مروج ہیں اور لوگ اندر دیوتا کی پرستش اور قربانی کی رسم بھول گئے۔ ان مخرب اخلاق اعمال کی ایجادوں نے عیاش مزاج نوجوانوں کے دلوں میں کرشن کی محبت پیدا کردی۔ وشنو پران میں راس لیلا کے بارے میں لکھا ہے کہ سری کرشن جی شرد کی سہانی رات کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور سری بلرام جی کے ساتھ گانا شروع کیا اور اس میٹھی آواز سن کر گوپیاں جہاں تھیں وہ ڈوری چلی آئیں اور انہوں نے گانا چاہا تو کرشن کرشن کہہ کر رہ گئیں۔ مہابھارت میں یہ راس لیلا ہے اور وشنو پران میں یہ قصہ اس طرح بیان کیا گیا کہ کرشن کی اہمیت کم ہوتی ہے۔
کہا جاتا ہے کرشن جی جب متھرا میں گدی پر بیٹھا تو اس کے ماتا پتا نند جسودا اور گوکل کے لنگوٹیا یار گوالے دل بہلانے والی گوپیاں کرشن کے دربار میں حاضر ہوئے۔ کرشن نے انہیں دیکھ کر بے رخی سے منہ پھیر لیا اور انہیں چلے جانے کے لیے کہا۔ گوپیوں اور گوالوں سے کہا میں گوپیوں سے اور گوپیاں مجھ سے گوکل میں ہنسی مذاق کرکے دل ٹھنڈا کیا کرتی تھیں اس طرح تمام گوالے گوپیوں سے اور گوپیاں گوالوں سے ہنسی مزاق کرکے ایک دوسرے کا دل تھنڈا کیا کریں۔ بھوپال میں بھی کرشن کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ کرشن پھوپھی کی بیٹی سے بیاہ کرنے بھوپال گیا، وہاں کے لوگوں نے تالیاں بجابجا کر اس کا مزاق اڑایا اور کہا
پھوپھی ستابیاہن آہیو
ینن کرشن بڑو جس پائیوں (بھاگوت)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...