کون سی آزادیء اظہار رائے؟ ہمیں خاموش ہو جانا چاہیے
ہندو مت میں گائے بے انتہا مقدس ہے۔ اسے کائنات میں ’زندگی کی علامت‘ قرار دیا جاتا ہے۔ مجھے گائے کا احترام کرنا ہے اور سوچنا تک نہیں ہے کہ اسے کاٹ کر کھایا جا سکتا ہے۔ مجھے شوہر کے مر جانے کے بعد آگ میں پھینکی جاتی عورتوں کو جل کر بھسم ہوتے دیکھنا ہے، مگر آواز نہیں اٹھانی، کیوں کہ اس سے یہ تماشہ دیکھتے تماش بینوں کی دل آزاری ہو سکتی ہے۔
مجھے عیسائیوں کے اس عقیدے کا احترام کرنا ہے کہ عیسیٰ خدا کا بیٹا تھا اور تمام انسان پیدائشی گناہ گار ہیں اور جب تک کوئی راہب کوئی پادری مجھے بپتسمہ نہیں دیتا اور دائرہ عیسائیت میں نہیں لاتا، میں اس وقت تک ناپاک، گناہ گارم منحوس اور بدقسمت رہوں گا۔ مجھے یہ پوچھنے کی ہرگز اجازت نہیں کہ کیا خدا کو انسانوں کے گناہ معاف کرنے کے لیے اپنے ہی بیٹے کو زمین پر ایسی دل دوز موت دینا پڑتی ہے؟ مجھے عیسائیوں کے اس عقیدے کے خلاف کچھ نہیں بولنا، کیوں کہ اس سے ان کی دل آزاری ہو سکتی ہے۔
مجھے یہودیوں کے اس عقیدے کا بھی احترام کرنا ہے کہ بنی اسرائیل خدا کی برگزیدہ ترین قوم ہے اور بہ قول عہدنامہ قدیم ’خدا بنی اسرائیل اور مصریوں (دیگر انسانوں) میں فرق‘ کرتا ہے۔ مجھے عہدنامہء عتیق کی ان ہدایات کا احترام بھی کرنا ہے کہ تہذیب بابل پر ٹوٹ پڑو اور وہاں بچوں تک کو ذبح کر دو، ’’ہاں چوں کہ بچے گناہ گار نہیں ہوتے، اسے لیے وہ جنت میں چلے جائیں گے، تاہم تم کسی کو مت چھوڑنا۔‘‘ مجھے بائبل کے اس باب کا احترام بھی کرنا ہے، جو مجھے کہتا ہے کہ انسانیت کی تاریخ دس ہزار برس سے بھی کم پرانی ہے۔ مجھے چالیس ہزار سال پرانی انسانی کھوپڑیاں اپنے سامنے پڑی دیکھنے کے باوجود اس بات پر اصرار کرنا ہے کہ بائبل درست کہتی ہے۔
مجھے نمیبیا کے شمال میں ایک آدم خور قبیلے کی اس عورت کے اس یقین کا احترام بھی کرنا ہے، جو اپنے مردہ بچے کو قبیلے کی روایت کے مطابق کاٹ کاٹ کر کھا رہی تھی، اور اس بات مُصر تھی کہ وہ اپنے اس مردہ جگر گوشے کو مٹی اور آگ جیسے گھٹیا عناصر کے سپرد کیسے کر سکتی ہے اور اپنے وجود سے پیدا ہونے والے اس بچے کو اپنے وجود سے دور کیسے کر سکتی ہے۔
مجھے ایمازون کے بے لباس قبیلوں کے عقیدوں کا احترام بھی کرنا ہے، جہاں لباس پہن لینا، ’’فطرت کی بنیاد ہی سے دغا‘‘ ہے۔
مجھے ان یونانی دیوتاؤں اور دیومالائی کہانیوں کا احترام بھی کرنا ہے، جو زیوس اور انسانی عورت کے اختلاط سے ہرکولیس جن رہے ہیں، جہاں سیارے خدا بن کر زمین کے گرد رقصاں ہیں اور جہاں زمیں اس کائنات کا مرکز ہے۔ میں اس کے برخلاف کچھ کہہ کر کوئی سوال اٹھا کر قدیم یونانیوں کی دل آزاری نہیں کر سکتا۔
مجھے ہزاروں برس قبل آگ کو خدا سمجھتے لوگوں کا بھی احترام کرنا ہے اور مصر میں دریائے نیل کی طغیانیوں کے واسطے نوجوان دوشیزاؤں کو لہروں کے سپرد کرنے کی رِیت پر بھی سوال نہیں کرنا، اس سے ان مصریوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔
مجھے بدھ بھکشوؤں کا بھی احترام کرنا ہے اور بدھا کے اس رویے پر بھی سوال کرنے سے احتراز کرنا ہے کہ اپنی بیوی اور بچوں کو تنہا چھوڑ کر کوئی کیسے نروان پا سکتا ہے؟
مجھے ایران میں خمینی کے خلاف اور سعودی عرب میں بادشاہ کے خلاف بھی کچھ نہیں بولنا، کیوں کہ اس سے ان ایرانیوں اور سعودیوں کی دل آزاری ہو سکتی ہے۔ مجھے اسرائیل میں فلسطینیوں کے حق میں، ترکی میں کردوں کے حق میں، میانمار میں روہنگیا کے حق میں، چین میں ایغوروں کے حق میں، پاکستان میں بلوچوں کے حق میں، بھارت میں کشمیریوں کے حق میں اور سری لنکا میں تاملوں کے حق میں بات نہیں کرنی، اس سے مقامی اکثریت کی دل آزاری ہو سکتی ہے۔
مجھے سائنس نہیں پڑھنی، کیوں کہ وہ میرے نظریات پر سوالات اٹھا سکتی ہے۔ وہ مجھے بتا سکتی ہے کہ اس کائنات میں ہر شے حرکت اور مستقل ارتقا کی اذیت سے دوچار ہے مگر نظریات ٹھہرے ہوئے ہیں۔
میرے سوچنے، میرے بولنے، میرے سوال اٹھانے، میرے تاریخ کا مطالعہ کرنے، میرے پڑھنے، میرے تحقیق کرنے، میرے غور و فکر کرنے جیسے عمل کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچا سکتے ہیں۔ مجھے کسی بھی مذہب کی توہین نہیں کرنی، مجھے علم کا راستہ ترک کر دینا چاہیے، مجھے غور و فکر چھوڑ کا ہجوم کا حصہ بن جانا چاہیے۔ مجھے خاموش ہو جانا چاہیے۔
اقوام متحدہ کا چارٹر کہتا ہے کہ بہ حیثیت انسان، ہر شخص کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ جو چاہے سوچے اور جو چاہے بولے۔ مگر یہ انسانوں کا بنایا ہوا دستور ہے، مجھے اس کا احترام کرنے کی ہر گز ضرورت نہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“