بازار سے گزرتا یہ شخص مسلسل اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ کبھی دائیں طرف دکانوں کو دیکھتا کبھی بائیں طرف بلند و بالا مکانوں! عجیب بات تھی کہ اُس کی بائیں آستین پر بیسیوں مکھیاں بیٹھی تھیں اتنی ہی ساتھ ساتھ اُڑتی جا رہی تھیں اور بھنبِھنا رہی تھیں۔ اچانک اس کی نظر اُس وسیع و عریض مسجد پر پڑی جو بازار کے وسط میں واقع تھی۔ مسجد کے لمبے چوڑے صحن میں ایک طرف نوجوان طلبہ حلقہ زن تھے تو دوسرے گوشے میں چھوٹے بچے سبق پڑھ رہے تھے۔ اُس کی نظریں بچوں پر پڑیں اور وہیں ٹھہر گئیں۔ وہ دیر تک انہیں دیکھتا رہا۔
صحن کے جس حصے میں طلبہ حلقہ باندھے‘ محو درس تھے‘ وہاں ایک بزرگ تشریف فرما تھے جو ان طلبہ کے استاد تھے۔ انہوں نے اُس شخص کی حرکات و سکنات دیکھیں اور پھر اپنے شاگردوں کو بتایا کہ یہ شخص اس شہر کا نہیں ہے۔ اس کے بائیں ہاتھ میں کوئی شیرینی ہے اور یہ پیشے کے لحاظ سے بچوں کا مدرس ہے۔ ایک شاگرد اُٹھا اور جا کر اُس شخص سے اِن باتوں کی تصدیق چاہی۔ تینوں باتیں درست نکلیں شاگردوں کے پوچھنے پر استاد گرامی نے بتایا کہ یہ شخص جس طرح مسلسل اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا‘ اُس سے صاف ظاہر تھا کہ اجنبی تھا۔ مقامی شہری کو کیا پڑی ہے کہ ہر روز جہاں سے گزرتا ہے وہاں کے یمین لیسار کو غور سے دیکھے۔ بائیں ہاتھ میں شیرینی ہونے کی وجہ سے وہاں مکھیوں کا ہجوم تھا جو دائیں ہاتھ اور دائیں آستین کے اردگرد نہیں تھیں۔ رہی تیسری بات تو وہ صرف بچوں کو غور سے دیکھ رہا تھا اور بہت دیر تک دیکھتا رہا۔
یہ واقعہ امام ابوحنیفہؒ سے منسوب ہے۔ مسجد کوفہ کی تھی۔ حوالہ نہیں یاد آ رہا۔ اگر یادداشت دھوکہ نہیں دے رہی تو مناظر احسن گیلانی کی تصنیف ’’امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی‘‘ میں پڑھا تھا!
ایسا ہی واقعہ چند ماہ پہلے پاکستان میں پیش آیا۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی فیکٹری کے کچھ حصے خراب ہو گئے۔ ایسی ہی ایک فیکٹری اس کمپنی کی مشرق وسطیٰ میں بھی تھی۔ وہاں تعینات ایک انجینئر کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ (غالباً حطار میں واقع) اُس فیکٹری کی مرمت کرے‘ یہ جہاں دیدہ اور سرد و گرم چشیدہ انجینئر کئی ہفتے یہاں رہا۔ پہلے اُس نے مرمت کا کام کیا۔ پھر وہ عرصہ جو مرمت شدہ حصوں کی کارکردگی چیک کرنے کے لیے لازم تھا‘ یہاں گزارا ان سارے ایام میں ایک مقامی شخص جو پڑھا لکھا تھا اور اُسی کمپنی کا ملازم تھا‘ اُس کے معاون کے طور پر اُس سے وابستہ رہا‘ یہ مہمان نوازی کا بھی انچارج تھا اور عمومی دیکھ بھال کا بھی! اسے پروٹوکول افسر کہہ لیجئے۔ صبحدم مہمان کی قیام گاہ پر حاضر ہوتا پھر دن بھر اس کے ساتھ ہی رہتا۔ مہمان کئی دوسرے شہروں میں بھی گیا۔
رخصتی کا وقت آیا تو پروٹوکول افسر نے کہا کہ وہ ماضی میں کئی غیر ملکی مہمانوں کا‘ اور وفود کا بھی‘ پروٹوکول افسر رہا۔ سب پاکستان کے بارے میں سوالات پوچھتے ہیں۔ یہاں کی سیاست کے متعلق‘ عوام کی اقتصادی اور سماجی حالت کے بارے میں‘ اُن کے معاشرتی رویوں کے بارے میں‘ مگر آپ نے طویل قیام کے دوران کچھ نہ پوچھا۔ پروٹوکول افسر نے مہمان کو بتایا کہ یہ سوال اُس کے ذہن میں بلبلے کی طرح اٹھتا۔ پھر ٹوٹ جاتا اور اس بلبلے میں دوبارہ ہوا بھر جاتی!
