ہماری زندگی کا دارومدار بیکٹیریا پر ہے لیکن اس کی اپنی زندگی سادہ ہے، یہ کھاتا پیتا ہے، جب دگنا ہو جائے تو پھر دو میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک سوال یہ کہ اتنا چھوٹا بیکٹیریا، اتنی بورنگ زندگی کے ہوتے ہوئے کچھ بھی کر کیسے سکتا ہے۔ اس کا جواب یہ کہ یہ اکیلا نہیں، مل جل کر کام کرتا ہے۔ بیماری پھیلانے والا چند بیکٹیریا اگر ہمارے جسم میں داخل ہو کر ٹوکسین پھیلانا شروع کرے تو ہمیں کچھ نہیں ہو گا۔ یہ خاموش رہتے ہیں اور جب بڑھتے بڑھتے ایک خاص تعداد تک پہنچ جائیں تب ہی حملہ آور ہوتے ہیں۔ انہیں علم کیسے ہوتا ہے کہ کونسا وقت موزوں ہے تو وہ ہے کورم سنسنگ یعنی ووٹنگ کا عمل۔
اس تحقیق کا آغاز سمندر میں رہنے والے بے ضرر بیکٹریا ویبرو فشرائی سے ہوا۔ یہ بیکٹیریا جگنو کی طرح روشنی پیدا کر سکتا ہے۔ اس میں جو چیز سب سے زیادہ حیران کن ہے وہ نہیں کہ یہ روشنی پیدا کر سکتا ہے بلکہ یہ کہ یہ کس وقت روشنی پیدا کرتا ہے۔ اگر یہ بیکٹیریا کم تعداد میں ہو تو کوئی بھی بیکٹیریا روشنی نہیں پیدا کرتا لیکن جب ان کی تعداد ایک خاص حد سے زیادہ ہو جائے تو پھر اچانک ہی تمام بیکٹیریا روشنی دینا شروع کر دیتے ہیں۔ تحقیق سے پتا لگا کہ یہ آپس میں کیمیائی زبان سے رابطہ کرتے ہیں۔ آبادی کا ایک فرد کچھ چھوٹے مالیکیولز کا اخراچ کچھ دیر بعد کرتا ہے جنہیں ہارمون سمجھ لیں۔ جب بیکٹیریا اکیلا ہے تو یہ مالیکیول ریسیو کرنے والا کوئی نہیں۔ لیکن جب تعداد زیادہ ہو گئی تو یہ مالیکویول بھی زیادہ ہو گئے۔ اب اس بیکٹیریا کے 'کان' یعنی ریسیپٹر ہیں۔ اس سے انہیں علم ہو جاتا ہے کہ اس کے ہمسائے کتنے ہیں۔ جب یہ تعداد ایک خاص حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر یہ اپنا روشنی کا سوئچ آن کر دیتے ہیں۔ (یہ روشنی دیتے ہی کیوں ہیں، یہ خود بڑا ہی زبردست اور دلچسپ رشتہ ہے جو ان کا ایک قسم کے آکٹوپس کے ساتھ باہمی تعاون کا ہے۔ تفصیل نیچے دئے گئے لنک سے)۔
اب اسے مالیکیولر بائیولوجی سے دیکھتے ہیں۔ بیکٹیریا کے پاس ایک سگنل بنانے والی پروٹین ہے جو ایک انزائم بناتی کر خارج کر رہی ہے اور دوسرا سگنل پکڑنے والی پروٹین ہے جو اس کی سطح پر ہے۔ یہ ایک تالے اور چابی کی طرح کام کرتے ہیں۔ یہ اپنے ماحول سے صرف ان مالیکیول کو پہچان سکتی ہے جو اسی قسم کے بیکٹیریا نے خارج کئے ہوں اور جب یہ نمبر ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو یہ سگنل کر دیتے ہیں کہ روشنی جلانے کا وقت ہو گیا۔ اس قسم کی ووٹنگ کا نظام ہر بیکٹیریا میں ہے جس کا مطالعہ کیا گیا۔
اس کے بعد دیکھنا شروع کیا کہ یہ رابطہ کرنے والے مالیکیول کیسے ہیں۔ جب مختلف بیکٹیریا کو دیکھا تو پتا لگا کہ ہر بیکٹیریا کی زبان مختلف ہے یعنی وہ مالیکیول بیکٹیریا کی ایک قسم سے ہی خاص ہے۔ اس کا بڑا حصہ ایک جیسا ہے جو کاربن نائیٹروجن اور آکسیجن سے بنی ایک زنجیر کی صورت میں ہے لیکن اس سے آگے ہر کسی کا اپنا دستخط ہے، جس سے ہر قسم کا بیکٹیریا صرف اپنی زبان بولتا اور سنتا ہے اور ان کی گفتگو پرائیویٹ رہتی ہے۔ بیکٹیریا صرف اپنی برادری میں نہیں رہتے بلکہ ہزاروں مختلف قسم کے بیکٹیریا بھی اڑوس پڑوس میں ہوتے ہیں۔ اس سٹڈی میں مزید یہ پتہ لگا کہ بیکٹیریا ایک اور زبان بھی بولتے ہیں جو ہر ایک کے لئے مشترک ہوتی ہے۔ یہ دوسری انزائم ہے جو کہ ایک قسم سے خاص نہیں بلکہ ہر قسم کے بیکٹیریا سمجھتے ہیں۔ اس سگنل کو بھیجنے والا اور ریسیو کرنے والا ریسپٹر مختلف ہے۔ اس سے بیکٹیریا نہ صرف یہ حساب لگا لیتے ہیں کہ وہ خود کتنے ہیں بلکہ اس سے کی جانے والی مردم شماری سے یہ بھی کہ وہ دوسروں کے تناسب میں کتنے ہیں۔ یہ اپنا رویہ اس تناسب کے حساب سے ڈھالتے ہیں۔ بیکٹیریا کی عالمی زبان والا مالیکیول سادہ ہے اور پانچ کاربن پر مشتمل ہے اور ابھی تک جتنی سٹڈی کی گئی، یہ ہر ایک میں مشترک ہے۔
بیکٹیریا کے بات چیت کے طریقے کو جان کر امید یہ کی جا رہی ہے کہ اینٹی بائیوٹک کے کم ہوتے اثر کا متبادل شاید ان کے آپس کے رابطے میں نقب لگا کر ڈھونڈا جا سکے۔