جابر شاہ ہمارے علاقے کی مشہور ترین ہستی ہیں ‘ بقول شخصے ’اتنے غریب ہیں کہ پیسوں کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں‘۔مال و دولت کی فراوانی کا یہ عالم ہے کہ بٹوے میں پانچ ہزار سے کم کا نوٹ رکھنے میں بھی شرم محسوس کرتے ہیں۔ جابر شاہ کی شہرت ایک بدمعاش کی ہے، علاقے میں ان کی ایسی دہشت ہے کہ دن کی روشنی میں بھی لوگ ان کی گلی سے دور ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔جابر شاہ کا تعلق قبضہ گروپ سے ہے‘ خالی پلاٹوں پر قبضے کرلینا ان کے بائیں پاؤں کا کھیل ہے‘ موصوف کافی عرصہ تک ڈکیتیوں میں بھی ملوث رہ چکے ہیں لیکن عجیب بات ہے کہ جب بھی کوئی تھانے میں ان کی شکایت کرتاہے، پولیس آتی ہے اور جابر شاہ کے گھر سے خوشی خوشی باہر نکل کر فوراًمدعی کو گرفتار کرلیتی ہے۔پورا علاقہ جابر شاہ سے تنگ ہے لیکن کچھ نہیں کر سکتا۔جو بھی ایسی کوئی ہمت کرتاہے ‘ جابر شاہ کے غنڈے اس کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کے باجود سب حیران ہیں کہ جابر شاہ کا بیٹافیصل اپنے باپ سے بالکل مختلف ہے۔ یہ بچہ میٹرک کا سٹوڈنٹ ہے، بہت اعلیٰ تعلیمی ادارے میں پڑھتا ہے لیکن آج تک کبھی کسی جرم میں ملوث نہیں پایا گیا۔ لڑائی جھگڑے‘ قبضے اور بدمعاشی کے تمام معاملات جابر شاہ کے کارندے ہی سرانجام دیتے ہیں۔تین چار دفعہ میری فیصل سے ملاقات ہوئی تو میں نے اسے اُس کے باپ سے یکسر مختلف پایا، ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی نہایت شریف والدین کی اولاد ہے۔علاقے کے کئی لوگوں کو شک ہے کہ فیصل ، جابرشاہ کا سگا بیٹا نہیں۔لیکن یہ خیال اس وقت غلط ثابت ہوگیا جب میری جابر شاہ سے ملاقات ہوئی۔جابر شاہ نے انتہائی سنجیدگی سے بتایا کہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کا بیٹا بھی اس کی راہ پر چلے لہذا بیٹے کی تربیت میں اس نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ وہ صاف ستھری زندگی گذارے۔جابر شاہ کی یہ بات میرے لیے نہایت تعجب کا باعث تھی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا کہ ’شاہ جی! ویسے آپ کو چاہیے کہ بدمعاشی والے کاموں میں بھی صاحبزادے کو اپنے بندوں کے ساتھ بھیجا کریں‘‘جابر شاہ نے خوفناک نظروں سے میری طرف دیکھا اور غرایا’تمہارا مطلب ہے اپنابیٹا ضائع کروا لوں؟‘‘۔میں نے سعادتمندی سے جابر شاہ کی اصول پسندی کی تعریف کی اور پتلی گلی سے نکل گیا۔
آپ نے اپنے اردگرد بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے جن کی اولادیں ان کے بالکل برعکس ہیں، مولویوں کے بیٹے بدمعاش بنے ہوئے ہیں اور بدمعاشوں کی اولادیں درس و تدریس کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں۔ اصل میں ہم میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کی اولاد برائی کے راستے پر چلے ، برائی کا ٹھیکہ ہم دوسروں کی اولادوں کو سونپ دیتے ہیں۔اپنے بچوں کو ہم یہی نصیحت کرتے ہیں کہ بیٹا اگر کوئی موٹر سائیکل والا تمہارا موبائل چھیننے کی کوشش کرے تو زیادہ بہادری مت دکھانا، آرام سے موبائل اس کے حوالے کردینا۔۔۔لیکن جب ہمارا ملازم ہمیں بتاتا ہے کہ اس کا موبائل کسی نے چھین لیا ہے تو غصے سے ہماری کنپٹیاں سلگنے لگتی ہیں’’ تم نے کیوں اتنے آرام سے اسے اپنا موبائل دے دیا، لگانی تھی اس کے منہ پر ایک‘‘۔
ہماری اولادیں چونکہ ہماری ہیں اس لیے ہمیں لگتاہے کہ وہ معصوم ہیں، نیک ہیں اور انہیں ایسا ہی رہنا چاہیے ‘ البتہ باقی سب لوگوں کی اولادیں مرنے مارنے کے لیے ہیں اس لیے انہیں سراپا بدمعاش ہونا چاہیے۔آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ کوئی بدمعاش اپنے دشمن سے بدلہ لینے کے لیے گیا اور ساتھ میں اپنی اولاد کو بھی لے گیا۔ عموماً یہ اولادیں کسی کالج یا یونیورسٹی کے ہاسٹل میں مقیم ہوتی ہیں اور بدلہ لینے کے لیے جانے والے لوگ زرخرید گماشتے ہوتے ہیں۔
