آخر پارلیمنٹ کو کس کی یلغار کا ڈر ہے؟
سینیٹ کے نومنتخب چیئرمین نے متنبہ کیا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی طرف کوئی یلغار کرنے کی کوشش کرے گا تو دونوں ایوان مل کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں گے اور پارلیمنٹ کا دفاع کریں گے۔
اس یلغار کا اشارہ یقینا مارشل لاء کی طرف نہیں ہے۔ ان ایوانوں میں جو حضرات تشریف فرما ہیں‘ ان میں سے بہت سے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے رفقا میں شامل تھے۔ بعض تو آمریت ہی کی دریافت ہیں۔ بعض کی سیاسی پرورش فوجی ڈکٹیٹروں نے کی۔
اس یلغار کا اشارہ بھارتی فوج کی طرف بھی نہیں ہو سکتا۔ بھارتی فوج کی یلغار تو افواجِ پاکستان روکتی رہی ہیں اور آئندہ بھی ایسا روزِ بد آیا تو وہی آگے بڑھیں گی۔
پارلیمنٹ کی طرف فیوڈل بھی نہیں بڑھ سکتے۔ نہ کارخانہ دار۔ ان کے مفادات کو کبھی وہاں چیلنج ہی نہیں کیا گیا۔
یلغار کا ڈر صرف عوام سے ہے۔ پارلیمنٹ کی تاریخ شاہد ہے کہ پارلیمنٹ چند ہی مواقع پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی ہے۔ جب ان کی اپنی مراعات میں اضافے کا کوئی بل پیش ہوتا ہے تو اختلافات بھلا کر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ جب ایک خاص طبقے پر ٹیکس لگانے کی بات ہوتی ہے تب متحد ہو جاتے ہیں۔ جب عوام نے ڈی چوک پر دھرنا دیا تھا جس میں غالب اکثریت مڈل کلاس اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی تھی‘ پارلیمنٹ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر عوام کے سامنے کھڑی ہوگئی تھی۔
معروف پولیٹیکل سائنٹسٹ اور معیشت دان ڈاکٹر فرح سلیم کی تحقیق کے مطابق پاکستان کے 27 ملین خاندانوں میں سے صرف دو ہزار سات سو خاندان گزشتہ دس انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ صرف یہی خاندان سینیٹ‘ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی ایک ہزار سے زائد نشستوں پر قابض ہیں۔
پاکستانی عوام کے مقابلے میں یہ چنیدہ حضرات قانون سے‘ کم و بیش‘ ماورا ہیں۔ انکم ٹیکس کا معاملہ ہو یا اسلحہ کا قانون‘ ان پر کم ہی نافذ ہوتا ہے۔
پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے عوامی نمائندے‘ عوام کے ساتھ کبھی نظر نہیں آئے۔ کسی موقع پر انہوں نے عوام کا ساتھ نہیں دیا۔ سی این جی گیس کے لیے عوام مہینوں میلوں لمبی قطاروں میں کھڑے رہے۔ کوئی عوامی نمائندہ کبھی کسی قطار میں نہ دکھائی دیا۔ جن سکولوں میں عوام کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں‘ ان کے بچے ان سکولوں کے نزدیک سے بھی نہیں گزرتے۔ کیا آپ نے کسی سرکاری ہسپتال میں کسی عوامی نمائندے کو ڈاکٹر سے ملنے یا دوائی حاصل کرنے کے لیے عوام کے ساتھ قطار میں کھڑے دیکھا ہے؟ ان میں سے کتنے ہیں جو عوام کے ساتھ بسوں میں سفر کرتے ہیں؟ ٹیکسی یا رکشے میں بیٹھتے ہیں؟ ان میں سے کتنے ریل کے عام ڈبوں میں سفر کرتے دیکھے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ ایئرپورٹوں پر ان کی انتظار گاہیں بھی الگ ہیں۔ ان کے لیے وی آئی پی لائونج بنے ہوئے ہیں جب کہ عوام کو ان سے الگ‘ عام برآمدہ نما انتظارگاہوں میں بٹھایا جاتا ہے۔ ان کے لیے پروازوں کے اوقات بدل دیے جاتے ہیں۔ ایک ایک عوامی نمائندے کے لیے کئی کئی سو مسافروں کو انتظار کرایا جاتا ہے۔ عوام بینکوں سے لیے ہوئے قرضے نہ ادا کریں تو ان کی جائدادیں قرقی کر لی جاتی ہیں مگر معززین کے اربوں کے قرضے بیک جنبشِ قلم کالعدم قرار دے دیے جاتے ہیں۔
رہے اہم قومی مسائل تو ان کی گونج کم ہی پارلیمنٹ میں سنائی دیتی ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ زرعی اصلاحات ہیں۔ بھارت میں یہ اصلاحات تقسیم کے چار سال بعد نافذ کردی گئی تھیں۔ ریاستیں‘ ریاستوں کے راجوں اور نوابوں کو دی جانے والی خصوصی ادائیگیاں‘ جاگیریں سب ختم ہو گئیں۔ کیا کبھی پاکستانی پارلیمنٹ میں ملک کے زرعی نظام پر بحث کی گئی اور کیا کبھی اصلاحات پر غور کیا گیا؟
ملک کا نظامِ تعلیم ازکار رفتہ اور جدید تقاضوں سے کوسوں دور ہے۔ بیک وقت کئی نظام رائج ہیں۔ اکثریت سرکاری سکولوں میں دھکے کھا رہی ہے جن کی دیواریں ہیں نہ چھتیں‘ میز کرسیاں ہیں نہ پینے کا صاف پانی‘ نہ اساتذہ کی تعداد ہی پوری ہے۔ پھر لاکھوں مدارس ہیں جن میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہیں اور آٹھ سال کے بعد فارغ التحصیل ہوتے ہیں تو سوائے مسجد کی امامت کے کوئی کام نہیں کر سکتے۔ کیا کبھی پارلیمنٹ میں ان تمام پہلوئوں پر بحث ہوئی؟ کیا کبھی اصلاحات تجویز کی گئیں؟ خواندگی کا تناسب بڑھانے کے لیے آج تک پارلیمنٹ میں کل کتنے گھنٹے بحث کے لیے وقف کیے گئے؟
ملک کی آبادی کا دس فیصد سے کم حصہ ٹیکس ادا کر رہا ہے؟ کیا پارلیمنٹ نے اس موضوع پر کبھی کوئی پالیسی بنا کر قوم کو سونپی ہے؟ ملکی اور بین الاقوامی میڈیا گواہ ہے کہ ہمارے ارکانِ پارلیمنٹ کی اکثریت خود ٹیکس ادا نہیں کرتی یا مروجہ قوانین کے مطابق نہیں دیتی!