میزبان مسکرایا۔ کہنے لگا ’’میں جو کچھ جاننا چاہتا تھا‘ پوچھے بغیر ہی جان گیا ہوں۔ دنیا دیکھی ہوئی ہے۔ نبض پر ہاتھ رکھتا ہوں تو تشخیص کر لیتا ہوں۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں! سوالات نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں بے نیاز
(INDIFFERENT)
تھا۔ یا یہاں آنے سے پہلے ہی یہاں کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا! میں نے مشاہدہ کیا نبض پر ہاتھ رکھا اور جو جاننا چاہتا تھا‘ پوچھے بغیر معلوم کر لیا۔
’’تو ازراہ کرم یہ تو بتاتے جائیے کہ میرے ملک کے بارے میں آپ کا علم کیا کہتا ہے‘‘؟
’’غور سے مشاہدہ کرنے پر میں نے تین نتائج اخذ کئے ہیں۔ اوّل‘ یہاں کے حکمران کرپٹ ہیں۔ دوم‘ یہاں افرادی قوت پر اور
Human Development
پر توجہ نہیں دی جا رہی! بجٹ کا ازحد معمولی حصہ اسی مد میں صرف کیا جاتا ہے جو قابل مذمت ہے۔ سوم‘ عوام شہری شعور (سوک سنس) سے عاری ہیں! تم تعلیم یافتہ نوجوان ہو۔ اب ان نتائج کی پشت پر جو مشاہدات کارفرما ہیں‘ اُن کا بھی پوچھو گے۔ تو بتائے دیتا ہوں!
میں نے شاہراہوں کی حالت یکسر خراب دیکھی ہے۔ شاید ہی کوئی سڑک بین الاقوامی معیار پر پوری اترتی ہو۔ کہیں ٹوٹی ہوئی ہیں‘ کہیں ان کے کئی کئی حصے نیم پختہ ہیں! کہیں پھوڑوں اور آبلوں کی صورت درمیان سے اُوپر اٹھی ہوئی ہیں یوں کہ ان پر گاڑی چلائی ہی نہیں جا سکتی! یہ صورتحال وہاں ہوتی ہے جہاں حکمران کرپٹ ہوں۔ اس لیے کہ جہاں حکمران کرپٹ ہوں‘ وہاں عمّال بھی کرپٹ ہوتے ہیں۔ وہاں انجینئر اور ٹھیکیدار بھی کرپٹ ہوتے ہیں۔ یہ کرشن ہر جگہ نفوذ کر جاتی ہے۔ یونیورسٹیوں کے امتحانی نتائج میں‘ بیورو کریسی کی ترقیوں اور تعیناتیوں میں‘ پُلوں میں اور سرکاری عمارتوں میں‘ مگر یہ سب مقامات ہیں جو چھپتے ہیں نہ چھپائے جا سکتے ہیں! ہر شخص امیر ہو یا غریب انہیں دیکھتا ہے۔ سیّاح ملک کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے سب سے پہلے سڑکوں کو دیکھتے ہیں۔ جو ممالک شفافیت میں سرفہرست ہیں جیسے نیوزی لینڈ‘ ڈنمارک‘ سوئٹرزلینڈ‘ سنگاپور‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا‘ وہاں کی شاہراہیں بہترین حالت میں ہیں!
