کون جائے گا ترکی
سیاحت اور تفریح دونوں کسی حد تک مختلف شوق ہیں۔ تفریح کرتے ہوئے آپ کو یہ جاننا ضروری نہیں کہ آپ کہاں کھڑے ہیں، سفر کے بعد کہاں پہنچے ہیں اور آپ جس مقام پر پہنچے ہیں، وہاں کا جہان کیا ہے۔ سیاح تو دنیا کی تلاش میں نکلتے ہیں، علم ومعلومات کے خزانوں کی تلاش۔ آج سے 35سال قبل 1983ء میں جب میں نے ایران سے سرحد پار کرکے مشرقِ وسطیٰ میں قدم رکھا تو میرے احساسات ناقابل بیان تھے۔ میں ایران، ترکی اور اشتراکی دنیا ، مشرقی یورپ کی تلاش میں نکلا تھا، تب میرے ہم جماعت موٹرسائیکل خریدنے کے لیے بے تاب ہوتے تھے اور میں جہاں گردی کے لیے سارا سال ایک ایک روپیہ جمع کرتا تھا۔ مجھ سے زیادہ خوش حال دوست اُن دنوں سیروتفریح کے لیے بنکاک جاتے تھے۔ جیب میں تین سو ڈالر لے کر تین سے زائد ممالک کی جہاں گردی کے لیے نکلنا جنون نہیں تو اور کیا تھا۔ نہایت کم عمری میں فارسی، ترک اور مشرقی یورپ کی دنیا۔ ترکی اس سے کہیں پہلے میری دلچسپی کا موضوع بن چکا تھا۔ جب میں چودہ سال کا تھا تو سکول کے زمانے میں جب یہ خبر آئی کہ ترک وزیراعظم بلند ایجوت کے حکم پر ترک افواج خانہ جنگی کا شکار جزیرے قبرص پر پیراشوٹس کے ذریعے ’’امن آپریشن‘‘ کے لیے اتر گئیں ترک افواج نے قبرص میں جاری ترک یونانی قوموں کے مابین خانہ جنگی میں یونان کی پشت پناہ قبرص انتظامیہ کو چیلنج کرکے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ دوسری جنگ عظیم میں اتحادی افواج جس کی قیادت امریکی چھاتہ بردار کررہے تھے، انہوں نے نازی فاشسٹ فوجوں کے خلاف فرانس کے علاقے نارمنڈی میں دنیا کا سب سے بڑا چھاتہ بردار آپریشن کیا۔ اس پیراٹروپس کے دستوں نے ہٹلر کی فوجوں کو فرانس میں شکست سے دوچار ہونے کا آغاز کیا۔ نارمنڈی میں اتحادی چھاتہ برداروں کے بعد قبرص میں بلند ایجوت کے حکم پر ترک افواج کا چھاتہ بردار آپریشن دوسرا بڑا پیراٹروپس آپریشن ہے۔
جب میں نے یہ خبریں پڑھیں، تب میں چودہ سال کا تھا اور پھر چند سال بعد میں اس ترکی جانے میں کامیاب ہوا جس کو شعور کی آنکھ سے دیکھنے کا خواب میں نے پال رکھا تھا۔ لاہور سے نکلا مسافر جب کئی دنوں کی مسافت کے بعد صبح سویرے انقرہ ریلوے سٹیشن پر پہنچا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ایک منفرد، جدید اور ترقی یافتہ دنیا میرے سامنے تھی۔ ارضِ روم سے شام ڈھلے ٹرین روانہ ہوئی تو چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ گھپ اندھیرے میں جہاں گرد کی آنکھیں، اناطولیہ کے پہاڑوں اور میدانوں کو یوں بے نقاب کررہی تھیں جیسے نہایت جدید سائنٹفک دوربین اندھیرے میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ارضِ روم کے مشرقی شہر کا اپنا سحر تھا مگر میری منزل انقرہ اور استنبول تھی۔ اندھیرے کو چیرتے ہوئے میری جہاںگرد آنکھوں نے اناطولیہ کے وہ تمام کوئے (گائوں) دیکھ لینے میں کامیابی حاصل کرلی جو ٹرین کے راستے میں آئے۔ صبح سویرے انقرہ ریلوے سٹیشن پر پہنچنے کے بعد تو ایک جدید ترین شہر میرے سامنے تھا۔ انقرہ جسے 1923ء میں ترکوں نے انقلاب اور آزادی کی جنگیں جیتنے کے بعد آباد کیا تھا۔ ترکی کے دل میں ترکوں نے اپنا نیا دارالحکومت آباد کیا، سٹریٹجک نقطہ نظر کے حوالے سے اس شہر کی آبادکاری کا فیصلہ ترکوں کے بانی اتاترک نے کیا اور یوں یہ مشرقِ وسطیٰ کا پہلا جدید اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت آباد کیا گیا شہر معرضِ وجود میں آیا۔ انقرہ نے ترکوں کی آزادی کے بعد خطے میں روز بروز جو مقام حاصل کیا، اس کی کہانی میرے موضوعات میں دلچسپی کے حوالے سے سرفہرست ہے۔ انقرہ کے بعد جب قدم ایک سے دوسرے شہر گئے تو ترکی میں دلچسپی مزید عشق میں ڈھلتی چلی گئی۔ ایک ترقی یافتہ سماج تواہم پرستوں سے آزاد، روشن خیال اور مستقبل کی تلاش میں سرگرداں سماج۔ بس پھر کیا تھا، ترکی سے عشق اس وقت اپنی انتہا کو پہنچا جب قبرص میں کیے گئے امن آپریشن کے بانی سابق وزیراعظم بلند ایجوت مجھے اپنا عزیز دوست کہنے لگے۔ اُن سے دوستی میرا سرمایۂ حیات ہے۔
