ڈنمارک کے فلولوجسٹ اوٹو جسپرسن لسانیات میں اپنی مہارت کے حوالے سے اس شعبے کا سب سے جانا ہوا نام ہیں۔ ان کی کتابیں آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔ انگریزی زبان کے سٹرکچر اور گروتھ پر ان کی لکھی ہوئی کتاب جو 1905 میں شائع ہوئی، اس موضوع پر ایک بہترین کتاب ہے۔ اگرچہ جسپرسن کی کتاب عمدہ ہے لیکن اس کے ابتدائی چند صفحات کو پڑھیں تو وہ بات کی صاف غمازی کر دیتے ہیں کہ یہ عصرِ حاضر کی لکھی ہوئی نہیں ہے۔ اس سے ایک پیراگراف۔
“جب میں انگریزی کا موازنہ دوسری زبانوں سے کرتا ہوں تو مجھے یہی لگتا ہے کہ “مردانہ” زبان ہے۔ یہ بالغ لوگوں کی زبان ہے اور اس میں بچگانہ پن یا زنانہ پن نہیں ہے۔ اس کو واضح کرنے کے لئے میں ہوائی کی زبان کا ایک فقرہ لکھوں گا، “آئی کونا ہیکی آنا آکو الیلا اوا ہوکیپا ایا مائی لا اوئیا می کے آلوہا پومے ہانا لوا”۔ کوئی ایک بھی لفظ نہیں جو واول سے ختم نہ ہوتا ہو اور کانسونینٹ دو سے زیادہ اکٹھے کبھی نہیں ملتے۔ اگر یہ سننے میں اچھی لگے بھی اور اس میں موسیقیت ہو تب بھی کیا اس میں کوئی شک ہے کہ یہ زنانہ اور بچگانہ قسم کی زبان ہے؟ ایسی زبان یہ بتاتی ہے کہ اس کو بولنے والے لوگ جوشیلے نہیں اور زیادہ توانائی نہیں رکھتے۔ اور ہم ان سے ایسی توقع بھی نہیں رکھتے۔ یہ صرف ایسے علاقوں میں ہو سکتا ہے جہاں دھوپ زیادہ رہتی ہو اور جہاں کی مٹی زرخیز ہو اور اس میں سے خوراک حاصل کرنے کے لئے زیادہ محنت نہ کرنا پڑتی ہو۔ فطرت سے اور دوسرے انسانوں کے مقابلے کی مشقت کی ضرورت نہ ہو۔ اطالوی اور ہسپانوی زبانوں میں بھی کچھ کچھ ایسا ملتا ہے لیکن ہمارے شمالی یورپ میں ایسا نہیں۔ یہ ان کی زبانوں سے بھی ظاہر ہے”۔
آج کو کوئی بھی پڑھنے والا اس پیراگراف کو پڑھ کر اس میں جنسی امتیاز، نسلی امتیاز، شووانزم جیسے خیالات کی بھرمار سے شاک ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خواتین بچوں کی طرح ہیں؟ کالونیل لوگ نکمے ہیں؟ مصنف کا کلچر برتر ہے؟ بالغوں کی زبان یا مردانہ زبان جیسے الفاظ کا جس طرح استعمال کیا گیا ہے، یہ بالکل ہی بے معنی ہے۔ بغیر شواہد کے پھر دو تھیوریاں پیش کرتے ہیں۔ فونولوجی شخصیت کی آئینہ دار ہے اور دوسرا یہ کہ گرم موسم کی وجہ سے سستی ہوتی ہے۔ کازیشن طے کرنا تو دور کی بات، اس میں کوریلیشن کا ڈیٹا بھی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ لسانیات، جو ان کا ہوم گراوٗنڈ ہے، یہاں اس پر گرفت بھی نہیں۔ واول کے زیادہ استعمال سے الفاظ ادا کرنے میں محنت کم نہیں بلکہ زیادہ لگتی ہے کیونکہ الفاظ لمبے ہو جاتے ہیں۔ اور واول کے بغیر زبان میں غلط لفظ سن اور سمجھ لینے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اس میں جو ایک اور اہم چیز نوٹ کرنے کی ہے، وہ یہ کہ جسپرسن کو کس قدر اعتماد ہے کہ وہ جو بھی کہہ رہے ہیں، ان کے پڑھنے والوں کے لئے قابلِ قبول ہو گا۔ ان کے اور ان کے پڑھنے والوں کے تعصب مشترک ہیں۔ “ہمارے شمالی یورپ کی زبانیں”، “کیا اس میں کوئی شک ہے”، “ہم ایسی توقع نہیں رکھتے”۔ خواتین اور دوسری نسلوں کو کمتر کہنے میں نہ کسی وضاحت کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی معذرت کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوٹو جسپرین کی بات یہاں پر کرنے کی وجہ یہ دکھانا ہے کہ معیار کس طرح بدل جاتے ہیں۔ یہ پیراگراف ایک سو سال پہلے کی انٹلکچوئل زندگی کی مثال ہے۔ ان کے ہم عصر دوسرے لکھاریوں کی تحریروں سے بھی اس طرح آسانی سے مواد دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ہربرٹ سپنسر کے یوجینکس کا وقت بھی تھا۔ یہ یقین کہ یورپ کے مفتوحہ علاقوں میں کمتر لوگ بستے ہیں جو حیوان اور انسان کے درمیان کی کڑیاں ہیں جن سے نازی نظریے نے جنم لیا۔ نازی نظریہ بھی بس اکیلا علیحدگی میں نہیں آیا تھا۔ کمزور لوگوں کی افزائشِ نسل پر پابندی امریکہ کی تیس ریاستوں، سکنڈے نیویا اور کینڈیا میں لگائی گئی تھی۔ نازی آئیڈیولوجی نے اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے کمتر اقوام کی بیخ کنی، یہودیوں، خانہ بدوشوں اور معذوروں وغیرہ سے معاشرے کو پاک کر کے مضبوط تر کرنے کے عمل کو بامِ عروج پر پہنچا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اس وقت سے اب بہت آگے بڑھ آئے ہیں۔ اب اس طرح کے خیالات دنیا بھر کے معاشروں کے پڑھے لکھے طبقات سے نکل چکے ہیں۔ کوئی باعزت شخص خواتین، دوسری نسلوں یا قومیتوں کو کمتر نہیں کہے گا۔ افراد کی بات کی جاتی ہے، گروہوں کی نہیں۔ صرف یہ سوچ کہ کسی کو بائیولوجی کے کسی فرق کی وجہ سے تعصب کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، ہمیں ناگواری کے احساس سے بھر دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وکٹورین عہد کے جنٹلمین آج کی دنیا میں آئیں تو ششدر رہ جائیں گے کہ آج کی دنیا میں سیاہ فام دانشور، خواتین نوبل انعام یافتہ سائنسدان، ممالک اور اداروں کی سربراہ، بنگلور میں سافٹ وئیر کی صنعت، یہ سب اب عام ہے۔ خواتین یا مرد، کالا یا گورا، پاکستانی یا چینی، ہر کوئی دنیا میں اپنا مقام حاصل کر سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بائیولوجی کی بنیاد پر برتے جانے والے تعصب ختم ہونے سے ہمارے تہذیب آگے بڑھ گئی۔ کوئی بھی اس پچھلے وقت کی طرف واپس نہیں جانا چاہے گا۔ لیکن اس کے ردِ عمل نے ایک اور غلط تصور کو جنم دیا جو اس وقت عام ہے۔ سماجی انصاف کے لئے کام کرنے والے بھی اکثر اسی غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ “کورے کاغذ” کا تصور ہے۔ یعنی انسان ایک کورے کاغذ کی طرح ہے، اس پر جو چاہے لکھ دو۔ اس کی کسی بھی طرح سے تربیت کی جا سکتی ہے۔ ایک والدین جو اپنے دو الگ بچوں کی پرورش کرتے ہیں، وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ تصور درست نہیں۔ جان لاک (جنہوں نے اس نظریے کو چرچ اور بادشاہ کے خلاف ہتھیار بنا کر پیش کیا) نے اس کو پہلی بار پیش کیا اور جان سٹورٹ مل نے آگے بڑھایا۔ آج کی سوشیولوجی اور سائیکلوجی میں ان کی فکر سے آگے بڑھائے جانے والے خیالات عام ملتے ہیں۔ یہ درست نہیں۔ اسی طرح ہی بے بنیاد ہیں جتنے اوٹو جسپرسن کے۔ قبول صرف اس لئے کر لئے جاتے ہیں کہ ان کو پڑھنے والوں کے تعصبات مشترک ہوتے ہیں۔
ہر شخص مختلف ہے، ہر انسان منفرد۔ جینیات دماغی سٹرکچر کو تشکیل دیتی ہیں۔ دماغی سٹرکچر سے رویہ بنتا ہے۔ اگرچہ جینیات امکانات کی بنیاد پر کام کرتی ہیں لیکن یہ شخصیت کی رینج کو سیٹ کر دیتی ہیں۔ متشدد، خود میں رہنے والا، لاپرواہ، یاسیت پسند، قابلِ اعتبار، خطروں سے کھیلنے والا، اس کی جڑ جینات میں ہے۔ کوئی بھی کورا کاغذ نہیں، اپنے گہری جبلتیں رکھتا ہے۔