پھر میں نے عوام کو غور سے دیکھا۔ سڑکوں کے اردگرد بس سٹاپوں پر کھڑے لوگوں کو دکانوں میں خریداری کرتے لوگوں کو‘ پُلوں سے گزرتے لوگوں کو‘ فیکٹریوں میں داخل ہوتے اور باہر نکلتے لوگوں کو! اکثریت کا ظاہر بھی قابل رحم ہے اور اندر سے بھی یہ کھوکھلے‘ سطحی اور کچے ہیں! اکثر کے لباس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اقتصادی ابتری کا شکار ہیں! اقتصادی ابتری اس امر کی علامت ہے کہ تعلیم کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے نہ بجٹ کافی ہے۔ صحت کے نکتہ نظر سے ناقابل رشک بریکٹ میں ہیں! بیماریاں عام ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت اصطبلوں سے بھی بدتر ہے۔ ڈاکٹر موجود ہیں تو آلات نہیں اور آلات حاضر ہیں تو ڈاکٹر نا موجود! لوگوں سے بات چیت کی جائے تو
صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ تربیت یافتہ نہیں! ہر بات انداز سے کریں گے اور اپنی رائے کو حتمی سمجھیں گے۔ میں نے ایک بظاہر تعلیم یافتہ شخص سے پوچھا کہ تمہاری نظر میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے۔ اس نے ایک لحظہ توقف کئے بغیر جواب دیا امریکہ! پوچھا کیسے؟ کہنے لگا ہمارے خلاف سازشیں کرتا ہے! میں نے پوچھا‘ کیا امریکہ نے تمہیں سکول اور ہسپتال بنانے سے روکا ہے اور کیا وہ کہتا ہے کہ فلاں کو ووٹ دو! اس پر وہ خاموش ہو گیا۔
رہا یہ نتیجہ کہ عوام شہری شعور سے عاری ہیں تو اس کا سب سے بڑا ثبوت پاکستان کی ٹریفک ہے یہ دنیا کی بدترین ٹریفک ہے! ہر شخص ہر وقت قانون توڑ رہا ہے۔ چھوٹی کار والا بھی‘ مرسڈیز اور بی ایم ڈبلیو والا بھی۔ بس ڈرائیور بھی‘ سوزوکی والا بھی اور موٹر سائیکل والا بھی۔ یہاں تک کہ پیدل چلنے والا بھی۔ میں نے لاتعداد لوگوں کو دیکھا جو گاڑیاں‘ دوسری گاڑی کے عین پیچھے پارک کر رہے ہیں! پرسوں تم مجھے فلاں مارکیٹ لے گئے۔ میں نے دیکھا کہ پارکنگ سے ایک گاڑی باہر گئی۔ ایک شخص پہلے سے جگہ خالی ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ ابھی وہ وہاں پارک کرنے کے لیے پر تول ہی رہا تھا کہ زُوں کر کے ایک اور گاڑی کہیں سے آئی اور اُسے کاٹتی ہوئی خالی جگہ پر پارک ہو گئی! میں ستر ممالک میں گیا ہوں۔ قیامت کا جو منظر یہاں موٹر سائیکلوں والے‘ بسوں اور ویگنوں والے اور بالخصوص ٹرکوں والے‘ برپا کر رہے ہیں‘ کسی ملک میں نہیں دیکھا!
پروٹوکول افسر سارا واقعہ سن چکا تو خاموش ہو گیا۔ ہم نے چائے پی! مگر ہم خاموش رہے! ہم نے کوئی بات کی نہ اِدھر اُدھر دیکھا‘ نہ ایک دوسرے ہی سے نظریں ملائیں!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“