کوئلہ توانائی حاصل کرنے کا ذریعہ رہا ہے۔ سٹیم انجن کی ایجاد کے بعد کوئلہ ایندھن کے طور پر اہم ہو گیا۔ 1880 میں اس سے پہلی بار بجلی بنائی گئی۔ دنیا میں سب سے زیادہ بجلی اسی طریقے سے بنائی گئی ہے لیکن یہ کوئلہ آیا کہاں سے؟
اس کا بڑا حصہ صرف ایک قدیم درخت سے ہے جو زمین کی تاریخ کے ایک دور میں آج کے امریکہ سے لے کر چین تک ہر جگہ پر پھیلا ہوا تھا۔ یہ درخت سکیل ٹری تھا۔ اس کی چھال مچھلی کے چھلکے کی شکل کی تھی اور اونچے درخت جن کے اوپر لمبے اور نوکیلے پتے تھے۔ یہ درخت کاربنیفورئیس دور کا تھا جو آج سے چھتیس کروڑ سال پہلے شروع ہوا اور چھ کروڑ سال تک رہا۔ اس دور کی خاص بات اس دور کے پتھروں پر زیادہ کاربن والے بنے باقیات ہیں جو اس دور کے پودوں سے بنے ہیں۔ یہ کوئلہ ہے۔
زمین کے اس دور میں زمین گھنے جنگل اور دلدلوں سے ڈھکی تھی اور یہاں پر ان درختوں کی بہتات تھی جو بعض اوقات کسی پندرہ منزلہ عمارت جتنے اونچے ہو جاتے تھے۔ ان کی باقیات دنیا کے شمالی نصف کرہ میں ہر جگہ پر ہیں۔ یہ باقیات اس قدر زیادہ تعداد میں ہیں کہ اس پودے کے ہر سٹیج کے سائیکل کی ہر طرح کی باقیات مل چکی ہیں۔ یہ آج کے درختوں سے بڑے مختلف تھے۔
ان کا کوئی بیج نہیں تھا۔ (یہ لائیکوپوڈ تھے)۔ یہ اپنا ایک خول نیچے گراتے تھے جس میں ان کے خلیات ذروں کی شکل میں تھے اور ہر خلیہ نیا درخت بن سکتا تھا۔ اس خول کو پانی دور دراز تک بھی لے جاتا۔ یہ پہلے درخت تھے جن میں زائلم بھی تھا۔ اس کی وجہ سے آج کے درخت لمبے ہو سکتے ہیں۔ ان میں لِگنِن تھا جو پودے کو سیدھا کھڑا رکھتا ہے۔۔ لیکن ان درختوں مین نہ صرف لِگنِن کم تھا بلکہ جڑیں بھی گہری نہ تھیں۔ ان کو سیدھا کھڑا رکھنے کی وجہ بہت ہی موٹی اور سخت چھال تھی۔ لیکن یہ آج کے درختوں کی طرح مضبوط نہیں تھے اور طوفان میں گر جایا کرتے۔ چھوٹے درختوں میں پتے تنے میں سے ہی نکلتے۔ جب درخت بڑا ہو جاتا توہ یہ پتے جھڑ جاتے اور چھال پر نشان چھوڑ جاتے جو ان کی خاص نشانی ہیں اور اس کی وجہ سے ان کو سکیل ٹری کا نام ملا۔
تیزی سے بڑھنے والے اور جلد مر جانے والے یہ درخت امریکہ یورپ اور ایشیا میں نامیاتی مادہ بکھیرتے گئے۔ اس دور کے بڑے سائز کی کیڑوں اور شروعاتی رینگنے والے جانوروں کو رہنے کی جگہ دیتے۔ اپنے دورِ عروج میں یہ زندگی کی کامیاب ترین شکل تھی۔
لیکن پھر ان کی کامیابی کی وجہ ان کی ناکامی کی وجہ بنی۔ ان کے وسیع و عریض جنگل بڑی مقدار میں آکسیجن خارج کرتے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال کر رہے تھے۔ اس دور تک ابھی تک وہ جراثیم نہیں تھے جو مردہ درختوں کو ڈی کمپوز کر کے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو واپس فضا کا حصہ بنا دیں۔ مردہ درخت یہ کاربن ساتھ لئے زمین میں دفن ہوتے رہے۔ کم ہوتی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آتش فشانی عمل میں اضافے نے زمین کا درجہ حرارت کم کر کے برفانی دور کا آغاز کر دیا۔ یہ کاربنوفرئیس رین فارسٹ کولپیس کہلاتا ہے۔ اس میں بڑی تعداد میں انواع معدوم ہو گئیں اور یہ درخت بھی انہیں میں سے تھا۔ ستائیس کروڑ سال قبل آخری سکیل ٹری کا دنیا سے خاتمہ ہوا۔ پودوں کے اس ابتدائی دور میں کئی ملین سال کے اس سائیکل نے دنیا کے دلدلی حصے کو کاربن کی دلدلی کائی سے بھر دیا جو دبتی چلی گئی اور پھر کوئلہ میں بدل گئی۔
شاید آپ کے کمرے میں اس وقت جو لائٹ ہے، اس کے پیچھے اس کروڑوں سال پہلے دنیا میں پائے جانے والے اسی طرح کے کسی درخت کے فوٹوسنتھیسز کا ہاتھ ہے، جو آج کا ایک فوسل فیول ہے۔
پہلی تصویر ان درختوں کا آرٹسٹک ایمپریشن۔ دوسری تصویر کوئلہ بننے کے عمل پر۔
اس درخت کے بارے میں
https://en.wikipedia.org/wiki/Lepidodendron
زمین کے اس چھ کروڑ سال کے دور کے بارے میں
https://en.wikipedia.org/wiki/Carboniferous
کوئلے کی مختصر سٹڈی گائیڈ
https://www.energy.gov/…/prod/files/Elem_Coal_Studyguide.pdf
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