کوریا کے معاہدے سے سبق۔
کل یہاں امریکہ میں ہر طرف کوریا کوریا کی گونج تھی ۔ امریکہ میں مقیم کورین جشن منا رہے تھے ۔ کورین ریسٹورینٹز پر کھانا بانٹا جا رہا تھا ۔ kimchi اورChampagne سوغات بن گئے تھے ۔ ایسا لگا کے دنیا بدل گئ ۔ برلن وال گرنے سے زیادہ بڑا واقعہ رونما ہو گیا ۔
میں نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ Uranus اب ۸۰ سال بعد Taurus میں آ رہا ہے کچھ تو ہو گا ۔ بہت کچھ ہونا شروع ہو گیا ۔ ستاروں اور سیاروں کا کھیل بھی عجب ہے اگر چاند نہ آتا تو نہ gravity ہوتی نہ electromagnetic field اور شاید ہم سب صرف حواس خمسہ تک محدود نہ ہوتے ۔ یا ان جعلی بابوں کے مرہون منت نہ ہوتے جیسا کہ جعلی گُرو ہچھلے دنوں ہندوستان میں پکڑا گیا ، کروڑوں لوگوں کو پاگل بنا رہا تھا۔ حالنکہ ہم سب روحانی ہیں ۔ ایک عدد روح کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں ۔ ہر کوئ پیر ہے بابا ہے ، زرا کوشش تو کریں ۔ اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے ۔
آتے ہیں موضوع کی طرف ۔ مستقبل کی جنگوں کے خاتمے کی طرف ۔ ایک سلسلہ جو چنگیز خان اور سکندر اعظم سے شروع ہوا اور دوسری جنگ عظیم تک پہنچ کر بھی ختم نہ ہوا۔ آخر کیوں ؟ گو کہ زیادہ تر جنگیں دفاع میں لڑی گئ ، چند سر پھروں کی چڑھائ کا شوق لے بیٹھا ۔ جیسے جب Diogenes نے سکندر اعظم سے یہ پوچھا تھا کہ تم دنیا فتح کر کے کیا کرو گے ؟ تو اس کے پاس کوئ جواب نہیں تھا ۔
بس لشکر کشی کرنی تھی ، انسان نے انسان کو نیچا دکھانا تھا دکھا دیا ۔ مال و دولت کے لیے ، طاقت کے لیے ، شہزادیوں کے لیے ، جنگ کے میدان سجے ، قتل و غارت ہوئ اور نکلا کچھ بھی نہیں۔ اپنی انا اور جہالت کی جنگ ۔ کیا نکلنا تھا ۔
میں یہ نہیں کہ رہا کہ اب جنگیں بند ہو جائیں گی ایک دم سے ، لیکن اب حالات یکسر بدل جائیں گے ۔ ہندوستان کو کشمیر کا کچھ کرنا پڑے گا ۔ پاکستان کو ہندوستان سے denuclearisation کی بات کرنی ہو گی ۔ دنیا بدل گئ ہے اور آنے والے دنوں میں ۷ بلین سے زیادہ لوگوں کے مستقبل کے فیصلہ کا وقت آ گیا ہے ۔ کیا پھر کسی اسکندر اعظم یا ہٹلر نے تیسری جنگ عظیم چھیڑ کر آبادی آدھی کرنے کا ٹھیکہ لینا ہے ؟ یا تمام ریاستیں مل بیٹھیں گیں اور دنیا کے تمام ریسورسز کی متوازن تقسیم کی بات ہو گئ ؟ میرے خیال میں اب افہام و تفہیم کی بات ہو گی ۔ یہ کوریا والی ایک زبر دست شروعات ہے ۔
بہت ظلم ہو گیا خلق خدا پر ، بہت بگھت لیا غریب نے سیاسی اور سرمایہ دار گماشتوں کے ہاتھوں ۔ مزید شاید قدرت کو منظور نہیں ۔ ریسورسز ابھی بھی وافر ہیں صرف چند لوگوں اور ملکوں کی بدمعاشی نہیں پہنچنے دیتی عام لوگوں تک یا تقسیم میں رکاوٹ بن رہی ہے ۔
آئیے ایک نئ دنیا کے قیام کے لیے اپنے لیڈروں کا ساتھ دیں ، نہ کہ ان کو نفرتوں کی بنیاد پر جنگ و جدل کے لیے اکسایا جائے ۔ جیسے کے جنوبی کوریا کے قدامت پسند یا conservatives ابھی بھی اس معاہدہ کے خلاف ہیں ۔ حلانکہ جاپان نے اسے بہت سراہا ہے ۔ در اصل وہ سارے لوگ امن کے خلاف ہوں گے جن کی دوکانیں سجی ہوئ ہیں محض ان لڑائیوں اور جنگوں کی بنیاد پر ۔ اسلحہ بک رہا ہے ۔ بدمعاشی چل رہی ہے ۔ آبادی کم ہو رہی ہے ۔
کیوں نہ اُٹھ کھڑے ہوں اور پوری دنیا میں پیار محبت کی بات کریں ۔
رسم دنیا بھی ہے ، موقع بھی ہے ، دستور بھی ہے ، پھر دیر کس بات کی ۔ ہم سب آدم کی اولاد ہیں، اس رشتہ کے تقدس کو پامال نہ ہونے دیں ۔
بہت خوش رہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