برطانیہ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی سربراہ سعیدہ وارثی پاکستان تشریف لائیں تو بہت سی نئی باتوں کا علم ہوا۔ مثلا یہ کہ ہمارے ہاں شہریوں کو حقوق دینے کا ایک خاص طریق کار ہے اور حکومت اس طریق کار کی پابند ہے۔ وفاقی وزیر نے سعیدہ وارثی کی آمد کے موقع پر انکے گائوں کیلئے گیس کی فراہمی کا اعلان کیا۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اگر کسی گائوں کو گیس چاہیے تو لازم ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والی کوئی شخصیت کسی مغربی ملک میں کسی سیاسی جماعت کی سربراہ ہو اور پھر وہاں سے آ کر اپنے گائوں میں اجتماع سے خطاب کرے۔ یہ حکومت کا طریق کار ہے۔ چنانچہ جس جس گائوں کو گیس درکار ہے، وہ یہ طریق کار اپنائے۔
کسی اور کو اس سے تسکین خاطر حاصل ہوئی ہے یا نہیں، مجھے بہرحال اطمینان قلب نصیب ہوا ہے۔ وہ یوں کہ اس کالم نگار کے گائوں کیلئے ڈسپنسری منظور کی جا چکی ہے۔ ضلع کے موجودہ حاکم نے دو ملین روپے کا بجٹ بھی حکومت پنجاب سے مانگا ہے۔ گائوں کے لوگوں نے چیف منسٹر اور چیف سیکرٹری کو اپیلیں بھی کی ہیں۔ اخبارات میں بھی آہ وزاری کی ہے لیکن تاحال شنوائی نہیں ہوئی۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شہباز شریف اس کالم نگار سے ناراض ہوں اور بدلہ پورے گائوں سے لے رہے ہوں، غلطی یہ ہوئی ہے کہ گائوں والے درست طریق کار نہیں اپنا رہے۔ انہیں چاہیے کہ اپنے گائوں کی کسی خاتون کو کسی مغربی ملک کی سیاسی جماعت کا سربراہ بنوائیں، اسے بلا کر جلسہ کرائیں اور پھر دیکھیں کہ پنجاب حکومت اپنا فرض منصبی سرانجام دیتی ہے یا نہیں!
دوسرا اصول جو واضح ہوا ہے یہ ہے کہ اگر کوئی بات سعیدہ وارثی جیسی شخصیت کہے تو وہ قابل قبول ہوتی ہے لیکن اگر وہی بات کوئی کالم نگار کہے تو ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔ سعیدہ وارثی نے کہا ہے اور برملا کہا ہے کہ اسلام کے اصولوں پر پاکستان میں عمل نہیں ہو رہا لیکن برطانیہ میں ہو رہا ہے۔ وہاں عورت کی عزت محفوظ ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ آپ دیکھیے کہ یہ کہنے کے باوجود سعیدہ وارثی کو کچھ نہیں کہا گیا لیکن یہ سب جملہ معترضہ کے طور پر عرض کیا گیا ہے۔ اصل موضوع اس کالم کا جاوید ہاشمی کی مذمت ہے۔ جاوید ہاشمی اپنے آپ کو کسی اور جہان کی مخلوق سمجھتا ہے اور مجھے یہ نام نہاد انفرادیت ہر گز پسند نہیں۔ ایک متوازن شخص کو وہی کچھ کرنا چاہیے جو سب کر رہے ہیں۔ آخر سکہ رائج الوقت کیوں قابل قبول ہوتا ہے اور اصحاب کہف جب غار سے نکل کر بازار میں جاتے ہیں تو انکا سکہ کیوں رد کر دیا جاتا ہے؟ ہو سکتا ہے آپ دور کی کوڑی لائیں اور یہ کہیں کہ اصحاب کہف کے ہمراہ تو کتا بھی تھا اور جاوید ہاشمی کے ساتھ کوئی کتا نہیں کیونکہ سارے کتے ادھر ادھر مصروف ہیں تو یہ ایک ایسی دور کی کوڑی ہے جسکے میں نزدیک نہیں جا سکتا!