دہشت گردی کو لے لیجیے۔ کیا جب مذاکرات کے لیے کمیٹی بنی تھی تو پارلیمنٹ نے اپنا کردار ادا کیا تھا؟ کمیٹی کے ارکان میں تو ان کی نمائندگی ہی نہیں تھی!
پھر خارجہ امور کی بات کر لیجیے۔ دوسرے ملکوں کی پارلیمنٹ میں جزئیات تک زیرِ بحث آتی ہیں۔ پورا قومی پریس سفیروں کی تعیناتی کے مسئلے پر حکومت کی جانبداری کو ہائی لائٹ کر چکا ہے۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں ایک ایسے افسر کو تعینات کیا گیا جس کا تعلق ٹریڈ سے تھا نہ خارجہ امور سے‘ اسی طرح حال ہی میں کینیڈا جیسے بڑے اور اہم ملک میں تعیناتی شخصی بنیادوں پر کی گئی ہے۔ کیا پارلیمنٹ نے یا اس کی خارجہ امور کی کمیٹی نے ان شکایات کا نوٹس لیا ہے؟ کیا آج تک پارلیمنٹ نے نشان دہی کی ہے کہ ملک وزیر خارجہ کے بغیر چل رہا ہے؟ اور تو اور‘ چھوٹے صوبوں کے کسی ایک نمائندے نے بھی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر کہا ہے کہ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ چین‘ ترکی‘ قطر اور دوسرے ملکوں میں جا کر خارجہ امور کو کس قانون کے تحت نمٹا رہا ہے؟ دوسرے ملکوں کے سفیر‘ وفاقی دارالحکومت سے جوق در جوق ایک صوبائی دارالحکومت کی طرف کیوں رواں ہیں؟ وہ پشاور‘ کوئٹہ اور کراچی جا کر وہاں کے وزرائے اعلیٰ سے کیوں نہیں ملتے؟ کیا ان سب حالات سے پارلیمنٹ بے خبر ہے؟
کسی بھی ملک میں مواصلات‘ ذرائع رسل و رسائل اور نقل و حمل ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیا نئی شاہراہیں بنانے کی حکمت عملی پارلیمنٹ میں زیر غور آئی؟ کیا دارالحکومت میں زیر زمین ریلوے کے بجائے میٹرو بس چلانے کا فیصلہ پارلیمنٹ نے کیا؟ کیا کراچی اور لاہور کے درمیان موٹروے بنانے اور اس کا راستہ متعین کرنے کا مسئلہ پارلیمنٹ نے طے کیا؟ چین سے گوادر روٹ کا مسئلہ ملک پر چھایا رہا۔ میڈیا نے اپنا کردار ادا کیا۔ اس ضمن میں چند وزرا نے پریس کانفرنسیں کیں۔ کیا یہ مسئلہ اتنا غیر اہم تھا کہ پارلیمنٹ نے اس پر کوئی بحث نہیں کی؟
کیا آج تک پارلیمنٹ نے پوچھا ہے کہ وفاقی پبلک سروس کمیشن میں ارکان کی تعیناتیاں کون کرتا ہے؟ کیا معیار ہے؟ صرف ریٹائرڈ بیوروکریٹ… وہ جو روابط رکھتے ہیں‘ کیوں نامزد ہوتے ہیں؟ آخر پروفیسر‘ ڈاکٹر اور معاشرے کے دوسرے طبقات سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اہلِ دانش کیوں ان تعیناتیوں کے قابل نہیں سمجھے جاتے؟ آخر وفاقی پبلک سروس کمیشن ہی وہ ادارہ ہے جو مستقبل کے بیوروکریٹ منتخب کر کے قوم کے حوالے کرتا ہے۔
ہاں! تحاریکِ استحقاق ہماری پارلیمنٹ میں باقاعدگی سے پیش ہوتی ہیں۔ کسی معزز رکن کو کوئی افسر فون کرنے میں تاخیر کردے تو استحقاق مجروح ہو جاتا ہے۔ یہ استحقاق‘ حسنِ اتفاق سے اُن عوام کو حاصل نہیں جن کے خون پسینے کی کمائی سے افسر بھی پرورش پاتا ہے اور معزز رکن بھی مراعات حاصل کرتا ہے!
آخر پارلیمنٹ کو کس کی یلغار کا ڈر ہے؟ انور شعور یاد آ گئے ؎
میں نے تو کوئی دُکھ تمہیں ہرگز نہیں دیا
پھر دو جہاں کا کون سا غم کھا گیا تمہیں؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“