پیروں فقیروں کے آستانوں پر بھی آپ کو کبھی ان کی اولادیں نظر نہیں آتیں، یہ اپنے بچوں کا علاج ماہر ڈاکٹر سے کرواتے ہیں اور دوسروں کی اولادوں کو جھاڑ پھونک پہ لگائے رکھتے ہیں۔روحانیت کے دعویدار بیشتر لوگوں کی اولاد یں سو فیصد عملی زندگی گذار رہی ہیں لیکن خود اِن کے مریدین اپنے مرشد کے صدقے واری جارہے ہوتے ہیں، مرشد کے کہنے پر اپنی اولادوں کوقتل کردیتے ہیں، مرشد کے کہنے پر اپنی اولادوں کا مستقبل تباہ کرلیتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کہ آخر مرشد کی اولاد کیوں مرشد کے نقش قدم پر نہیں چل رہی۔
سیاست میں بھی ایسا ہی ہوتاہے، سیاستدانوں کی اولادیں اول تو جلسے جلوسوں میں شرکت ہی نہیں کرتیں اور اگرآ بھی جائیں تو سخت سیکورٹی کے حصار میں رہتی ہیں، گولیاں اور ڈنڈے کھانے والے وہی ہوتے ہیں جو کسی اور کی اولاد ہوتے ہیں۔آ پ نے کسی احتجاج میں سیاستدانوں کی اولادوں کو دھوپ میں بیٹھے نہیں دیکھا ہوگا، موسمو ں کی سختیاں صرف کارکن برداشت کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ وہ ایک عظیم شخصیت کے عظیم مقصد کا حصہ ہیں۔میں نے کسی دھرنے ، لانگ مارچ یا جلاؤ گھیراؤ میں نواز شریف، طاہرالقادری، زرداری یا عمران خان کی اولادوں کو شریک ہوتے نہیں دیکھا، یہ اولادیں اگر کبھی نظر بھی آئیں تو کسی محفوظ ترین مقام پر ، نہ ان کی اولادوں پر کبھی لاٹھی چارج ہوتاہے، نہ زمین پر سونا پڑتاہے، نہ گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگانے پڑتے ہیں اور نہ بھوکے رہنا پڑتاہے۔ یہ اولادیں کسی احتجاج میں شریک ہوبھی جائیں تو ان کے لیے یہ بھی ایک خوش نما ایڈونچر ہوتاہے، یہ حفاظتی حصار میں اپنے اردگرد رینگتے ہوئے بے عقل کیڑوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اورتصور کرلیتے ہیں کہ یہ آقا اور باقی سب غلام ہیں۔یہ اپنی لڑائی میں دوسروں کی اولادوں کو استعمال کرنے کا فن خوب جانتے ہیں،ان کی اپنی اولادیں نہ ڈنڈا اٹھاتی ہیں نہ بلاّ۔۔۔لیکن دوسروں کی اولادوں کو یہ ہلہ شیری دیتے ہیں کہ ’مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘۔یہ اپنی اولادوں کے منہ سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کا دھیان رکھتے ہیں، اچھے برے کی تمیز سکھاتے ہیں لیکن دوسروں کو اولادوں کو تھپکی دیتے ہیں کہ جتنی گالیاں نکالو گے اتنی ہی عزت پاؤ گے۔کاش چیف جسٹس بحالی کی تحریک میں لانگ مارچ کے لیے نکلنے والے نواز شریف کی بلٹ پروف گاڑی کے آگے پیدل چلنے والوں میں ان کی اپنی اولاد بھی شامل ہوتی۔۔۔ کاش قادری صاحب کے دھرنوں میں ڈی چوک کی پتھریلی زمین پر ان کے اپنے صاحبزادے بھی دراز ہوتے۔۔۔ کاش زرداری صاحب کے جلوسوں میں بلاول بھی پارٹی کا جھنڈا اٹھائے ہجوم کے درمیان ہوتا۔۔۔کاش عمران خان کے دھرنوں اور جلوسوں میں ان کی اپنی اولاد بھی ’گونواز گو ‘ کے نعرے لگاتی دکھائی دیتی۔ ہزاروں جوان اولادیں اسی اندھی تقلید میں اپنی جان سے گئیں لیکن اس سے کیا فرق پڑتاہے’تُو نہیں اور سہی ،اور سہی، اورسہی‘۔۔۔کبھی کبھی تو لگتاہے کہ ہم اپنی اولادیں اسی لیے جوان کر رہے ہیں کہ وہ ہماری بجائے اِن سیاستدانوں کا سہارا بنیں، ان کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دیں ، اِن کے حصے میں جیت آجاتی ہے اور ہمارے حصے میں جنازے۔آپ نے کسی کارکن کے مرنے پر کسی لیڈر
کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے ہوں گے، روتا وہی ہے جس کا اپنا مرتاہے۔۔۔کسی کے ماں باپ یہ نہیں چاہتے کہ ان کی اولادلڑائی مارکٹائی والے احتجاج کا حصہ بنے، لیکن اولاد کے لیے ماں باپ سے زیادہ لیڈر اہم بن جائے تو اِسے پنجابی میں کہتے ہیں’کوڑھ مغز‘۔۔۔!!!
یہ تحریر اس لِنک سے لی گئی ہے۔
“