جاوید ہاشمی کا کوئی ایک قصور ہو تو میں بیان کروں۔ پہلے اس نے یہ کیا کہ اسمبلی میں حق بات کہہ دی۔ جنرل مشرف کا زمانہ تھا، اس زمانے میں مجید امجد کی نظم’’سعادت حسن منٹو‘‘ کی آخری دوسطریں بہت مقبول تھیں…ع
کون ہے یہ گستاخ؟ … تاخ تڑاخ
چنانچہ جاوید ہاشمی کے ساتھ تاخ تڑاخ ہوا اور وہ کئی سال قید میں رہا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نون لیگ کے مالکان سعودی عرب میں تھے اور پس ماندگان قاف لیگ میں۔ جیل میں وہ فروخت ہوا نہ جھکا، اور جو لکڑی فروختنی نہ ہو وہ سوختنی ہوتی ہے چنانچہ وہ جلتا رہا سلگتا رہا لیکن راکھ نہ ہوا۔ جیل سے نکلا تو اس نے جنرل مشرف کے دست راست اور یارِ وفادار شیخ رشید احمد کو راولپنڈی سے فارغ کیا اور دونوں نشستیں نون لیگ کے تھیلے میں ڈال کر خود دامن بھی جھاڑ دیا اور ہاتھ بھی۔ اب چُوری تیار تھی چنانچہ مجنوں آموجود ہوئے۔ جاوید ہاشمی نے گُدڑی کاندھے پر ڈالی اور ایک طرف ہوگیا۔ لیکن اس شخص کی غرابت نے اسے چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ جو قومی اسمبلی میں سب نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے اندر الیکشن کرانے والی شق ختم کر دو، تو اس نے بآواز بلند کہا کہ نہیں، سیاسی جماعتوں کے اندر الیکشن ہونے چاہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسے پھر قید کر دیا جاتا لیکن …ع
اے بسا آرزوکہ خاک شدہ
چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ اس نے ایک اور حرکت کی۔ اس نے اعلان کیا کہ وہ پیدا ہی اداروں کی بالادستی کیلئے ہوا ہے اور یہ کہ اس کی جدوجہد کا اگلا مرحلہ سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت لانا ہے۔ گویا یہ کہنا جنگل میں آگ لگانے کیلئے کافی نہ تھا۔ اس نے ایک اور ظلم کیا اس نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں میڈیا کیخلاف لائی گئی قرارداد کو شہباز شریف کی حمایت حاصل تھی اور قرار داد کی منظوری کے وقت وزیراعلیٰ اسمبلی میں بنفس نفیس موجود تھے۔ چلیئے یہ گستاخی بھی معاف ہو جاتی لیکن یہ عجیب و غریب شخص اپنے آپ کو معاف نہ کروانے پر تلا ہوا ہے۔ اس نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ زرداری گیلانی اور شریف برادران ملک کے مسائل حل نہیں کر سکتے۔ اب نکتہ یہ ہے کہ شریف برادران اس جماعت کے مالکان ہیں جس کا ایک رکن جاوید ہاشمی بھی ہے۔ یہاں ایک بار پھر مجید امجد کی وہ نظم بروئے کار آنا چاہیے تھی جو سعادت حسن منٹو پر ہے اور جس کی آخری سطریں ہیں کون ہے یہ گستاخ…؟ تاخ تڑاخ۔ لیکن شاید کارکنان فضاو قدر اس قدر باذوق نہ تھے کہ مجید امجد کی شاعری تک ان کی رسائی ہوتی!
جاوید ہاشمی میں ایک مافوق الفطرت وصف ہے جو مجھے بالکل پسند نہیں۔ اسے موسم گرما کی شدت میں بھی گرمی نہیں لگتی اور یوں لگتا ہے کہ ہ گرمیوں میں کمبل اوڑھ کر انگیٹھی کے پاس بیٹھا رہتا ہے۔ دوسرے سیاستدان گوشت پوست سے بنے ہوئے ہیں۔ انہیں گرمی تنگ کرتی ہے تو وہ بیچارے ٹھنڈے ملکوں میںچلے جاتے ہیں۔ جب میڈیا کیخلاف قرار داد منظور ہوئی تو نواز شریف لندن میں تھے ۔ وہیں انہوں نے مستی خیل صاحب کو پارٹی سے نکالنے کا حکم دیا جس پر پورا پورا عمل ہوا۔ میاں صاحب کے لندن پہنچنے سے تین ہفتے قبل جناب حمزہ شہباز شریف بھی لندن پہنچ چکے تھے۔ ایم کیو ایم کے جناب فاروق ستار بھی اسی دیار سرد میں تھے۔ غریبوں کے نئے ہمدرد جناب عمران خان بھی ایک مشہور تفریحی مقام سکاٹش ہائٹس میں اپنے صاحبزادوں کے ہمراہ وقت گزار رہے تھے۔ ویسے کچھ لوگوں کا حسن ظن یہ ہے کہ اگر آپ کا گھر تین سو کنال پر مشتمل ہو اور اسلام آباد کے نواح میں ہو تو گرمی نہیں لگنی چاہیے لیکن تین سو کنال کا گھر بہر طور سکاٹ لینڈ کے دلفزا پہاڑ کا مقابلہ تو نہیں کر سکتا، اب حسن اتفاق دیکھیے کہ برمنگھم میں بھی گرمی نہیں پریشان کرتی حالانکہ مولانا فضل الرحمن جب برمنگھم تشریف لے گئے تو انکے پیش نظر صرف علماء کرام کے اجتماع سے خطاب کرنا تھا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما تو خیر لندن میں موجود ہی تھے یا وہاں تشریف لانے والے تھے۔ میں اہل پاکستان کی طرف سے جاوید ہاشمی سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ تم باہر کیوں نہیں جاتے؟ کیا تمہیں گرمی نہیں لگتی؟ آخر سیاست کا یہ عامیانہ انداز کہ اپنے ملک میں رہ کر سیاست کی جائے، اسے کیوں پسند ہے؟…ع
’’ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟‘‘
اب سنا ہے کہ وہ بیمار ہے اور ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ میرا دل تو کرتا ہے کہ اس کے بارے میں یہ مصرع لاکھوں…ع
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی!
لیکن نہیں! ایسے عجیب و غریب شخص کے بارے میں میں ایسا مصرع کیوں لکھوں جس میں چنگاری کا لفظ ہے۔ چنگاری تو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ ہمیں چنگاریاں نہیں چاہئیں۔ ہمیں راکھ راس آتی ہے جو ذرا ہوا چلے تو اڑ کر چہروں پر بیٹھ جاتی ہے۔ راکھ کا ڈھیر اور اس میں چنگاری؟ میں جاوید ہاشمی کی مذمت کرتا ہوں!