کے پی کے انتخابات ۔ایک تجزیہ
پورے ملک کی طرح کے پی میں بھی انتخابی بخار سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔کے پی سے باہر رہنے والے اس کے معاشرتی فیبرک سے کافی حد تک لاتعلق ہوتے ہیں اسلیے اس بارے اندازہ لگاتے وقت کافی بڑی غلطیاں کر جاتے ہیں ۔عام تاثر یہی ہے کہ اگر کوی پارٹی پرفارم نہ کرے تو اسے کے پی والے آوٹ کر دیتے ہیں اور کسی نیی پارٹی کو موقع دیتے ہیں ۔یہ بہت جزوی طور پر تو درست ہو سکتا ہے ،کلی طور پر نہیں ۔مثال کے طور پر دو ہزار دو کے الیکشن سے پہلے ستانوے سے ننانوے نون کی حکومت تھی ۔اس نے موٹر وے ایم ون کا پشاور سے تعمیر کر کا آغاز کر کے پختونوں کے دل جیت لیے تھے ۔لاہور پنڈی ،لاہور پشاور ٹرانسپورٹ کا نظام کافی حد تک پختونوں کے ہاتھ میں تھا جنہیں اس دور حکومت میں ایم ٹو کی تکمیل سے معاشی طور پر بے انتہا فایدہ ہوا تھا ۔نون کی صوبے میں کارکردگی کافی اچھی تھی لیکن اس کے باوجود دو ہزار دو کے الیکشن میں ایم ایم اے کو اکثریت ملی تھی ۔اس کی بنیادی وجہ ناین الیون کے بعد انٹی امریکہ نوشن تھا جس کا ووٹ ایم ایم اے کو پڑا ۔حکومت میں آنے کے بعد ایم ایم اے کا صوبے میں واحد قابل ذکر کام خواتین تصاویر والے بل بورڈوں پر سیاہی پھیرنا تھا ۔یہ چونکہ ویسے بھی حادثاتی طور پر آے تھے اسلیے اسی طرح واپس چلے گیے ۔دو ہزار آٹھ میں بے نظیر کی وفات کی وجہ سے ہمدردی ووٹ کے باعث پی پی اور اے این پی پختون قوم پرستی کے نعرے پر اقتدار میں آے ۔تیرہ میں عام تاثر یہ ہے کہ پی ٹی آی نے سویپ کر لیا تھا ۔یہ بالکل غلط تاثر ہے ۔صوبے کی پینتیس قومی سیٹوں میں سے الیکٹیبلز پرویز خٹک ،اسد قیصر ،شہریار آفریدی جیسے یقینی امیدواران کی وجہ سے پی ٹی آی سترہ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوی تھی ۔صوبای اسمبلی کی سو سیٹوں میں سے اس کے پاس صرف بتیس سیٹیں تھیں جو کہ فضل الرحمان اور نون کی سولہ سولہ سیٹوں کے برابر تھیں ۔
یہ ساری بات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ کے پی والی بھی "پاکستانی" ہیں ۔ادھر بھی قبایلی وابستگی ،جوڑ توڑ ،پیسہ ،سب چلتا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ قبایلی علاقوں میں تو ووٹ کی باقاعدہ بولی لگتی ہے اور فی ووٹ ریٹ دس ہزار تک بھی جاتا ہے ۔وہاں سے ہمیشہ آزاد امیدوار ہی جیتتے آے ہیں ،قیصر جمال جیسے ایک دو استشناء کے علاوہ ۔اس دفعہ بھی یہی روایتی سیاست چل رہی ہے ۔اگر پرفارمنس پر ووٹ ہو تو پی ٹی آی کا وہاں سے صفایا ہو جاے کہ پشاور شہر کو میٹرو کے نام پر کھدا چھوڑ کر بھاگ جانا ،مردان چکدرہ موٹروے کی پانچ سال میں عدم تکمیل ،لوڈ شیڈنگ پر قابو نہ پانا ،روزگار کے نیے مواقع کی عدم فراہمی کی وجہ سے پھیلی غربت ،کرپشن کا کھلے عام راج ،لیڈی ریڈنگ اور خیبر ٹیچنگ میں گندگی ،عدم توجہ اور کرپشن کے راج اور اسطرح کی کیی نااہلیوں سے ایک بات تو واضح ہے کہ پرویز خٹک کی واحد قابل ذکر کارکردگی دھرنوں میں ناچ رہا ہے ۔اس سب کے باوجود جب حقیقت پسبدانہ جایزہ لیا جاے تو معلوم ہوتا ہے کہ صوبے کے تقریباً سارے الیکٹیبلز پی ٹی آی کی جھولی میں گر گیے ہیں ۔حتیٰ کہ اے این پی کے مردان سے سابقہ ایم این اے استقبال خان بھی بلے پر لڑ رہے ہیں ۔سابقہ این اے فور کے ضمنی الیکشن میں نون کے امیدوار ناصر خان موسیٰ زیی بھی بلے کو پیارے ہو گیے ہیں ۔قومی وطن پارٹی کے فارن ایجوکیٹڈ شہرام ترکیی بھی بیٹنگ کے موڈ میں ہیں ۔
ایک "حقیقت پسندانہ " جایزہ مندرجہ ذیل اندازہ پیش کرتا ہے ۔اس اندازے میں سو فیصد ان پٹ میری اپنی ہے ۔کسی دھونس ،لالچ کا قطعاً کوی دخل نہیں ۔
این اے
1۔نواز
2۔نواز
3۔نواز
4۔انصاف
5۔ایم ایم اے
6۔ایم ایم اے
7۔ایم ایم اے
8۔انصاف
9۔ایم ایم اے
10۔اے این پی
11۔نواز
12۔ایم ایم اے
13۔نواز
14۔نواز
15۔نواز
16۔انصاف
17۔نواز
18۔انصاف
19۔انصاف
20۔انصاف
21۔ایم ایم اے
22۔ایم ایم اے
23۔قومی وطن پارٹی
24۔اے این پی
25۔انصاف
26۔نواز
27۔انصاف
28۔انصاف
29۔نواز
30۔پیپلز پارٹی
31۔اے این پی
32۔انصاف
33۔انصاف
34۔انصاف
35۔انصاف
36۔انصاف
37۔انصاف
38۔ایم ایم اے
39۔ایم ایم اے
40 سے 50 آزاد
51۔انصاف
کل نشستیں
آنصاف ۔15
نواز۔10
ایم ایم اے ۔9
آزاد ۔10
اے این پی ۔3
قومی وطن پارٹی ۔1
پیپلز پارٹی ۔1
صوبای میں البتہ دلچسپ صورتحال ہو گی۔نون اور انصاف برابر ہوں گے ۔ایم ایم اے فیصلہ کن رول میں ہو گی ۔فضل الرحمان اگلا وزیر اعلیٰ ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“