ہمارے خلاف ہمیشہ سازشیں ہوئیں۔ امویوں کے دور ہی کو لیجیے۔ ہم نے تو کچھ بھی نہیںکیا تھا۔ عربوں کو غیر عربوں پر اس حد تک فوقیت دی جاتی تھی کہ غیر عرب کی اقتدا میں نماز پڑھنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ سازش ہوئی اور ا مویوں کی حکومت ختم ہوگئی۔
ہسپانیہ سے بھی ہماری حکومت کو سازش کے تحت دیس نکالا ملا۔ امرا اور افسروں کی تعیناتیاں اور ترقیاں شاہی خاندان کی خواتین کی مرضی سے ہونے لگی تھیں۔ ایک مسلمان ریاست، دوسری مسلمان ریاست کو سبق سکھانے کے لیے نصرانی حکومتوں سے مدد مانگتی تھی۔ میدان جنگ میں ہار جیت کا فیصلہ شطرنج کھیل کر کیا جاتا تھا۔ تخت نشینی کی جنگیں عام تھیں۔ آخری خلیفہ جلا وطنی کے لیے بحری جہاز پر سوار ہونے لگا تو پیچھے مڑ کر دیکھا۔ قرطبہ کے محلات دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ماں نے کہا جس سلطنت کی حفاظت مردوں کی طرح نہ کرسکے، اس پر عورتوں کی طرح آنسو کیوںبہاتے ہو؟ لیکن بے شمار ایسی وجوہات کا سلطنت کے خاتمے سے کیا تعلق؟ سو باتوں کی ایک بات ہے کہ ہمارے خلاف سازشیں ہوئیں اور ہمیں ہسپانیہ چھوڑنا پڑا۔
پھر ایک بہت بڑی سازش برصغیر کے مسلمانوں کے خلاف کی گئی۔ سازش کے تحت مغل بادشاہوں نے سفید فام تاجروں کو کاروبار کی اجازت دی اور ’’تجارتی کوٹھیاں‘‘ بنانے کے پروانے عطا کیے۔ مغلوں نے سمندری دنیا سے مکمل بے نیازی برتی اور بحری بیڑہ بنانے کا خیال تک نہ آیا۔ یہ وژن کی کمی نہ تھی بلکہ سازش تھی۔ گوا کے پرتگالی پادری جب جہانگیر کے دربار میں مشینی چھاپہ خانہ لے کر آئے اور دربار کے مولویوں نے اس کی مخالفت کی تو یہ بھی سازش تھی۔ انگریزوں نے ’’مکاری‘‘ سے حکومتوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ یہ ’’مکاری‘‘ کئی سو سال تک چھپی رہی اور ہمیں معلوم ہی نہ ہوا کہ دشمن مکار ہے۔ ہمارا تو کوئی قصور ہی نہ تھا۔ یہ جو کلائیو اور دوسرے انگریز جنگجو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پیٹھ پر رہتے تھے اور یہ جو سراج الدولہ قسم کے نواب پالکیوں میں بیٹھ کر میدان جنگ میں ورود کرتے تھے تو اس کا ہماری شکست سے کیا تعلق؟ شکست تو سازش کی وجہ سے ہوئی۔ انگریزوں کا مالیاتی نظام اتنا مستحکم تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ’’آڈیٹر جنرل اور اکائونٹس کے اعلیٰ حکام کی چھان بین کے بغیر ایک پائی بھی خرچ نہیں ہوسکتی تھی۔‘‘ ہمارا سسٹم یہ تھا کہ کسی کو سونے میں تولا جاتا تھا اور کسی کو چاندی میں۔ کسی کا منہ موتیوں سے بھر دیا جاتا تھا اور کسی کو درجنوں ہاتھی گھوڑے عطا کردیئے جاتے تھے۔ دہلی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا نمائندہ چارلس میکاف صبح 7بجے دفتر پہنچتا تھا۔ کئی گھنٹے مسلسل کام کرنے کے بعد گیارہ بجے جب وہ اور اس کے ساتھی گرمی کی شدت کے دوران کچھ دیر آرام کرنے کی غرض سے بیرکوں کو جارہے ہوتے تو شاہی قلعے میں بیدار ہونے کے آثار شروع ہوتے تھے۔ اورنگزیب جیسا صالح بادشاہ بھی شکارکھیلنے نکلتا تو ایک لاکھ افراد ساتھ ہوتے تھے۔ غیر صالح بادشاہوں کا تو ذکر ہی کیا! لیکن ان سارے عوامل کا، ہماری شکست سے کوئی تعلق نہیں! ہماری شکست کا سبب ایک اور صرف ایک ہے سازش، سازش اور سازش!
مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہی کو لے لیجیے ہم اس معاملے میں فرشتوں کی طرح معصوم اور دودھ کی طرح پاک ہیں۔ ہمارا تو کوئی قصور ہی نہیں۔ سازش ہوئی۔ مشرقی پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں نے غداری کی۔ بھارت کے ہاتھوں میں کھیلے اور ملک ٹوٹ گیا۔ جو کچھ ہم نے کیا، اس کا علیحدگی کے اسباب سے کیا تعلق؟ بنگالی زبان اردو کی نسبت صدیوں زیادہ پرانی اور زیادہ ترقی یافتہ تھی۔ ہم نے اسے قومی زبان کا درجہ دیا لیکن سو کوڑے اور سو پیاز کھانے کے بعد۔ دس دس سال تک فوجی آمروں کو حکومت کرنے دی۔ اس میدان میں مشرقی پاکستان مغربی حصے کا مقابلہ ہی نہیں کرسکتا تھا۔ جرنیل تو سارے یہاں سے تھے۔ یہاں جاگیرداروں، زمینداروں اور سرداروں کی بادشاہیاں تھیں۔ وہاں متوسط اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ سیاست میں تھے۔ ان کی آبادی زیادہ ہونے کے باوجود ون یونٹ بنا کر دونوں بازوئوں میں مصنوعی برابری پیدا کی گئی۔ بیرون ملک سے سینیٹری کا سامان آیا اور وزرا میں تقسیم ہوا تو مشرقی پاکستان کے وزیروں نے اپنے صوبے کا حصہ مانگا۔ انہیں کہا گیا کہ تم لوگ رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جاتے ہو‘ تم نے یہ سامان کیا کرنا ہے؟ وہ لوگ اس قدر غدار تھے کے فاطمہ جناح وہاں سے جیت گئیں اور ہم اس قدر
معصوم تھے کہ وہ یہاں سے ہار گئیں۔ پاکستان ٹائمز جیسے اخبار نے لکھا کہ وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ ہے اور یہ فارن ایکس چینج جو صوبہ زیادہ کمارہا ہے، اُسے کم حصہ دیا جارہا ہے۔ یہ کالم نگار تین سال ڈھاکہ یونیورسٹی کا طالب علم رہا۔ کسی سے علیحدگی کی بات نہیں سنی۔ ایک اور صرف ایک شکایت تھی کہ انصاف نہیں ہورہا اور فوجی آمر ہمیشہ مغربی پاکستان میں سے آئیں گے! اس شکایت کا جواب کوئی نہیں دے سکتا تھا! الیکشن میں عوامی لیگ کو واضح اور غیر متنازعہ اکثریت حاصل ہوئی۔ وفاق میں حکومت بنانا مشرقی پاکستان کا حق تھا۔ انہیں حکومت نہیں بنانے دی گئی تھی۔ قانونی اخلاقی شرعی کسی اعتبار سے مشرقی پاکستان کو حکومت سے محروم رکھنے کا کوئی جواز نہ تھا۔کیا وہ لوگ مسلمان نہیں تھے؟ کیا وہ پاکستانی نہیں تھے؟ لیکن انہیں کیا ملا؟ ’’شجاعت‘‘ بھرے یہ بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ ہم ان کی نسلیں بدل کر رکھ دیں گے۔ مگر ان سارے حقائق کا علیحدگی سے کوئی تعلق نہیں! علیحدگی تو سازش سے ہوئی۔ ہم تو پکے مسلمان ہیں۔ یہ تو مشرقی پاکستانی تھے جو ہندوئوں کے ہاتھوں کھیلنے لگ گئے۔ اس بات کا کیا جواب دینا ضروری نہیں کہ یہی مشرقی پاکستانی قیام پاکستان کے وقت ہندوئوں کے ہاتھوں میں کیوں نہیں کھیلے؟ وہ حصہ جو مغربی پاکستان بنا، وہاں لاکھوں مسلمان قیام پاکستان کے مخالف تھے۔ خاکسار، احرار، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے ہند، سب نے پاکستان کی مخالفت کی۔ بنگال میں کوئی ایک مسلمان تنظیم بھی ایسی
نہ تھی جس نے پاکستان کی مخالفت کی۔ یہ ساری باتیں فضول ہیں۔ حقیقت ایک ہی ہے کہ ہم معصوم ہیں اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی سازش کے نتیجہ میں عمل میں آئی۔
ہمارے خلاف ہمیشہ سازشیں ہوئیں۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ جو ساری ایجادات اہل مغرب نے کیں۔ ہوائی جہاز سے ٹرینز تک، ٹیلیویژن سے انٹر نیٹ تک، پنسلین سے ٹی بی کے علاج تک۔ یہ سب سازش ہی تو ہے! یہ جو آج ہمارے گھروں میں برقی روشنی، اے سی، ٹیلیویژن، انٹرنیٹ، مائیکرو ویو اوون، ڈیپ فریزر اور لائف سیونگ ادویات موجود ہیں۔ یہ جو ہر مسلمان کی جیب میں دو دو موبائل فون بج رہے ہیں تو یہ بھی یہود و ہنود کی سازش ہے۔ امریکہ ہمیں ڈرون ٹیکنالوجی نہیں دے رہا۔ یہ بھی سازش ہے۔ اسے چاہیے کہ یہ ٹیکنالوجی پلیٹ میں رکھ کر، جھک کر پیش کرے اور ساتھ فرشی سلام بھی کرے۔ ہم خود یہ ٹیکنالوجی بنانے سے قاصر ہیں۔ تعلیم کے لیے ہم دوسرے ملکوں سے بہت کم، بہت ہی کم بجٹ مخصوص کرتے ہیں۔ ہزاروں، گھوسٹ سکول قائم ہیں، سینکڑوں سکولوں کی عمارتیں میں وڈیروں کے مویشی بندھے ہیں۔ ملک میں اغوا برائے تاوان کی صنعت دن دونی رات چوگنی ترقی کررہی ہے۔ دارالحکومت سے اوسطاً چار گاڑیاں روزانہ چوری ہورہی ہیں۔ ٹیکس نہ دینے والے مجرم حکمرانوں میں شامل ہیں۔ کچھ عرصہ پیشتر ہر لائق شخص ملتان سے آتا تھا۔ آج کل لیاقت کا سرچشمہ لاہور ہے۔ بدبخت کافر انگریز ہمیں ریلوے دے گئے تھے۔ ہم نے بیچ کھائی۔ اس میں کیا شک ہے کہ ہم معصوم ہیں۔ ہم لائق ہیں۔ افسوس! ہمارے خلاف سازشوں کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آرہا! کوئی ہے جو ہماری مدد کرے!