عموماٙ یہ فتوے صادر کئے جاتے ہیں کہ فلاں شاعر ہے فلاں نہیں، شاعرات کے بارے میں لوگوں کو کچھ زیادہ ہی غلط فہمیاں ہیں، ہمارے نزدیک یہ ایک فضول بحث ہے، میں اسے وقت کا زیاں تصور کرتا ہوں، شاعر یا غیر شاعر کی سند دینے والے ہم کون ہوتے ہیں، زیادہ پریشانی کی ضرورت نہیں ، وقت ثابت کر دیتا ہے کہ کون شاعر ہے کون نہیں۔ ہر پانچ دس سال بعد ، شعراء اور شاعرات کی ایک کھیپ آتی ہے جن میں شاعرانہ قوت ہوتی ہے ، وہ ادبی منظر نامے کا حصہ بن جاتے ہیں ، اور جو اس صلاحیت سے محروم ہیں وہ زمیں بوس ہوجاتے ہیں ۔ محشر بد ایونی مرحوم نے غالباٙٙ اسی تناظر میں یہ شعر کہا تھا کہ
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیئے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
ہم بھی گزشتہ 50 برس سے کراچی کے ادبی منظر نامے کا حصہ ہیں ہم صورت حال سے بے خبر نہیں لیکن اس قسم کے مباحث سے ہمیشہ ہم نے خود کو دور رکھا ۔ راغب مراد آبادی ، وقار صدیقی اجمیری، حکیم انجم فوقی بدایونی ، بابا اسماعیل انیس ، نازش حیدری دہلوی، استاد رشید انجم لکھنوی، ساقی امروہوی اور اعجاز رحمانی کا شمار ، اساتذہ فن میں ہوتا تھا۔ ان کے شاگردوں کی فوج ظفر موج ان کے ساتھ چلتی تھی ، لیکن ان اساتذہ کی وفات کے بعد کیا ہوا؟ سب ایک ایک کرکے غائب ہوگئے، بس وہی رہ گئے ، جن کے اندر شاعری موجود تھی۔ اگر ہمارے سامنے کوئی بےوزن شعر بھی پڑھ رہا ہوتا ہے تو ہم خاموشی ہی اختیار کرتے ہیں ۔ یہ وہ زمانہ نہیں کہ کسی کے ساتھ نیکی کی جائے ۔ کئی برس پہلے کی بات ہے کہ ایک مشاعرے میں ایک نوجوان شاعر نے دو شعر " بے وزن" پڑھ دیئے، ہم نے مشاعرے کے بعد اس نوجوان کو الگ لے جا کر بے وزن اشعار کی نشان دھی کی، شکریہ کی بجائے انہوں نے کہا کہ غزل کے نو اشعار میں سے دو اشعار بے وزن ہوگئے تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔ جو سات اشعار وزن میں تھے، ان پر تو آپ نے داد نہیں دی، دو شعر بے وزن نظر آئے تو ان پر آپ نے اعتراض کر ڈالا۔ ان کے اس طرز گفتگو پر ہم نے خود پر ملامت کی۔ اس دن کے بعد سے ہم نے توبہ کرلی کہ اب کسی کو کوئی مشورہ نہیں دیں گے۔ استادی ، شاگردی کی روایت ، دم توڑ رہی ہے۔ اب پیدائشی استادوں کا دور ہے۔
ایک صاحب نے ایک نوجوان سے پوچھا کہ تمہارے استاد کا کیا حال ہے، اس نے برجستہ کہا کہ وہ میرے سابق استاد ہیں ۔ اس کو یہ ہی نہیں معلوم کہ استاد اور باپ ، کبھی سابق نہیں ہوتا، یہ بات بھی غور طلب ہے کہ نئی نسل، اساتذہ سے کیوں دور بھاگتی ہے۔ اکثر اساتذہ، نوجوانوں کی کھل کر حوصلہ آفزائی نہیں کرتے، وہ اس شش و پنج میں مبتلا رہتے ہیں کہ پڑھے جانے والے اشعار اس کے ہیں یا کسی اور کے، حضرت علیؓ کا قول ہے " یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے" اساتذہ کو اپنے رویوں میں تبدیلی لانا چاہئے ۔ ان کا کام، شاگردوں کو علم و فن سے آگاہ کرنا ہے، اپنا معتوب بنانا نہیں ۔ بعض اساتذہ کا رویہ ، عجیب و غریب ہے، مشاعرے میں کسی کو داد نہیں دیتے، یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ کس کا شعر بے وزن ہے ، کس کی ردیف کام نہیں کر رہی ، ان کی نظر محاسن پہ نہیں، معائب پر رہتی ہے۔ لیکن جب ان کا کوئی شاگرد کلام سنانے آئے تو لہک لہک کر داد دیتے ہیں۔ شاگرد پہلا مصرع پڑھ ہی رہا ہوتا ہے کہ استاد دوسرا مصرع پڑھ دیتے ہیں ، گویا یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ یہ غزل میری عطا کردہ ہے۔ ایک مشاعرے میں ایک نوجوان کو، ایک شعر پر بے پناہ داد ملی، ایک سینئر شاعر نے بلند آواز میں کہا کہ، بیٹے تم نے نہت عمدہ شعر کہا ہے، ان کے برابر میں بیٹھے ہوئے اس نوجوان کے استاد نے بر ملا کہا کہ " یہ شعر بھی خوب ہے، لیکن اس کے بعد والا شعر دیکھنا" اس سے وہ کیا ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ ایسے ہی لوگوں نے نئی نسل کو اساتذہ سے متنفر کیا ہے، ایک دن ایک نوجوان اپنے کلام پر اصلاح کی غرض سے ہمارے پاس آیا، ہم نے اس سے کہاکہ ہم تو خود ابھی تک طفلِ مکتب ہیں ، کسی مستند استاد سے رجوع کریں، اس نےکہا کہ آپ کسی استاد کے پاس بھیج دیں، ہمارے کہنے پر وہ ایک استاد کے پاس چلے گئے، استاد نے کہا کہ " شاگرد بنانے کے لئے میری کچھ شرائط ہیں،" اس نے کہا کہ فرمائیے، استاد نے فرمایا " میں مصرع بدلوں یا شعر ، تمہیں میرے حکم کی پاسداری کرنا ہوگی، میں پوری غزل تبدیل کرنے کا بھی حق رکھتا ہوں" ان کی یہ باتیں سن کر اس نوجوان نے کہا کہ. اس طرح تومیں تمام زندگی، شاعر نہیں بن سکوں گا۔ استاد نے کہا کہ " اگر تمہیں ، میری یہ شرائط منظور نہیں تو کوئی اور استاد ڈھونڈ لو" ہم اس واقعے کے چشم دید گواہ ہیں ۔ کوئیٹہ کے ایک مشاعرے میں ایک استاد کے بیٹے نے مشاعرہ لوٹ لیا، اس کی غزل کے بعد مشاعرہ بیٹھتا چلا گیا، استاد بھی تمام حربوں کے باوجود، رنگِ محفل جمانے میں کامیاب نہ ہوسکے، دوسرے دن ناشتے کی میز پر تمام شعرا اور میزبان جمع تھے، ایک صاحب نے استاد سے مخاطب ہوکر کہا کہ رات کو آپ کے صاحبزادے نے مشاعرے میں جو کیفیت پیدا کی ، اسے تا دیر یاد رکھا جائے گا، اس پر استاد گویا ہوئے کہ میں تو اس کا کلام دیکھتا ہی نہیں ، استاد کی اس بات پر وہاں موجود، ایک سینئر شاعر نے برجستہ کہا " استاد ! آپ نے درست فرمایا، اپنا کلام، کون دیکھتا ہے، اس جملے پر تمام لوگوں کے چہرے ، کھل اٹھے، استاد بھی معنی خیز انداز میں مسکرائے جیسے کہہ رہے ہوں " بجا فرمایا" ایک استاد کو یہ خبط تھا کہ اگر کسی ایک لفظ بھی ان سے پوچھ لیا تو وہ اسے اپنے شاگردوں کی فہرست میں شامل کرلیا کرتے تھے۔ ستم یہ کہ جب ان کی کتاب آئی تو وہ تمام نام بطورشاگرد اس کتاب میں موجود تھے۔ جس پر بڑی لے دے ہوئی، بعض شعرا نے اپنے نام کی شمولیت پر بھر پور احتجاج کیا، اور ان سے قطع تعلق کرلیا، شاگردوں کی فہرست چھاپنے سے کچھ نہیں ہوتا، مزا تو جب ہے کہ شاگرد ، خود اعتراف کرے کہ میں فلاں کا شاگرد ہوں میں ایسے استادوں کو خود ساختہ استاد کہتا ہوں۔
ایک شاعر اپنے نام سے پہلے استاد ، کا لاحقہ ضروری سمجھتے تھے، اگر دعوت نامے پر ان کے نام کے ساتھ "استاد" نہ لکھا جاتا تو وہ برہمی کا اظہار کیا کرتے تھے۔ وہ ایک مشاعرے کی صدارت کر رہے تھے، ناظم مشاعرہ نے کئی بار ان کا نام لیا، لیکن نام سے پہلے استاد نہیں لگایا، موصوف نے غصے کے عالم میں اپنے ایک شاگرد کو بلا کر کہا کہ " ناظم مشاعرہ سے کہو کہ میرا، پورا نام لے" اسے ان کی معصومیت کہا جائے کہ احساسِ برتری۔ قمر جلالوی،. اپنے دور کے واحد شاعر تھے، جنہیں ان کے سینئرز بھی استاد کہا کرتے تھے ، آج بھی انہیں اسی لاحقے سے یاد کیا جاتا ہے۔