ترکی میں دلچسپی اور ترک سماج اور ریاست کو جاننے کے لیے راقم نے آج تک پینتالیس مرتبہ ترکی داخل ہونے کے لیے اپنا پاسپورٹ ترک امیگریشن حکام کی میز پر رکھا۔ اب تو وہ میرا پاسپورٹ دیکھ کر حیران ہوجاتے ہیں۔ ان سفروں کے بعد ترکی سماج، ریاست، سیاست، تہذیب وتمدن، تاریخ اور اس سرزمین کے جو راز مجھ پر کھلنے لگے، وہ صرف کتابوں کے مطالعے تک ممکن نہ تھے۔ ترکوں کی زندگی اور معاشرے کے وہ پہلو جو کتابوں میں زیربحث ہی نہیں لائے گئے۔ میرے ترکی کے سفروں کے بعد جہاں میرے ملک میں لوگ، عام آدمی سے صدر، وزیراعظم اور دیگر پالیسی ساز سننے کے لیے خواہش رکھنے لگے ۔ اس کے ساتھ ہی عالمی نشریاتی ادارے بھی میری ترکی پر رائے کو جاننے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ عام ترک سے لے کر ترک دانشور اور سیاست دان بھی۔ لیکن اسی کے ساتھ گلے شکوے بھی خوب میرے حصے میں آئے۔ میرے درجنوں دوستوں نے چاہا کہ ہمیں اپنے ہمراہ ترکی لے چلو۔ یہ ایک ایسی خواہش تھی جسے پورا کرنا میرے لیے مشکل نہیں بلکہ ناممکن تھا۔ سالوں سے گلے شکوے سن سن کر میرے کان بے شرم ہوگئے کہ کیسے ملک بھر میں پھیلے اپنے دوستوں اور خیرخواہوں کو ترکی لے چلوں۔ آخرکار میرے ایک نہایت مخلص دوست نے چند ہفتے قبل مجھے مائل کیا کہ اب آپ ضرور کوئی راستہ نکالیں۔ اس دوست کے مشورے پر راقم نے اس کٹھن کام کو کرنے کی ٹھانی۔ اور نہایت منصوبہ بندی کے بعد فیصلہ کیا کہ جولائی کے پہلے ہفتے میں ترکی کا ایک منفرد سفر کیا جائے۔ وہ دوست جو راقم کے ساتھ راقم کے تجربات ومشاہدات کی آنکھ سے ترکی سے ترکی دیکھنا اور جاننا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے راقم نے ترکی کے اُن مقامات کی نشاندہی کرکے ترکی کے ایک بڑے ٹور آپریٹر کو اطلاع کی۔ یہ ٹور آپریٹر میرے طے کردہ مقامات پر حیران ہوا اور کہا کہ ہم تو ’’ٹورسٹ‘‘ کو بس ’’اپنے انداز‘‘ میں سیر کرواتے ہیں اور پاکستان سے بڑے بڑے گروپس آئے ہیں، آپ نے ایسا کیوں کیا؟ بس آپ بھی اسی طرح کریں جو ہم ٹورسٹ آپریٹرز کررہے ہیں۔ راقم کا جواب تھا، نہیں یہ تفریح نہیں جہاں گردی ہے۔ ترکی کی جہاںگردی فرخ سہیل گوئندی کے ہمراہ اور ہمراہی دوست ہیں۔ حدیث نبویﷺ ہے کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرو جو اپنے لیے۔ اس لیے میں اپنے احباب کو اس ترکی لے چلوں گا جہاں کم کم پاکستانی جاپائے ہیں۔ میرے پینتالیس سفروں کا نچوڑ۔ اور یہ سفر پاکستان وترکی کے مابین عظیم رشتوں کو مزید مضبوط کرے گا۔ میرے ہمراہ جانے والے پاکستانی دوست جب وطن واپس لوٹیں گے تو وہ ترکی کے مسافرہی نہیں، سفیر ہوں گے۔ میں نے بڑی مشکل سے یہ ذمہ داری نبھانے کا فیصلہ کیا ہے، ایک نئی روایت۔ استنبول، انقرہ، قونیہ (شہرِ رومی) کپادوکیہ اور بحیرۂ مارمرا کا ایک پُراسرار جزیرہ۔ اور وہاں پر لاتعداد ترکوں سے ملاقاتیں۔ عجائب گھروں سے لے کر عظیم الشان مساجد اور اتاترک کے مقبرے سے لے کر ترکوں کی فخرِ جمہوریت ’’گرینڈ نیشنل اسمبلی‘‘ اور وہ گلی کہ جہاں جیسے تاریخ بکھری پڑی ہے۔ ترکی کی تاریخ کے بے نقاب گوشے اور سماج کے اَنہونے راز۔ یکم سے 7جولائی تک پاکستان کے عوامی ڈپلومیٹس کا ایک شان دار دستہ جب ترکی جائے گا تو اس کے اثرات ایک نیا رنگ دکھلائیں گے پاک ترک دوستی پر۔