کوس مینار
سرحدی مضافات بیرون لاھور
عظیم جرنیلی سڑک ( جی ٹی روڈ پشاور سے کلکتہ ) کے معمار شیر شاہ سوری نے 3000 کلو میٹر طویل اس شاندار پر کوس مینار بنوائے۔ یہ کسی خاص تعمیراتی شاھکار عمارت نہیں ھوتی تھی بلکہ اینٹوں کی تیاری کے لئے بننے والے بھٹے جیسی ساخت کے مینار تھے۔ جو کہ تقریباً ھر تین کلومیٹر کے فاصلے پر بنائے گئے۔ ان کا مقصد شاھراہ ، مسافروں ، نقل و حرکت کے سامان کی حفاظت بھی تھا۔ سرکاری اہلکاروں کی یہاں تعنیاتی ھوتی۔ سرکاری احکامات اور ڈاک کی ترسیل کو بروقت پہنچانے کے لئے سرکاری اہلکار گھوڑوں پر سفر کرتے اگلی منزل یا مقررہ کوس مینار پر ان کے لئے نئے تازہ دم گھوڑے تیار ھوتے۔ پچھلے گھوڑے وہیں روک دیئے جاتے اس طرح متواتر انتظامات کے تحت یہ سلسلہ چلتا رھتا۔ مسافروں کے لئے سرائیں بھی تعمیر کی گئیں۔ شاھراہ کے ساتھ ساتھ مسافروں اور جانوروں کی سہولت کے لئے پانی پینے کے لئے باؤلیاں بنوائی گئیں۔(باؤلی دراصل ایک کنواں ھوتا تھا ۔ پانی کی تہہ تک پہنچنے کے لئے سیڑھیاں بنائی جاتی تھیں۔ ) بعد میں مغلیہ سلطنت کے عہد میں بھی اس تسلسل کو برقرار رکھا گیا اور ان میں مزید بہتری اور سہولیات بہم پہنچائی گئیں۔ خصوصاً شہنشاہ اکبر اور جہانگیر کے دور میں کافی بہتری آئی۔
حوادثِ زمانہ کی وجہ سے باقی کوس مینار مہندم ھوتے گئے۔ ان میں سے ایک کوس مینار کراچی پھاٹک لارنس کالونی گڑھی شاھو لاھور اور دوسرا لاھور کے سرحدی علاقے " منہالہ " کے قریب کھلے کھیتوں میں واقع ھے۔ گڑھی شاھو والا مینار باقاعدہ طور پر جنگلہ لگا کر ایک چھوٹے سے پارک میں محفوظ کر دیا گیا ھے۔ جب کہ منہالہ والا کوس مینار غیر محفوظ ھے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی۔
یہی صورتحال رھی تو چند سالوں بعد صرف اس کی تصاویر ھی دیکھ سکیں گے اور یہ قصہ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ھے کہ اربابِ اختیار اس کی مستقل بنیادوں پر حفاظت کا انتظام کردیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