{پئیر ماشرے کا سوال}
1966 میں یساریت پسند ادبی نظریہ ساز اور تنقید نقاد پئیر ماشرے {۔ پیدائش ۱۷ فروری ۱۹۳۸ Pierre Macherey}کی کتاب " ادبی نظرئیے کی پیداور A theory of literary production}" فرانسیسی زبان میں شائع ہوئی۔ ، یہ ان کا کا پہلا اور سب سے مشہور اور اہم کام تھا۔ اس کتاب نے تنقیدی نظرئیے میں بہت سے فکری بتوں کو پاش پاش کیا اور متن شکنی کی ایک جرات مندانہ بنیاد فراہم کی۔ اور نظریاتی حکمت کو چیلنج کرنے کی جسارت کی اور اس کتاب کے چھپنے کے بعد انھین فوری طور پر ادبی نظریہ کی ایک اہم شخصیت کے طور پر اپنے شناخت بنائی اور ان کے نظریات کو لعن طعن کے بعد جاصی حس تک قبولیت ملی۔ کیا۔ روٹولا کلاسیکی کی حیثیت سے ان کے ادبی تنقیدی نظرئیے کے بعد دوبارہ نشاندہی سے کچھ نئے سامعین کے لئے کچھ بنیادی خیالات سامنے آتے ہیں اور ساخیتاتی افق کر نئی مگر متنازعہ مباحث کا بھی آغاز ہوا جو قاری کو پوری طرح سے نئے انداز میں فکری طور پر قائل کرتے ہیں۔ جو ان نئے نظریات اور افکار کو سوچنا اور پرکنا اور اس کے ترویچ میں حصہ لیناچاہتا تھا۔ یہ کتاب نو یساریت کی وساطت سے فن اور ادب کو نئے متنی مطالعوں سے روشناس کرواتی ہےاور روایتی جمالیات کو یکسر مسترد کردیتی ہے۔ ادب کو ایک واہمہ بھی کہتے ہیں۔ اور مارکسی حوالے سے ادب کی نئی مباحث کو شروع کرنے پر زور دیتے ہیں۔ افہام و تفھیم کے امکانات سے فکری جانبداری کے خلاف انحراف کرتے ہوئے اعلان جنگ بھی کرتے ہیں۔ ان کے خیال مینں ائیڈالوجی کی اصطلاح، عقائد، رجحاانات اور عادات کی محسوسات اور معاشی بے ۔ دہاریت کو افزائیشی طور پر خود کارانہ طور پر ساختیاتی سرحدوں میں داخل کردیتے ہیں۔ آئیڈیالوجی معاشرتی قوتوں کی غیر موجودگی میں مخصوص ثقافت میں رہتے ہوئے زور و جبر کے لیے ڈھال بن جاتے ہیں۔ ادب آئیڈیالوجی کو تشکیل دے کر تمثالی روابط کو اصل معاشی احوال سے منسلک کرکے نئی صورتحال پیدا کردیتے ہیں یہاں تک کہ ائیڈیا لوجی میں افتراق کے چگاف بھی ڈال دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ آئیڈیالوجی ہر مسئلے کا حل پیش کرتی ہے۔ ماشرے کے خیال میں " شعور" سے ہی سے آئیڈیالوجی تشکیل پاتی ہے۔ اور متن کی مختلف ہیتوں پر آئیڈیا لوجی سرایت کر جانا ہی متں کے سلسلے میں فطری عمل ہے۔ تمثالیت مخاطبے { ڈسکورس} کے لیے موار فراہم کرتے ہوئے حقائق کی ترجیحات کو ابھارتی ہے۔ جب یہ عمل متن پر حاوی ہو جاتا ہے تو متن کے افتراقات اور اس میں در آنے والا کھوکھلا پن خود بہ خود ابحر کر نمیان اور واضح ہو جاتا ہے لہذا حقیقت پسندانہ ادیب یہ کوشش کرتے ہیں کہ متن کےعناصر کی وحدتوں میں شعوری طور پر جگہ دین۔ جس میں نھول بھی آجاتا ہے یوں متن آئیڈیالوجیکل مخاطبے کی جانب رجوع ہوتا ہے۔
پئیر ماشرے نے اپنی اس کتاب میں تنقیدی فیصلے، ادبی ساخت، آزادی اور خودمختاری، اصل زبان، تمثال کا تصور فکشن کا التباس ، تخلیق اور پیداوار، متن کی گہرائی اور پیچیدگی اور ٹاالسٹئی پر نظریاتی اور فکری بحث کی ہے۔ اس کتاب کا دیباچہ برطانوی ادبی اور ثقاافتی نقاد اور کیتھولک راہب ٹیری ایگلٹن نے لکھا ہے۔ میری کتاب " ساختیات،تاریخ نظریہ تنقید " { ۱۹۹۹دہلی}[لاہور۲۰۱۹} میں پئیر ماشرے پر فکری اور نظریاتی بحث شامل ہے۔ یہ کتاب " ریختہ " کی سائٹ پر موجود ہے۔