۔ ۔ ۔ کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا؟
۔
سعودیہ میں میری جاب آئل کمپنی میں تھی۔ اور عیاشی والی تھی۔ پیسے اتنے مل جاتے تھے کہ ہر ماہ پاکستان کا چکر لگانے کو دل کرتا تھا۔ ایسی ہی ایک چھٹی پر واپسی کے لیے کچھ شاپنگ کر رہا تھا کہ سینے میں کچھ گھٹن کا احساس ہوا۔ المانا ہسپتال خوبر کا مشہور ہسپتال تھا۔ ویسے بھی کمپنی کی طرف سے میڈیل انشورنس پر سارے ہسپتالوں میں علاج مفت تھا۔
میڈیکل انشورنس کارڈ کا ایک نقصان یہ ہے کہ ہسپتال والے اپنا بل انشورنس کمپنی سے وصول کرنے کے لیے اچھے بھلے آدمی کو ڈھیر ساری دوائیاں لکھ دیتے ہیں۔ ڈاکٹر نے میرا سرسری معائنہ کرنے کے بعد مجھے اسی کمرے میں رکھی کارڈیو گرافی مشین پر چڑھا دیا۔ تھوڑی دیر بعد مشین سے نکلنے والی ای سی جی رپورٹ کو دیکھتے ہوئے فکرمندی سے سر ہلا رہا تھا۔ زندگی میں پہلی بار ای سی جی کروانے پر میں بھی گھبراہٹ کا شکار تھا۔
خیرڈاکٹر نے تسلی دی کہ فکر کی بات نہیں آپ وقت پر میرے پاس پہنچ گئے ہیں۔ ای سی جی میں دھڑکن کچھ خراب آئی ہے۔ آپ کی انجیو گرافی ہوگی، اور ضروری ہوا تو انجیوپلاسٹی بھی کر دی جائیگی۔ میں نے بتایا کہ دو دن بعد میری پاکستان کی فلائیٹ ہے، تو ڈاکٹر کمپیوٹر پر میرا ڈیٹا انشورنس کمپنی کو فارورڈ کرتے ہوئے بولا، فکر نہ کریں، ابھی شام تک آپ کے پروسیجر کی منظوری آ جائیگی (کیونکہ یہ کافی مہنگا پروسیجر تھا) تو کل آپ کی انجیوپلاسٹی ہو جائگی، رات بھر ریسٹ کر کے پرسوں آپ پاکستان چلے جائیں۔
زندگی میں پہلی بار میں نے ڈاکٹر کی نہیں مانی، ورنہ ہمیشہ سے میں ایک فرمانبرار مریض رہا ہوں۔ میں نے سوچا کہ پاکستان جا کر ایک بار چیک کروا لوں پھر دیکھتا ہوں۔ ڈاکٹر کافی اصرار کرتا رہا اور بتاتا رہا کہ یہ کتنا خطرناک ہے اگر فوری ایکشن نہ لیا گیا۔
باقی کہانی بورنگ ہے (اگر ابھی تک نہیں بھی تھی تو ) ، وہی میڈیکل پروفیشن کی بدنامی۔ وہی ڈاکٹروں کے بھیس میں قصائیوں کی داستان، جس سے اللہ نے مجھے بچا لیا۔ پاکستان آتے ہی اپنے دوست ڈاکٹر رئیس ہاشمی کو بتایا تو وہ ہنسنے لگا کہ جن کو انجیوگرافی کی ضرورت ہوتی انکو تو وہ کلینک کے دروازے سے پہچان لیتا ہے، تمہیں ایسی کوئی تکلیف نہیں۔ اگلے روز پنجاب کارڈیالوجی کی ایک لیب میں میں مشین پر دوڑ رہا تھا، اور ای سی جی کی لمبی پٹی شرشر کرتی پرنٹ ہوتی جا رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد مجھے بتایا گیا کہ آپ کا دل سو فیصد ٹھیک اور ای سی جی بالکل نارمل ہے۔ کسی انجیوگرافی کی ضرورت نہیں۔
اب یہ بھی الگ کہانی ہے کہ میں نے واپس جا کر ہسپتال انتظامیہ کو شکائیت کی تو اپنے پیٹی بھائی کو بچانے کے لیے باقی میڈیکل "پروسٹیٹیوشنلز" نے کیا کیا بہانے گھڑے۔ اسکو جانے دیں۔ اصل بات ان تین سے چھ دنوں کی تھی جب تک مجھے صرف یہ علم تھا کہ میرے دل میں کوئی زبردست فالٹ آ گیا ہے اور یہ کسی بھی لمحے جواب دے سکتا ہے۔
اصل بات یہ تھی کہ میں نے ان دنوں میں جو محسوس کیا پھر ساری زندگی محسوس نہیں کیا۔ زندگی کی بے ثباتی، چیزوں کی حقیقت کا ادراک ان ہی دنوں میں ہوا۔ جاب، پیسہ، کامیابی، خوشی، دوست، گپ شپ سب بے معنی لگتے تھے۔ بس ایک ہی حقیقت سامنے نظر آتی تھی، کہ یہ سب سراب ہے، بس لمحے کے لمحے میں منظر نگاہ سے اوجھل ہونے کو ہے۔ بس اب پردہ گرا اور کھیل ختم شد کی سلائیڈ چل گئی۔
میں خوشقسمت ہوں۔ مجھے بہت پہلے بروقت اس جھٹکے نے ایک ایسی نیند سے جگا دیا جو شائد قبر میں جانے کے بعد کھلتی۔ جب وہ وقت گذر گیا اور میں واپس زندگی میں گم ہوگیا۔ تب بھی گاہے گاہے ایک رات میری زندگی میں آتی رہی کہ مجھے اچانک خیال آتا، اگر کل میں اس دنیا میں نہ رہوں تو ۔ ۔ ۔ کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا نا؟
شروع شروع میں کچھ کھنچاؤ رہا مگر جیسے جیسے سال گذرتے گئے، مجھے اس سوال کا جواب ملنے لگا۔ نہیں کچھ نہیں ہوگا۔ سب ٹھیک ہے۔ پھر کچھ سال ہوئے زندگی میں ایک ہلکی سی آزمائش آئی کہ لگنے لگا کہ ابھی کچھ مہلت مل جائے تاکہ میرا بیٹا جو بہت چھوٹآ ہے کچھ بڑا ہو جائے۔ پھر اس کا حل بھی نکل آیا۔ اور حل نہ بھی تو ڈاہڈے کے فیصلے کو ماننے کے علاوہ چارہ کیا ہے۔
اب پھر جواب ملنے لگا ہے۔ نہیں کوئی مسئلہ نہیں۔ سب ٹھیک ہے۔
دوستو! میرا مقصد ہرگز آپ کو موت سے ڈرانا نہیں ہے۔ نہ ہی زندگی سے بیزاری کا مشورہ دینا ہے۔ بس اتنا کہنا ہے کہ اپنے "کام" روز کے روز نپٹاتے رہیں۔ زندگی میں لمبی لمبی پلاننگ ضرور کریں، مگر بچے کا منہ چومنا، بیوی کو سیر پر لے جانا، ماں کے پاؤں دبانا اور دوستوں کے ساتھ وقت ضائع کرنا ملتوی نہ کریں۔ اور ہفتے پندھرواڑے شام کو اپنے آپ سے پوچھتے رہیں کہ اگر کل میں نہ رہوں تو ۔ ۔ ۔ کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا نا؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“