ایک استاد بڑی کشادہ دلی کے ساتھ اپنے شاگردوں کو غزلیں لکھ کر دیتے رہے، لیکن جب بھی کسی شاگرد سے تعلقات خراب ہوئے، انہوں نے برملا اعلان کیا کہ فلاں شاعر یا شاعرہ کے مجموعہ کلام میں جتنی غزلیں ہیں، وہ میری دی ہوئی ہیں ، ہمارے نزدیک ، کسی غیر شاعر کو شاعر بنانا بھی مجرمانہ فعل ہے، متشاعر، زیادہ ، دن ، زندہ نہیں رہتے، استاد کے بعد "بیوہ" ہوجاتے ہیں۔ یم ایک ایسے استاد کا ذکر کرہے ہیں جو بہت زود گو تھے، لیکن فنی معاملات سے نابلد، انہیں شاگرد بنانے کا بہت شوق تھا، اپنے پوتوں اور نواسوں تک کو میدان میں لے آئے، سادے کاغذ پر اصلاح دینا ان کا محبوب مشغلہ تھا، شاگردوں کی خاطر تواضع بھی ایسی کہ دیکھنے والا، رشک کرے، غالباٙٙ اسی وجہ سے شاگردوں کی فوج ظفر موج انہیں گھیرے رہتی تھی ، ہر ماہ اپنی رہائش گاہ پر طرحی مشاعرے کا اہتمام کرتے ، صدارت ہمیشہ انہوں نے اپنے پاس رکھی، اتفاق سے کوئی سینئر شاعر آجاتا تو ۔ مسند مہمان خصوصی عطا کردی، ان کی ہر غزل تیس ، چالیس اشعار پر مشتمل ہوا کرتی تھی ، ایک دن ہم نے نہایت ادب کے ساتھ کہا کہ " استاد، شعروں کا انتخاب کرلیا کریں" فرمایا " میں اس معاملے میں بد دیانتی نہیں کرتا، جتنے شعر اللہ ودیت کرتا ہے، سب پڑھ دیتا ہوں" مشاعرے میں اگر کوئی شاگرد، غزل پڑھنے میں کوئی غلطی کردیتا تو برسرِ محفل ٹوک دیا کرتے، اور بتاتے کہ یہ شعر یوں پڑھو، ایک محفل میں ان کا ایک شاگرد، غزل سرا تھا، اس نے کسی شعر میں غلطی کردی، استاد نے دو لقمے دیئے، لیکن وہ شعر اسی طرح، پڑھتا رہا، جس پر استاد خاصے برہم ہوئے، شاگر استاد سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ " میں وہی پڑھ رہا ہوں جو آپ نے لکھ کر دیا ہے، اتفاق سے استاد ہمارے پڑوسی تھے، ہم نے ایک دن استاد کو محشر بدایونی کے سلام کا مطلع سنایا، جو کچھ یوں تھا
یہ کون کہتا ہے، ترسے حسینؓ پانی کو
لبِ حسین کو ترسا ، فرات کا پانی
شعر سن کر استاد نے بے پناہ داد ، دی۔ دوسرے سال استاد نے اپنی رہائش گاہ پر مجلسِ مسالمہ کا اہتمام کیا، اسٹیج پر جو بینر لگایا گیا تھا اس پر محشر بدایونی کا یہی شعر درج تھا لیکن شعر کے نیچے استاد نے اپنا نام لکھوا دیا تھا، ہم نے کہا کہ استاد ! یہ شعر تو محشر بد ایونی کا ہے جو انہوں نے پچھلے سال پی ٹی وی پر منعقدہ مجلس مسالمہ میں سنایا تھا، بڑی سفاکی کے ساتھ کہنے لگے ، ان کا کہاں سے آیا ، یہ شعر تو میں نے 1956 میں کہا تھا، ممکن ہے کسی نے انہیں میرا شعر سنایا ہو اور انہوں نے اپنے بیاض میں رکھ لیا ہو۔ وہ حقیقی استاد نہیں تھے، لیکن یہاں استادی دکھا گئے۔
میں دو مستند اساتذہ کا ذکر کرکے اپنی بات ختم کروں گا، میں نے حضرت تابش دہلوی کی صدارت میں ایک نعت پڑھی جس کا ایک شعر کچھ یوں تھا
بہ فیضِ اذنِ سرکارِؑ دو عالم
زمیں پر سانس لیتی ہے، ہوا تک
مشاعرے کے بعد انہوں مجھے اپنے پاس بلاکر کہا کہ تم میرے دوست، جوہر سعیدی کے بیٹے ہو، تمہاری غلطی کی نشاندہی کرنا، میرا اخلاقی فرض ہے، تمہارے اس شعر میں ، شرک کا پہلو نمایاں ہے ، نعت بڑی احتیاط کی متقاضی ہے، چنانچہ میں نے وہ شعر اپنی بیاض سے حزف کردیا
ایسے ہوتے ہیں استاد
میں نے ایک نعتیہ مشاعرے میں شعر پڑھا کہ
پڑھ کر شہ لولاک کی سیرت ، اختر
اس دور کے انسان کو، جینا آیا
ڈاکٹر حنیف اسعدی نے بلند آواز میں دوسرا مصرع ، معمولی ترمیم کے ساتھ اس طرح دہرایا
" ہر دور کے انسان کو، جینا آیا"
ایک لفظ کی تبدیلی سے شعر کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ اس دور میں ایسے اساتذہ مفقود ہیں، میں دونوں اساتذہ کا تمام زندگی، احسان مند رہوں گا۔